راہل گاندھی کی تپسیا کامیاب ہو رہی ہے... ظفر آغا

جس طرح اب عوام راہل کی پریم یاترا سے جڑتے جا رہے ہیں، اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ راہل گاندھی کی تپسیا اب کامیاب ہو رہی ہے

<div class="paragraphs"><p>بھارت جوڑو یاترا / @IncIndia</p></div>

بھارت جوڑو یاترا / @IncIndia

user

ظفر آغا

سیاسی مبصرین محو حیرت ہیں۔ میڈیا کو چپ لگ گئی ہے۔ بی جے پی اور بذات خود وزیر اعظم نریندر مودی تک خاموش ہیں۔ آئے دن راہل گاندھی کا مذاق بنانے والے سکتے میں ہیں۔ اب کہیں آپ کو راہل گاندھی کا نام نہیں سنائی پڑتا ہے۔ اس کی وجہ بھی ہے۔ وہ راہل گاندھی جس کو بی جے پی، سنگھ، میڈیا اور مودی بھکتوں نے ہندوستانی سیاست کا زیرو بنا کر پیش کیا تھا، وہی راہل گاندھی آج ہندوستانی سیاست کا ہیرو بنتا جا رہا ہے۔ جی ہاں، راہل کم از کم ابھی تو عوامی ہیرو ہے۔ میں جب یہ کالم لکھ رہا تھا اس سے ایک روز قبل راہل گاندھی اتر پردیش کی سرحد سے نکل کر ہریانہ میں داخل ہو چکے تھے اور ان کی یاترا کو جو عوامی خیر مقدم مل رہا تھا وہ ناقابل امید تو کیا، ناقابل تصور بھی تھا۔ جن لوگوں نے راہل کی یاترا میں باغپت اور کیرانہ میں شرکت کی، ان کے مطابق ان مقام پر کم از کم ایک لاکھ لوگ بھارت جوڑو یاترا میں شریک ہوئے۔ لوگوں کا ہجوم نہیں بلکہ انسانوں کا ایک سمندر تھا جو راہل گاندھی کے ساتھ ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ ایک انسانی سیلاب جس کو روک پانا ناممکن نظر آ رہا تھا۔ یہ اس اتر پردیش کا عالم تھا جہاں پچھلے تیس برس میں کانگریس پارٹی اقتدار سے باہر ہے۔ کبھی کانگریس کا قلعہ رہی کانگریس کے پچھلی تین دہائیوں میں اسی اتر پردیش میں راہل کے لیے عوام سڑکوں پر نکل پڑے۔ ظاہر ہے کہ یہ ڈھو کر لائی گئی بھیڑ نہیں تھی۔ لوگ خود بہ خود راہل گاندھی کی یاترا میں شامل ہو رہے تھے۔ یہ حیرت کی بات تو ہے ہی۔ کیونکہ یہ وہ اتر پردیش ہے جو اب بھارتیہ جنتا پارٹی کا قلعہ ہے۔ اسی اتر پردیش میں بابری مسجد گرائی گئی تھی۔ یہیں اب اگلی پہلی جنوری کو ایودھیا میں شاندار رام مندر بن کر تیار ہو جائے گا۔ ملک کے اسی سب سے اہم صوبہ میں ان دنوں کاشی اور متھرا مسجد-مندر قضیہ چھڑ چکا ہے۔ الغرض ہندوتوا سیاست کا سب سے اہم ہر مسئلہ اتر پردیش کی سرزمین پر سربلند ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ اسی صوبہ میں بی جے پی کی بٹوارے کی سیاست سب سے زیادہ گھر کر چکی ہے۔ تب ہی تو اسی صوبہ سے بی جے پی کو لوک سبھا اور اسمبلی دونوں میں یہاں سب سے زیادہ سیٹیں ملتی ہیں۔ لیکن آج اسی اتر پردیش نے بٹوارے اور نفرت کی سیاست کو چھوڑ کر راہل گاندھی کی پرخلوص ’محبت کی دکان‘ کے لیے دامن کھول دیا۔ تب ہی تو لاکھوں لوگ اتر پردیش میں بھارت جوڑو یاترا میں شریک ہوئے۔ آخر کیوں! کیا سبب ہے کہ نفرت کے خلاف اتر پردیش میں ابال ہے!

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سچ نظر آنے میں دیر ہو سکتی ہے، مگر اندھیر نہیں ہوتی۔ راہل گاندھی کی بے لوث اور بغیر کسی سیاسی رنگ کی اس پریم یاترا نے لوگوں کو خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ ایک نوجوان اس کڑاکے کی ٹھنڈ میں محض ایک ٹی شرٹ اور جینس میں کسی سے ووٹ نہیں مانگ رہا ہے۔ کسی کو سیاسی لکچر نہیں دے رہا ہے۔ وہ تو بس صرف اتنا کہہ رہا ہے کہ جاگو، جاگو، دیکھو نفرت کی سیاست نے تم کو کہاں پہنچا دیا۔ تم غفلت کی نیند سو گئے، تم نفرت کے سیلاب میں بہہ گئے اور ملک کو اڈانی-امبانی نے لوٹ لیا۔ دیکھو تمھارے روزگار چھن گئے۔ تم سوتے رہے اور تمھارے دھندے بند ہو گئے۔ تم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ تم کمزور اور لاچار ہو گئے۔ صرف تم ہی کمزور نہیں ہوئے، تمھارے ساتھ ساتھ ملک بھی کمزور ہو گیا۔ تب ہی تو چین آئے دن ہندوستان کو آنکھیں دکھاتا ہے۔ اس کے برعکس راہل کا پیغام ہے کہ اٹھو نفرت چھوڑو، بٹوارے کی سیاست چھوڑو، بلکہ آپس میں مل جل کر جیو۔ یہ ہے راہل کا پیغام اور اس پیغام میں وہ اثر ہے کہ اتر پردیش جیسے بی جے پی کے قلعہ میں لوگ سخت ٹھنڈ میں بھی ہزاروں کی تعداد میں راہل گاندھی کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔


راہل کے لیے سڑکوں پر امنڈتے ہجوم کو دیکھ رک بی جے پی کی سٹی پٹی گم ہے۔ بی جے پی راہل کی یاترا پر خاموش ہے۔ اب کوئی راہل گاندھی کا مذاق نہیں اڑا رہا ہے۔ بی جے پی اور سنگھ کو ڈر محض راہل گاندھی سے نہیں ہے، بلکہ ہندوتوا سیاست کے نقارچیوں کو ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں راہل گاندھی نے ہندوستان کی روح کو تو نہیں جھنجھوڑ دیا۔ جی ہاں، ہندوستان ازل سے ابھی حال تک آپسی پریم اور محبت کا ملک رہا ہے۔ یہاں مندر کے گھنٹے، اذان کی آواز، چرچ کی گھنٹیاں، گرودوارے کے سنگیت بھی ایک وقت میں بجتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے انداز اور طریقے سے اپنے بھگوا، اللہ، گاڈ اور واہِ گرو کو یاد کرتا ہے۔ لیکن یہ بی جے پی راج میں نہ جانے کیسا دور آیا کہ نہیں جی اب تو بس ایک ہی دھرم ہوگا۔ یہ جو خود ہندو دھرم اور اس ملک کی روح اور آتما کے خلاف ہے، یہ ملک رام، گوتم، چشتی، کبیر، نانک کا سانجھا ملک ہے۔ یہ صوفی سَنتوں کا دیش ہے۔ یہ تیاگ کا دیش ہے۔ اس تیاگی دیش میں اپنا آرام و سکھ چین چھوڑ کر ایک تیاگی کنیاکماری سے کشمیر کا پیدل سفر کر رہا ہے۔ وہ بھی کس بات کے لیے! اس لیے کہ بھارت جڑ جائے، بھارت سے نفرت کا دور ختم ہو جائے۔ بھارت پھر اسی راستے پر چلے جو اس کے سَنتوں اور صوفیوں نے اپنے تیاگ سے اس ملک کو دیا ہے۔

یہی تو اس بھارت جوڑو یاترا کے سفر میں راہل جیسے تیاگی کی تپسیا ہے۔ اور جس طرح اب عوام راہل کی پریم یاترا سے جڑتے جا رہے ہیں، اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ راہل گاندھی کی تپسیا اب کامیاب ہو رہی ہے۔ یہی ہے بی جے پی کی پریشانی، کیونکہ راہل کی یاترا دیکھ کر لگتا ہے کہ ہندوستان میں راہل کے انسانی محبت کا پیغام اسی طرح گھر کر گیا تو پھر نفرت کی سیاست مشکل میں پڑ جائے گی اور بی جے پی کا بھرم عوام پر کھل جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Jan 2023, 2:40 PM