صدارتی انتخاب: کیا دروپدی مرمو اپنی پارٹی سے اوپر اٹھ کر فیصلے لے پائیں گی؟

کہنے والے کہتے ہیں کہ مرمو کی جیت قبائلی طبقہ کو مضبوط کرے گی، خواتین کو مضبوطی ملے گی، لیکن کیا ایسا ہوتا ہے؟ اب تک سبھی انسانوں کو ہی صدر جمہوریہ بنایا گیا ہے، تو کیا انسانوں کی حیثیت مضبوط ہوئی؟

نریندر مودی اور دروپدی مرمو، تصویر آئی اے این ایس
نریندر مودی اور دروپدی مرمو، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

بی جے پی نے اپنی پارٹی کے وقف کارکن دروپدی مرمو کو صدر جمہوریہ بنانا طے کیا ہے۔ مرمو کا انتخاب بہت غور و خوض کے بعد کیا گیا، اور ان کی حمایت میں وزیر اعظم نے جو کچھ کہا وہ بھی بتاتا ہے کہ یہ فیصلہ کتنے قرینے سے لیا گیا ہے۔ جب آپ کے پاس بی جے پی جیسی اکثریت ہو اور یہ یقینی بھی ہو کہ آپ جسے چاہیں گے اسے صدر جمہوریہ بنا لیں گے، تب صبر اور انکساری کا معاملہ آسان بھی ہوتا ہے۔ لیکن ایسا کہہ کر پارٹی کے سیاسی مقاصد کو کم نہیں کیا جا سکتا۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ مرمو کی جیت ملک کے قبائلیوں کو مضبوطی فراہم کرے گی، خواتین کو مضبوطی ملے گی۔ کیا ایسا ہوتا ہے؟ ہم نے اب تک سارے انسانوں کو ہی صدر جمہوریہ بنایا ہے، تو کیا ملک میں انسان کی حیثیت مضبوط ہوئی ہے؟ ہم نے مسلمان، دلت، عورت کو بھی صدر جمہوریہ بنایا ہے، تو کیا ان سب کی حیثیت مضبوط ہوئی ہے؟ یہ دھوکہ ہے جو سیاست میں قابل ہضم ہے، ملک کے لیے فائدہ پہنچانے والا نہیں۔ یشونت سنہا نے تو اپنی امیدواری سے پہلے اپنی پارٹی ترنمول کانگریس سے استعفیٰ دے دیا، تاکہ آئین کی منشا کا کچھ وقار رہ جائے، لیکن بی جے پی اور مرمو نے تو اس کی ضرورت بھی نہیں سمجھی۔


آئین کا تصور یہ ہے کہ پارلیمانی نظام کے سیاسی نظام کا مکھیا ایک ایسا شخص ہو جو پارلیمنٹ سے بندھا نہ ہو، اقتدار کے کھیل نہ کھیلتا ہو۔ وزیر اعظم ایسا شخص نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ تو پارٹی اور اقتدار کے لیے سبھی طرح کے کھیل کھیلتا ہے اور اسی طاقت پر کرسی پر بیٹھا رہتا ہے۔ مہاتما گاندھی نے اسی لیے ’ہند سوراج‘ میں لکھا ہے کہ وہ وزیر اعظم کو محب وطن ماننے کو بھی تیار نہیں ہیں کیونکہ اس کے کسی بھی فیصلے کی بنیاد ملکی مفاد نہیں ہوتی، وہ تو اپنے اقتدار کو ملک کا مفاد بتا کر سبھی غلط کام کرتا ہے۔

ہمارا آئین بالکل سیدھی سی بات کہتا ہے کہ پارلیمانی سیاست میں امپائر وہی ہو سکتا ہے جو خود کسی ٹیم کی طرف سے نہ کھیلنے لگے۔ آئین کہتا ہے کہ امپائر کا کام ہے کھلاڑیوں کو کھیلنے دے اور اس پر سخت نظر رکھے کہ سبھی ضابطہ کے مطابق کھیلیں۔ کوئی ضابطے سے باہر گیا نہیں کہ امپائر کی سیٹی بجی۔ کیا ایسا غیر جانبدار شخص تلاش کرنا اور اس کا ملنا ممکن ہے؟ بالکل ممکن ہے لیکن تبھی جب آپ اپنے پارٹی اور اقتدار پر مبنی مفادات کے دائرے کے باہر دیکھنے اور تلاش کرنے لگیں، اور ایسا تبھی کر سکیں گے جب آئین کو اپنا راہنما مانیں گے۔


ہمیں آج ایسا صدر جمہوریہ چاہیے جس میں راجندر پرساد، سروپلی رادھاکرشنن، کوچیرل رامن نارائنن اور اے پی جے عبدالکلام ان چاروں کی خصوصیت موجود ہو۔ خاص توجہ دینے کی بات یہ ہے کہ چاروں پارٹی پالیٹکس سے دور اور خاص اہمیت کے حامل افراد تھے۔ راجندر پرساد آزادی کی لڑائی کی قیادت کرنے والوں میں شامل تھے۔ اس دور کی شاید ہی کوئی ایسی ہستی ہو جو آزادی کی لڑائی کا سپاہی ہو لیکن کانگریس سے جڑا نہ ہو۔ ہندوستانی جمہوریت کے پہلے سرپرست کے کردار میں راجندر پرساد اس لیے انوکھے ہیں کہ صدر جمہوریہ کیسا ہو، کیا کرے، کیا نہ کرے، کیا بولے، کیا نہ بولے، ان سب کا فیصلہ ان کا ہی ہوتا ہے۔ جیسے جواہر لال نہرو آزادی کے بعد کے ابتدائی سالوں میں اس ملک کے محض وزیر اعظم نہیں تھے، پارلیمانی جمہوریت کے پیمانوں کے معمار بھی تھے۔ کچھ ویسا ہی کردار راجندر پرساد نے بھی نبھایا۔ جواہر لال کی حکومت سے وہ کئی معاملوں میں عدم اتفاق رکھتے تھے۔ وہ نااتفاقی انھوں نے کبھی چھپائی نہیں۔ آئین کے مطابق ہندوستانی صدر کے کردار کی پہلی سنجیدہ بحث انھوں نے اپنی ہی مدت کار میں کھڑی کی تھی اور اس سے کافی ہلچل بھی پیدا ہوئی تھی۔ وہ اس کے تئیں ہمیشہ محتاط بھی تھے کہ وہ راجندر پرساد کی نہیں، ہندوستان کے صدر کے آئینی کردار کا کیل-کانٹا بنا رہے ہیں جس پر اس نوزائیدہ جمہوریت کو اپنا ڈھانچہ کھڑا کرنا ہے۔ ہندوستان کے ہر صدر کو یہ ذمہ داری راجندر پرساد سے وراثت میں ملی ہے۔

سروپلی رادھاکرشنن ان صدور کے درجے میں آتے ہیں جس کا تصور فلسفی ارسطو نے کیا تھا۔ دانشوری میں اپنی مثال آپ رادھاکرشنن کبھی خاموش یا ’ربر اسٹامپ‘ صدر جمہوریہ نہیں رہے۔ انھوں نے صدر جمہوریہ کا آئینی دباؤ جواہر لال نہرو پر بھی اور بعد میں اندرا گاندھی پر بھی بنائے رکھا۔ کے آر نارائنن سفارتکار اور ماہر معیشت تھے۔ وہ ملک کے پہلے دلت صدر تھے اور انتہائی ماہر و عمیق نگاہ رکھتے تھے۔ اے پی جے عبدالکلام صاحب اٹل بہاری واجپئی کی پسند تھے لیکن انھوں نے ہر چند کوشش کی کہ وہ پارٹی کی نہیں ملک کی پسند بنیں۔ انھوں نے صدر جمہوریہ عہدہ کو اور اس کے طریقہ کار کو بھی جمہوری جامہ پہنایا۔ جب وہ سائنس کی دنیا سے سیاست کی دنیا میں لائے گئے تو سیاست کی اپنی سوچ رہی ہی ہوگی، لیکن کلام صاحب نے کبھی ’اُن کا‘ یا ’اِن کا‘ کھیل نہیں کھیلا۔ انھیں ’عوام کا صدر‘ کہا گیا تو اس لیے کہ وہ نہ خوفزدہ کرتے تھے، نہ خوفزدہ ہوتے تھے۔


ان چاروں کی خوبیوں کا مجموعہ آج کے صدر میں اس لیے چاہیے کیونکہ ہندوستانی پارلیمانی جمہوریت اور ملک کی شکل میں ہندوستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ تب آزادی کو ایک معنی خیز شکل دینے کا چیلنج تھا، آج 75 سال پرانی پارلیمانی جمہوریت کو پٹری پر بنائے رکھنے اور اس کی ترقی کے امکانات کو پختہ کرنے کا چیلنج ہے۔ یہ صبر، صلاحیت، دانشوری، آئین کی گہری جانکاری اور اس کے تئیں عزائم کا مطالبہ کرتا ہے۔ آج ملک کو ایسے صدر کی ضرورت ہے جو ملک اور آئین سے آگے اور اس سے پیچھے نہ دیکھے، نہ دیکھنے دے۔

(نوجیون انڈیا ڈاٹ کام کے لیے کمار پرشانت کے لکھے گئے ہندی مضمون کا ترجمہ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */