آئنسٹائین کی گریوٹیشن تھیوری… تیسری قسط

سورج اپنے آس پاس کی کائنات کو اپنے مادہ کی وجہ سے ایسے موڑ دیتا ہے جیسے ربر کی چادر پر رکھا ہوا وزن اس میں گڈھا پیدا کردیتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وصی حیدر

پچھلی قسط میں بیان کیے گئے تجربوں کے نتیجوں میں چھپے ہوئے قدرت کے راز کو آینسٹائن جیسا ذہین سائنسداں ہی آسان لفظوں میں بیان کرسکا کہ نیوٹن کی بیجان کائنات جس میں سیارے ، ستارے اور کہکشائیں بکھری ہوئی ہیں اور گریوٹیشنل کشش دونوں ہی اصل میں ایک چیز ہیں۔ یعنی فریوٹیشنل فیلڈ کائنات میں پھیلی نہیں ہے بلکہ یہی کائنات ہے۔ یہی وہ آسان سمجھ ہے کو آئنسٹائن کی تھیوری کی بنیاد ہے۔

آئنسٹائن کی بے پناہ ذہانت نے یہ راز عیاں کردیا کہ کائنات اور مادہ(Matter) دونوں الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ کائنات مادہ کی ایک شکل ہے ۔ ہماری دنیا کسی بیجان ڈبہ میں نہیں ہے بلکہ ایک لچیلی کائنات میں ہیں جو مادہ کی وجہ سے مڑجاتی ہے اور اس میں گھماؤ (Currature) ہوتا ہے۔

سورج اپنے آس پاس کی کائنات کو اپنے مادہ کی وجہ سے ایسے موڑ دیتا ہے جیسے ربر کی چادر پر رکھا ہوا وزن اس میں گڈھا پیدا کردیتا ہے۔ ہماری زمین اور باقی سیارے سورج کے گرد کسی پراسرار قوت کی وجہ سے چکر نہیں لگاتے ہیں بلکہ ایک سیدھی لائن میں اس مڑی ہوئی کائنات میں چلتے ہیں جیسے کسی قیف میں کانچ کی گولیاں چلتی ہے۔

اب یہ ایک مشکل مسئلہ تھا کے گھماؤ دار کائنات کو ریاضی کی شکل میں کیسے لکھا جائے۔

19 ویں صدی میں ریاضیات کے شہنشاہ کارل فریڈک گاس (1777-1855)نے ریاضیات کی ایک نئی شاخ کیابتدا ک جس کی مدد سے دوسمتوں (Dimensions) میں کسی بھی طرح کے گھماؤ (Currature) کو لکھا اور سمجھا جا سکتا ہے یعنی ہموار سطح پر جیسے پہاڑ یا گڈھے کو بیان کرنے کے لئے ایک نئی ریاضی کی ترکیب ایجاد کی جس کی گنجائش اقلیدس کی جیومیٹری میں نہیں تھی۔

جرمنی کے ریاضی داں گاس نے اپنے ایک ذہین شاگرد برنیہاڈریمان(1826-1866) کے سپرد یہ کام دیا کہ اس نئی ریاضیات کو تین اور تین سے زیادہ سمتوں والی کائنات میں گھماؤ کو کس طرح لکھا جائے۔

ریمان نت ڈاکٹری کی ڈگری کے لئے جو مقولہ(Thesis) پیش کیا اس کی مدد سے تین اور اس سے زیادہ سمتوں (Directions) والے spaceمیں گھماؤ کو با آسانی بیان کیا جاسکتا ہے۔ اس گھماؤ کو ریمان کرویچر (Reimann Curvature) کہتے ہیں اور یہ انگریزی کے لفظ Rسے لکھا جاتا ہے۔بظاہر ریمان کا یہ مقولہ کسی کام کا نہ تھا لیکن وقت آنے پر آئنسٹائن کی گریوٹیشن کی تھیوری کی اصل بنیاد بنا اور اس وجہ سے ریمان کا شمار عظیم ریاضی دانوں میں ہوتا ہے۔

آئنسٹائن نے گریوٹیشن کی تھیوری کے لئے ریاضی کا ایک رشتہ (Equation) لکھا کہ R اصل میں مادہ (Mass) کے برابر (Equivalent)ہے یعنی کائنات میں (Curve)گھماؤ وہاں ہوتا ہے جہاں مادہ ہوتا ہے۔ یہ ایک Equation جس میں کائنات کے کئی راز چھپے ہیں صرف آدھی لائن سے زیادہ جگہ نہیں گھیرتی ہے۔

آئنسٹائن کی ایک Equation جو GTR کے نام سے مشہور ہے اس کے 14 حصہ ہیں اس میں پیشین گوئیوں کے لاتعداد خزانے ہیں جو یکے بعد دیگرے تجربوں کی کسوٹی پر کھرے ثابت ہوئے ہیں۔

آئنسٹائن کی اس تھیوری کی سب سے بڑی خوبی اس کی منطق کے پیمانے پر مکمل ہونا ہے یعنی اگر ایک بھی پیشین گوئی غلط ثابت ہو تو پوری تھیوری کو ہی بدلنا پڑے گا ، تھوڑا بہت ردو بدل ناممکن ہے۔ جبکہ یہ بات نیوٹن کے گریوٹیشن کے قانون میں نہیں۔

خود آئنسٹائن نے اپنی Equation کے بارے میں یہ کہا کہ اس کا وہ حصہ جو گریوٹیشنل فیلڈ سے مطالق ہے وہ سنگ مرمر کی طرح جامع اور خوبصورت ہے جبکہ مادہ جس طرح اس کی Equation کا حصہ ہے وہ اتنا خوبصورت نہیں ہے۔ آئنسٹائن کی اس Equation اور اس سے جڑی تھیوری کی خوبصورتی اس کی بنیادی سمجھ ہے کہ’’ مادہ کائنات میں گھماؤ پیدا کرتا ہے‘‘۔

ایک ننھی سی Equation میں کائنات کے لاتعداد راز پنہاں ہیں اس کی متعدد پیشین گوئیاں ہے جو اب تک سب کی سب تجربہ کی کسوٹی پر کھری اتری ہیں۔ چند حیرت انگیز پیشین گوئیاں کا ذکر ضروری ہے۔

سب سے پہلے تو یہ Equation بتاتی ہے کہ مادہ کے آس پاس کائنات کیسے مڑ جاتی ہے۔اس گھماؤ کی وجہ سے سیارے سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے نمائش میں موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلائی جاتی ہے۔ بڑے ستاروں کے نزدیک کائنات میں اتنا گھماؤ پیدا ہوتا ہے کہ روشنی کی کرن بھی سیدھی لائن میں چلنے کے بجائے مڑ جاتی ہے۔

1919 میں مکمل سورج گرہن کے وقت برطانیہ کے مشہور فلکیاتی سائنسدان کی نگرانی میں یہ تجربہ کیا گیا کہ کیا دور کے ایک ستارے سے آنے والی روشنی سورج کے پاس سے گزرنے پر مڑ تی ہے کہ نہیں۔

ایڈنگ ٹون (Eddington) کے اس تجربہ سے یہ ثابت ہوا کہ سورج کے نزدیک کائنات میں گڑھا ہو جاتا ہے اور جب روشنی یا کوئی بھی چیز اس راستہ سے گزرے گی تو اس کا راستہ سیدھی لائن کے بجائے مڑ جائے گا۔ اس کے نتیجہ میں ستارے کی آسمان میں ہم کو دکھائی دینے والی جگہ تبدیل ہوجائے گی۔ یہ وہی تبدیلی ہے جس کی پیشین گوئی آئنسٹائن نے کی تھی۔ تجربہ نے آئنسٹائن کی پیشین گوئی کی تصدیق کر دی۔

روشنی کی کرن کے مڑنے کے علاوہ جہاں پر گریویٹیشنل فیلڈ زیادہ ہوگی وہاں وقت کی رفتار بھی مدھم ہو جائے گی۔ یعنی سمندر کے قریب رہنے والے کا جڑواں بھائی اگر پہاڑوں پر رہتا ہے تو اس کی عمر یزادہ ہوگی اور وہ جلدی بڈھا ہو جائے گا۔ گریویٹیشنل فیلڈ کے ساتھ وقت کی رفتار کے بدلنے کی پیشین گوئی کئی بار مصنوعی سیاروں کی مدد سے صحیح ثابت کی جا چکی ہے۔ GPS کے مصنوعی سیاروں میں اس بات کا دھیان رکھا جاتا ہے کہ زمین سے زیادہ دور ہونے کی وجہ سے زمین کے مقابلہ میں وہاں وقت گزرنے کی رفتار زیادہ ہوگی۔ یعنی اگر ہم کسی بھاری سیارے پر جا کر رہیں تو زیادہ دیر میں بڈھے ہوں گے۔

آئنسٹائن نے بڑے ستاروں کی زندگی کے آخری حصہ سے متعلق یہ پیشین گوئی کی کہ اس کا خاتمہ ایک Black Hole کی شکل میں ہوگا۔

سورج اور تمام ستاروں میں روشنی اور قوت پیدا کرنے والا اصل ایندھن ہائیڈروجن کا جلنا (ہائیڈروجن بم) ہوتا ہے۔

ستاروں میں بہت سارا مادہ کی وجہ سے اندر کی طرف گریویٹیشنل کشش اور ہائیڈروجن کے جلنے سے پیدا ہونے والی گرمی کا باہری طرف دباؤ میں ایک توازن بنا رہتا ہے۔ لیکن جب ستارہ میں ہائیڈروجن ختم ہونے لگتی ہے تو یہ توازن ختم ہو جاتا ہے اور یہ ستارہ سکڑنے لگتا ہے۔ سکڑنے کی یہ رفتار وقت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے اور آخر میں وہ بہت چھوٹا اور نہایت گھنا ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جیسے پورے سورج کا مادہ صرف ایک سینٹی میٹر کے گولے میں سما جائے۔ مادہ کے اس قدر گھنے ہونے کی وجہ سے وہاں سے کوئی بھی چیز اور روشنی بھی باہر نہیں نکل سکتی۔ اسی وجہ سے اس کو Black Hole کہتے ہیں۔

1972 میں جب سے پہلا بلیک ہول ملا اور اس کے بعد سے دسویں بلیک ہول صرف ہماری اپنی کہکشاں میں دریافت ہو چکے ہیں۔ ستاروں کی زندگی کا یہ آخری پڑاؤ ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے یہ بہت بعد میں ثابت کیا کہ دھیمے دھیمے اس مردہ ستارہ کا مادہ کائنات میں بکھر جائے گا۔

آئنسٹائن کی Equation سے یہ بھی پیشین گوئی ہوئی کہ پوری کائنات اس حالت میں ہمیشہ نہیں رہے گی بلکہ وقت کے ساتھ بڑی یا پھیلتی جائے گی۔

1929 میں Edwin Hubble کے باریکی سے کیے گئے تجربات سے آئنسٹائن کی پیشین گوئی کی سچائی کی تصدیق ہو گئی کہ کائنات وقت کے ساتھ پھیلتی جا رہی ہے۔ آئنسٹائن کی وہی Equation یہ بھی پیشین گوئی کرتی ہے کہ کائنات کا یہ موجودہ پھیلنا تقریباً 15 بلین سال پہلے شروع ہوا جب کہ پوری کائنات ایک بہت ہی چھوٹے نہایت گرم حصہ میں ایک دھماکہ (Big Bang) سے شروع ہوئی۔ اس دھماکہ کا ثبوت دو امریکی سائنسداں Arno Penzics اور Robert Wilson کے تجربوں سے کاسمک مائیکرو ویو بیک گراؤنڈ ریڈیشن (CMBR) کی شکل میں ملا۔ اس کی اہمیت کی وجہ سے ان دونوں کو 1978 میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔

آئنسٹائن کی تھیوری یہ بھی بتاتی ہے کہ کائنات سمندر یا تالاب میں پانی کی سطح کی طرح ہے۔ اس میں بھی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو گریویٹیشنل لہریں ہیں اور ان کی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہے۔

آئنسٹائن نے پیشین گوئی کی کہ اگر کائنات میں کسی جگہ پر مادہ میں تبدیلی ہوگی تو گریویٹیشنل لہریں پیدا ہوں گی۔ بالکل اسی طرح جیسے اگر تالاب میں ہم پتھر کا ٹکڑا ڈالیں۔ اور یہ لہریں کائنات میں چاروں طرف پھیلیں گی۔ ان لہروں کی قوت مادہ کی تبدیلی پر منحصر کرتی ہے۔

2017 کا نوبل انعام تین امریکی سائنسدانوں (پہلی بار LIGO تجربہ جس میں گریویٹیشنل لہروں کو ناپا گیا) کو نوازا گیا۔ آئنسٹائن کی تھیوری آنے کے تقریباً 100 سال کے بعد LIGO تجربہ میں ستمبر 2015 کو گریویٹیشنل لہروں کا پہلا سگنل ناپای گیا ہے۔ کائنات میں 1.3 بلین سال پہلے دو بلیک ہول کے آپس میں ٹکرانے سے یہ سگنل پیدا ہوا تھا۔ اس تجربہ سے نہ صرف ان لہروں کی سچائی ثابت ہوئی بلکہ کائنات کو سمجھنے کے لیے سائنسدانوں کو ایک نیا ہتھیار بھی ملا۔ ابھی تک صرف روشنی یا Electromagnetic Wave کے ذریعہ سے ہم دور کے ستاروں اور کہکشاؤں کا مطالعہ کر سکتے تھے۔

اوپر بیان کی گئی پیشین گوئیوں کے صحیح ثابت ہونے یہ اندازہ ہو گیا کہ آخر کیوں زیادہ تر سائنسدانوں آئنسٹائن کی اس تھیوری (GTR) کو سب سے زیادہ خوبصورت تھیوری شمار کرتے ہیں اور آئنسٹائن کو ایک عظیم سائنسداں مانتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Nov 2018, 6:09 PM