گجرات انتخابات: یوگی کو ہندوتوا کا پرچم سونپ کر گجرات میں ’یوپی ماڈل‘ کو آزما رہی بی جے پی

اس بار گجرات انتخابات میں ترقی کے نام نہاد گجرات ماڈل کی جگہ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی کے ماڈل نے لے لی ہے، ریلیوں میں بلڈوزر توجہ کا مرکز ہے اور اس کی 'نمائش' زور و شور سے کی جا رہی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آر کے مشرا

گجرات کے 2017 اسمبلی انتخابات کے لئے جاری کئے گئے منشور میں بی جے پی کا نعرہ تھا 'وکاس آوے چھے‘ یعنی ترقی آ رہی ہے۔ پانچ سال بعد بی جے پی کی انتخابی ریلیوں میں اب بلڈوزر نظر آ رہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ گجرات کے نام نہاد ترقی کے ماڈل کی جگہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ماڈل نے لے لی ہے۔ اس بار بی جے پی کی ریلیوں میں بلڈوزر سب سے زیادہ توجہ کا مرکز ہے اور اس کی ’نمائش' زور و شور سے کی جا رہی ہے۔

اس بار 'ہندو ہردے سمراٹ' بھی بدل گئے ہیں۔ ایک بار یہ اصطلاح وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اب اس پر یوگی آدتیہ ناتھ کا نام چسپاں کیا جا رہا ہے۔ وہ جلسوں میں یہ بھی کہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ 'ہمارے بلڈوزر نے اتر پردیش کو فسادات سے پاک کر دیا ہے'۔ وہ گزشتہ دنوں موربی بھی آئے تھے۔ اسی موربی میں جہاں تقریباً ایک ماہ قبل انگریزوں کا بنایا ہوا جھولتا پل مرمت کے باوجود ٹوٹ گیا اور 134 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ اس حادثے کا کہیں ذکر نہیں تھا اور یوگی آدتیہ ناتھ کا 'بلڈوزر بابا' کہہ کر استقبال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجھے بھگوان کرشنا، مہاتما گاندھی، سردار پٹیل اور وزیر اعظم مودی کی سرزمین پر کھڑے ہونے پر فخر ہے۔‘‘


'جعلی مزار' ہٹا کر تعریفیں لوٹنے کی کوشش

یوپی میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) مخالف مظاہروں میں حصہ لینے کے ملزمان کے خلاف بلڈوزر کا استعمال کیا گیا۔ یہ لوگ بنیادی طور پر مسلمان تھے لیکن سارا کریڈٹ یوگی ہی نہ لوٹ لے جائیں اس لئے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کھمبات میں ایک انتخابی ریلی میں اشارہ کیا کہ بیٹ دوارکا میں 'جعلی مزاروں' کو ہٹا دیا گیا ہے اور کانگریس کی مخالفت کے باوجود بی جے پی حکومت صفائی مہم جاری رکھے گی۔ امت شاہ اکتوبر میں بیٹ دوارکا میں 'غیر قانونی تعمیرات' کے خلاف بڑے پیمانے پر چلائی گئی مہم کا حوالہ دے رہے تھے۔

بعد ازاں، جام نگر میں منعقدہ ایک جلسہ عام میں وزیر اعظم مودی نے 'بیٹ دوارکا کا وقار' بحال کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ کو مبارکباد دی۔ عہدیداران اس طرح کی مہم کو اسمبلی انتخابات سے کسی بھی قسم کے تعلق سے صاف انکار کرتے ہیں لیکن ان کے لیے جو وقت چنا گیا ہے وہ یقینی طور پر کان کھڑے کر دیتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہٹائے گئے مزار 'غیر مجاز تعمیرات' تھے اور انہیں بغیر کسی امتیاز کے ہٹا دیا گیا۔ اس وقت یہ سب کرنے کی وجہ کیا تھی، افسران کا غیر رسمی کہنا ہے کہ لوگوں میں یہ پیغام دینے کے لیے تھا کہ وہ 'قومی سلامتی' کے لیے خطرہ ہیں۔


پٹیل کے مجسمے کے لیے لی گئی زمین پر تنازع

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ محض اتفاق ہے کہ جھکاؤ فشنگ ہاربر ایک ایسے حلقے کا حصہ ہے جہاں کانگریس کو غالب سمجھا جاتا ہے۔ 2020 میں یہاں دوبارہ انتخابات ہوئے جب یہاں سے منتخب ہونے والے کانگریس ایم ایل اے پردومن سنگھ جڈیجہ نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی۔ ویسے جڈیجہ نے دوبارہ الیکشن جیت لیا۔ جب بھی بی جے پی کا کوئی بڑا لیڈر اس جگہ کے آس پاس آتا ہے جہاں اسٹیچو آف یونٹی نصب کیا گیا ہے، دیہاتیوں کو ان کے گھروں میں ہی رہنے کو کہا جاتا ہے، کیونکہ مجسمہ کی جگہ کے لیے لی گئی ان کی زمین کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔

ہندوتوا کا پرچم، لیکن پرچم بردار کوئی اور

اس بار ہندوتوا کا پرچم زیادہ لہرانے کی بی جے پی کی پالیسی کی کئی مثالیں ہیں۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما جب گجرات آئے تو انہوں نے کہا کہ راہل گاندھی کی داڑھی انہیں صدام حسین کی یاد دلاتی ہے۔ انہوں نے ایک ریلی میں یہ بھی کہا کہ یہ الیکشن 'لو جہاد اور یکساں سول کوڈ (یو سی سی) پر ریفرنڈم' ہے۔ امت شاہ نے یہاں تک کہا کہ بی جے پی نے انہیں 2002 میں ’سبق‘ سکھایا اور ریاست میں ’مستقل امن‘ کو یقینی بنایا۔ وزیر اعظم نے اپنی انتخابی تقریر میں الزام لگایا کہ کانگریس نے دہشت گردی پر نرم رویہ اختیار کیا ہے۔


ترقی کو بھول کر دہشت گردی پر زور

بی جے پی نے 'ترقی کے چاشنی میں ہندوتوا' کی بات شروع کی تھی، پھر بی جے پی نے اس بار ہندوتوا اور دہشت پر زور دینا اور مبینہ ترقی کو پس پشت ڈالنا کیوں ضروری سمجھا؟ بی جے پی 2014 میں 'ترقی کی چاشنی میں ہندوتوا' کے زور پر ہی مرکز میں اقتدار پر قابض ہوئی تھی۔ اس سے قبل 2019 کے عام انتخابات میں بھی وہ اسے لہرا رہی تھی، حالانکہ بعد میں انہوں نے بالاکوٹ کا جھنڈا اٹھایا تھا۔ گجرات میں بی جے پی 27 سال سے اقتدار میں ہے۔ مودی وزیر اعظم ہیں اور یہ ان کی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی آبائی ریاست ہے۔ لیکن آخر کار بی جے پی کام کو اہم ایشو بنانے میں ہچکچا رہی ہے کیونکہ کئی وعدے ہیں جو برسوں بعد بھی پورے نہیں ہوئے ہیں۔

تقریباً 16 ماہ بعد ہی 2024 میں عام انتخابات ہیں، اس لیے ایسا لگتا ہے کہ پارٹی بیک وقت اپنی زمین تیار کر رہی ہے۔ گزشتہ آٹھ نو برسوں کے دوران مرکزی حکومت کے کام کاج کا پرچم لہرانا مشکل ہے، کیونکہ اس کی پول پٹی بے نقاب ہو رہی ہے، اس لیے ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کو 'مندر'، 'قومی سلامتی'، ’قوم پرستی‘ اور دہشت گردی پر ہی اپنی مہم چلانی پڑے گی۔ گجرات اور پھر آنے والے دنوں میں کرناٹک، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان وغیرہ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بھی ان سب ایسوکو آزمایا جائے گا۔


5 سال میں منشور کا لہجہ بدل گیا۔

2017 اور اس بار کے انتخابی منشور میں فرق صاف ظاہر کرتا ہے کہ بی جے پی نے کس طرح اپنا لہجہ بدلا ہے۔ پچھلی بار ان کا زور 'ترقی' پر تھا، اس بار 'ہندوتوا' اور 'قوم پرستی' پر ہے۔ اس بار اس میں بمشکل ایک اور چیز شامل ہوئی ہے اور وہ ہے اگلے پانچ سالوں میں 20 لاکھ لوگوں کو روزگار۔ ویسے یہ بات بھی دھیان رکھنے کی ہے کہ 2012 میں اس کا دکھاوٹی زور ان چیزوں پر تھا، 30 لاکھ نوکریاں اور 50 لاکھ لوگوں کے لیے 'پکے' گھر۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ جب بی جے پی نئے وعدے کر رہی ہے تو میڈیا اسے اس کے پرانے وعدے بھی یاد نہیں کرا رہا ہے۔

اس بار بھی بی جے پی کی مہم کا زیادہ تر بوجھ وزیر اعظم مودی کے کندھوں پر ہے۔ الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے پہلے ہی وہ انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ انہوں نے مثالی ضابطہ اخلاق کے نافذ ہونے کے بعد 'مہم کے دن' کم کر دیئے ہوں لیکن زیادہ ریلیوں سے خطاب کیا ہے۔ عام تاثر یہ بھی ہے کہ پارٹی نے اس بار انتخابی مہم میں پہلے سے زیادہ خرچ کیا ہے۔ حال ہی میں ایک صحافی نے بھاو نگر میں کوریج کے بعد لکھا کہ اس نے یہاں کے ہینگر میں 19 ہیلی کاپٹر دیکھے۔ ان میں سے ایک کے ذریعے چھتیس گڑھ کے وزیر اعلی بھوپیش بگھیل جبکہ ایک سے دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال تشریف لائے تھے۔ جبکہ دیگر ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بی جے پی حکومت والی ریاستوں کے وزرا یا مرکزی وزرا اور بی جے پی لیڈران تشریف لائے۔

اسمبلی انتخابات میں وزیر اعظم کی سب سے طویل مہم

یکم دسمبر کو جب گجرات میں پہلے مرحلے کی پولنگ ہوئی تو دوسرے علاقوں میں انتخابی مہم زوروں پر تھی۔ وزیر اعظم مودی نے گاندھی نگر اور احمد آباد میں 50 کلومیٹر طویل روڈ شو کا پروگرام رکھا تھا۔ میڈیا کے ایک گروپ کا ماننا ہے کہ کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے کی طرف سے وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کا موازنہ 'راون' سے کرنا ان کے لئے 'ماسٹر اسٹروک' ہے۔ اس بہانے مودی کچھ مبینہ پرانی باتیں بھی یاد دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ویسے، ایک سابق بی جے پی لیڈر کا کہنا ہے کہ ’’کسی بھی وزیر اعظم نے کسی بھی ریاستی الیکشن میں اتنی لمبی مہم میں حصہ نہیں لیا۔ ہندوستان کی انتخابی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔‘‘


لیکن جس طرح سے ریاست میں بی جے پی کی انتخابی جیت کا گراف لگاتار گر رہا ہے، اس سے صاف ہے کہ مودی پہلے کی طرح مقبول نہیں ہیں۔ ہماچل پردیش کی طرح یہاں بھی پارٹی کو باغی امیدواروں سے نبردآزما ہونا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے 19 باغی امیدواروں کو پارٹی سے معطل کر دیا ہے۔ عام آدمی پارٹی اس بار ریاست میں اپنا کھاتہ کھولنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بی جے پی کے سبھی بڑے لیڈر اس بار زیادہ سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔