سری لنکا بحران: سرکاری رہائش گاہ پر مظاہرین کا دھاوا، صدر گوٹابایا راجپکشے فرار

عظیم معاشی بحران سے دو چار سری لنکا کے حالات لگاتار ابتر بنے ہوئے ہیں، تازہ اطلاعات کے مطابق مظاہرین نے صدر گوٹابایا راجپکشے کی رہائش پر دھاوا بول دیا، جس کے بعد صدر وہاں سے فرار ہو گئے

سری لنکا میں عوامی احتجاج / Getty Images
سری لنکا میں عوامی احتجاج / Getty Images
user

قومی آوازبیورو

کولمبو: سری لنکا میں جاری معاشی بحران سے نالاں ہزاروں مظاہرین نے ہفتہ کے روز صدر گوٹابایا راجپکشے کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا۔ خبر ہے کہ صدر گوٹابایا اپنی رہائش سے فرار ہو گئے ہیں۔ دفاعی ذرائع نے صدر گوٹابایا کے فرار ہونے کی تصدیق کی ہے۔ دریں اثنا، مظاہرین نے رکن پارلیمنٹ راجیتا سینارتنے کی رہائش پر بھی حملہ بولا ہے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل 11 مئی کو اس وقت کے وزیر اعظم مہندا راجپکشے بھی اس وقت مع اہل خانہ فرار ہو گئے تھے جب مشتعل ہجوم نے ان کی سرکاری رہائش گاہ کا محاصرہ کر لیا تھا۔

ادھر، سری لنکا کے وزیر اعظم رانیل وکرم سنگھے نے صورت حال پر تبادلہ خیال کرنے اور فوری حل نکالنے کے لئے پارٹی لیڈران کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔ وزیر اعظم وکرم سنگھے نے اسپیکر سے پارلیمانی اجلاس طلب کرنے کی اپیل کی ہے۔ اس دوران پولیس اور مظاہرین میں جھڑپ بھی ہوئی جس میں 100 سے زیادہ مظاہرین زخمی ہو گئے۔ زخمیوں کو قومی اسپتال کولمبو لے جایا گیا ہے۔


میڈیا رپورٹ کے مطابق کولمبو میں واقع صدر کی سرکاری رہائش گاہ کا مظاہرین نے دوپہر کے وقت محاصرہ کر لیا۔ مظاہرین نے وہاں توڑ پھوڑ بھی کی۔ سری لنکا میں بگڑتے معاشی بحران کے درمیان آج صدر گوٹابایا راجپکشے کے استعفیٰ کے مطالبہ پر حکومت مخالف ریلی کا انعقاد کیا گیا ہے۔

سری لنکا میں جمعہ کے روز غیر معینہ مدت تک کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔ فوج کو بھی ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔ پولیس سربراہ چندنا وکرم رتنے نے کہا کہ راجدھانی اور آس پاس کے علاقوں میں جمعہ کی شب نو بجے سے کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہزاروں حکومت مخالف مظاہرین صدر کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے جمعہ کے روز کولمبو میں داخل ہوئے، جس کے بعد کرفیو نافذ کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔


پولیس نے جمعہ کے روز کرفیو نافذ کرنے سے قبل کولمبو میں مظاہرہ کر رہے طلبا پر آنسو گیس کے گولے داغے اور پانی کی بوچھاڑ کی۔ بتایا جا رہا ہے کہ حکومت مخالف مظاہرہ میں مذہبی رہنما، حزب اختلاف کی جماعتیں، اساتذہ، طلبا، کسان، ڈاکٹر، ماہی گیر اور سماجی کارکنان بھی شامل ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔