انٹرویو: ہر الیکشن سے پہلے ہوتا رہا ہے ’گودھرا‘، گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ شنکر سنگھ واگھیلا

آر کے مشرا سے ایک خصوصی گفتگو کے دوران واگھیلا نے کہا کہ ’’اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے پاس گودھرا واقعہ سے قبل ظاہر کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔

شنکر سنگھ واگھیلا، تصویر آئی اے این ایس
شنکر سنگھ واگھیلا، تصویر آئی اے این ایس
user

آر کے مشرا

گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے آر ایس ایس کے ساتھی شنکر سنگھ واگھیلا ریاست میں بی جے پی کے 'موورز اینڈ فیکرز' کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ کھل کر بیان دینے کے لئے مشہور واگھیلا نے نومبر کے آخری ہفتے میں یہ کہہ کر سنسنی پیدا کر دی تھی کہ 2002 میں گودھرا کے مسلمانوں کے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ کار سیوک سابرمتی ایکسپریس کے کس ڈبے سے لوٹ رہے ہیں۔ آر کے مشرا سے ایک خصوصی گفتگو کے دوران واگھیلا نے کہا کہ ’’اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے پاس گودھرا واقعہ سے قبل ظاہر کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔ گودھرا کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے اور ہر الیکشن سے قبل یہ خود کو دوہراتا رہا ہے۔‘‘ پیش ہیں گفتگو کے اہم اقتباسات:

کیا گجرات میں ’اقتدار مخالف لہر‘ ہے؟

یقینی طور پر یہ ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بی جے پی نے وجے روپانی کے تمام وزراء کو ہٹا دیا، جبکہ وزیر اعظم نے چند دن پہلے ہی ان کے کام کی کھلے عام تعریف کی تھی! بی جے پی کے خلاف کافی انڈر کرنٹ ہے اور لوگ تبدیلی کے لیے بے چین ہو رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ لوگ ریاست میں کانگریس کی حکومت کے لیے تیار ہیں۔ بس، سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس کے کچھ لیڈر اقتدار میں آنے کے لیے تیار ہیں؟


جیسا کہ آپ کہتے ہیں، لوگ تبدیلی کیوں چاہتے ہیں؟

دیکھئے، اس وقت ریاست میں کرپشن اپنے عروج پر ہے۔ گورننس نچلی سطح تک پہنچ گئی ہے۔ ریاست میں کووڈ سے ایک لاکھ افراد کی موت ہوئی لیکن ریاستی حکومت نے ڈھٹائی سے یہ دعویٰ کیا کہ یہ تعداد 10000 ہے۔ سپریم کورٹ کی مداخلت سے انہیں اصل اعداد و شمار کو تسلیم کرنا پڑا۔ مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ چھوٹے تاجر، صنعت کار، قبائلی، دلت اور کسان سب کے سب مشکلات کا شکار ہیں، خوشحالی سے دور ہیں۔

آپ کا اس بات سے کیا مطلب ہے کہ کانگریس کے کچھ لیڈر اقتدار میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں؟

کانگریس کو 2017 میں ہی اقتدار میں آنا چاہیے تھا اور وہ آ بھی سکتی تھی لیکن اس نے کچھ غلط امیدواروں کو میدان میں اتار کر موقع گنوا دیا۔ اس بار بھی مجھے لگتا ہے کہ وہ کچھ علاقوں میں بہتر امیدوار دے سکتی تھی، حالانکہ اس بار اس نے قدرے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔


میڈیا کے اندازہ کے مطابق کیا اس بار عام آدمی پارٹی، بی جے پی کو چیلنج دے پائے گی؟

مجھے عام آدمی پارٹی میں کوئی بڑا فرق نظر نہیں آتا۔ میں اسے اقتدار میں آتے ہوئے نہیں دیکھ رہا ہوں اور اپنے دم پر تو بالکل بھی نہیں۔ وہ کانگریس سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے جو کہ ریاست کی اہم اپوزیشن ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کن علاقوں میں کھیل بگاڑے گی اور کس کو سب سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔

یہ بھی مانا جاتا ہے کہ نریندر مودی کی مقبولیت پر سوار بی جے پی گجرات میں ناقابل تسخیر ہے، آپ کیا کہتے ہیں؟

اس بات سے انکار نہیں کہ نریندر مودی کے ارد گرد ایک ’پرسنلٹی کلٹ‘ ہے جو عوام کے پیسے کے بھاری خرچ سے تشکیل دیا گیا ہے۔ لیکن یہ فرقہ، پارٹی کا کارپوریٹائزیشن اور فائیو اسٹار کلچر- یہ سب سنگھ اور بی جے پی پر بہت بھاری پڑنے والے ہیں۔ عرصہ نہیں گزرا کہ سنگھ کے سربراہ کو کسی سیکورٹی کی ضرورت نہیں تھی لیکن آج بہت سے لیڈر سیکورٹی کے بغیر نہیں جا سکتے۔ منفی سیاست، اپوزیشن لیڈروں اور اپوزیشن کی حکومت والی ریاستوں کو ڈرانا، مرکزی ایجنسیوں کا غلط استعمال ناقابل تسخیر ہونے کی چمک پیدا کر سکتا ہے، لیکن یہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ بھارتیہ کسان سنگھ اور بھارتیہ مزدور سنگھ پہلے ہی مرکز کی بی جے پی حکومت پر الزام لگا رہے ہیں۔ سنگھ کے پرانے ساتھی بھی 'اٹیچڈ باتھ روم' کلچر سے ناخوش ہیں۔


راہل گاندھی اس بار گجرات میں زیادہ انتخابی مہم نہیں چلا رہے ہیں، کیا یہ نتائج کو متاثر کرے گا؟

جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں راہل گاندھی سیاست دان نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک ’اسٹیٹس مین‘ ہیں۔ وہ ملک کا خیال رکھتے ہیں اور اپنے ساتھ یا دوسروں کے ساتھ بے ایمانی نہیں کرتے۔ ’بھارت جوڑو یاترا‘ بروقت اور ضروری ہے۔ آپ دشمنی کے بیج بو کر اور لوگوں کو تقسیم کر کے ملک کو کیسے متحد کریں گے؟ لیکن پھر راہل گاندھی کیا کریں گے اگر کانگریس کے منتخب ارکان اسمبلی ہی اپنا رخ بدل لیں؟ عجیب بات یہ ہے کہ انحراف کے لیے بی جے پی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاتا بلکہ اس کے لئے ذمہ دار کانگریس اور راہل گاندھی کی کمزوری کو قرار دیا جاتا ہے۔

میں نے خود ایک پرامن ریٹائرڈ زندگی گزارنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا۔ میں بی جے پی کے خلاف مہم چلا رہا ہوں کیونکہ موجودہ حکومت ان بانیوں کے کام کو تباہ کر رہی ہے جنہوں نے ذات پات میں بٹے ہوئے اور متعصب معاشرے میں اتحاد لانے کی کوشش کی۔ انتخابی نتائج سے معلوم ہوگا کہ راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ میں شمولیت کا کتنا اثر ہوگا!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 03 Dec 2022, 12:34 PM