''بات چیت کرنے کا کیا مطلب"، علی خامنہ ای نے ٹرمپ کی تجویز مسترد کر دی
2018 میں ٹرمپ نے عالمی طاقتوں کے ساتھ تہران کے 2015 کے جوہری معاہدے سے امریکہ کو واپس لے لیا تھا اور پابندیوں کو پھر سے نافذ کر دیا تھا، جس کا ایران کی معیشت پر گہرا اثر پڑا۔

ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای (فائل)
ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدہ پر بات چیت کرنے کی تجویز کو خارج کر دیا ہے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ذریعہ بھیجے گئے خط کے جواب میں انہوں نے ان سے بات چیت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتہ اعلان کیا تھا کہ انہوں نے خامنہ ای کو ایک خط بھیج کر جوہری سمجھوتے کی تجویز دی ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے ساتھ ہی انتباہ کیا تھا کہ ایران کو یا تو فوجی طاقت سے یا پھر سمجھوتے کے توسط سے ہی سنبھالا جا سکتا ہے۔ یہ خطہ بدھ کو ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کو متحدہ عرب امارات کے صدر کے صلاح کار انور گرگاش نے سونپا تھا۔ خامنہ ای نے کچھ یونیورسٹیوں کے طلبا سے بات چیت کرتے ہوئے ٹرمپ کی پیشکش کو 'دھوکہ دھڑی' قرار دیا۔
ایران کی سرکاری میڈیا کے مطابق خامنہ ای نے کہا، "جب ہمیں پتہ ہے کہ وہ اس کا احترام نہیں کریں گے تو بات چیت کرنے کا کیا مطلب ہے؟" خامنہ ای نے مزید کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ سے بات کرنے کا مطلب ہوگا ایران پر لگائی گئی پابندیوں کو مزید سخت کرنا اور ملک پر دباؤ بڑھانا۔
2018 میں ٹرمپ نے عالمی طاقتوں کے ساتھ تہران کے 2015 کے جوہری معاہدے سے امریکہ کو واپس لے لیا تھا اور پابندیوں کو پھر سے نافذ کر دیا تھا، جس سے ایران کی معیشت پر گہرا اثر پڑا۔ خامنہ ای نے واضح کیا کہ ایران کسی بھی طرح کی دھمکی کے تحت بات چیت میں شامل نہیں ہوگا۔
ڈونالڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے تہران کے ساتھ ایک جوہری معاہدہ کے لیے دروازہ کھلا رکھا ہے، انہوں نے اپنے صدر عہدہ کے پہلے دورمیں اپنائے گئے 'پریشر' کیمپین کو پھر سے شروع کر دیا ہے، جس کا مقصد ایران کو عالمی معیشت سے الگ کرنا اور اس کے تیل برآمد پر لگام لگائے رکھنا ہے تاکہ تیل میں مارکٹ میں اس کے مڈل ایسٹ پارٹر اور خود کا دبدبہ قائم رہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔