آئنسٹائین کی گریوٹیشن تھیوری… قسط دوئم

اگر سیاروں کا وزن معلوم ہو تو باآسانی یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ سورج کے گرد کتنے وقت میں ایک چکر پورا ہوگا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ نیوٹن کا مقولہ پوری کائنات میں کہیں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وصی حیدر

آئنسٹائین کی 1905 کی اسپیشل تھیوری آف رلیٹیوٹی کی کامیابیوں کے بعد یہ بات صاف ہوگئی کہ نیو ٹن جیسے عظیم سائنسداں کی گریوٹیشن میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔خاص طور سے روشنی کی رفتار کیونکہ رفتار کی اوپری حد ہے اور کوئی اطلاع یا احساس روشنی سے زیادہ رفتار سے نہیں چل سکتا یعنی سورج کی کشش کا احساس بھی تقریباً 8 سیکنڈ کے بعد ہی ہوگا۔ یعنی نیوٹن کی تھیوری آف گریوٹیشن کو تبدیل کرنے کا وقت آگیا۔ اس مشکل اور بڑے کام کو کرنے میں آئنساٹین کو تقریباً 10 سال لگے۔ 1915 میں انہوں نے گریوٹیشن کی ایک تھیوری پیش کی جس کو ہم سب اب جنرل تھیوری آف GTR) Relativity کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ فزکس کی سب سے زیادہ خوبصورت اور مسحور کرنے والی تھیوری ہے اس کو استعمال کرکے پیشین گوئی کرنا یقیناً مشکل ہے لیکن اس کی بنیادی سمجھ نہایت آسان ہے۔

نیوٹن نے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی کہ زمین پر چیزیں کس رفتار سے گریں گی بلکہ اگر سیاروں کا وزن معلوم ہو تو ہم یہ بھی آسانی سے معلوم کرسکتے ہیں کہ وہ سورج کے گرد کتنے وقت میں ایک چکر پورا کریں گے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ نیوٹن کا مقولہ نہ صرف زمین پر بلکہ پوری کائنات میں کہیں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

نیوٹن کے مقولہ اس بات پر خاموش ہیں کہ یہ فورس کیوں کام کرتا ہے اور کسی بھی دو مادی چیزیں جو ایک دوسرے سے دور ہیں ان میں یہ فورس کیسے کام کرتا ہے۔نیوٹن کا خیال یہ تھا کہ کائنات ایک خالی بے جان ڈبہ کی طرح ہے جس میں ستارے سیارے ایک سیدھی لائن میں حرکت کرتے رہتے ہیں جب تک کہ ان کے بیچ کوئی فورس نہ لگے۔ نیوٹن اس بات پر خاموش ہیں کہ یہ کس طرح کا بے جان ڈبّہ ہے کہ جس میں کائنات ہے۔

آئنسٹائین کی پیدائش سے کچھ سالوں پہلے دوعظیم برطانوی سائنسدانوں مائیکل فراڈے 1791-1861اور جیمس کلارک میکسویل 1831-1879نے نیوٹن کی اس بیجان کائنات میں جان ڈالدی۔ ان کے کارناموں نے برقیات اور مقنا طیسی خصوصیات کو یکجا کرکے یہ ثابت کردیا کہ یہ دونوں بنیادی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ پوری کائنات میں الکٹرو میگنیٹک فیلڈ پھیلی ہوئی ہے اور اس میں حرکت کی وجہ سے ریڈیو لہریں ، روشنی اور کئی طرح کے الیکٹرو میگنیٹک لہریں ایک جگہ سے دوسری جگہ بظاہر خلا میں چلتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: انسٹائن کی گریوٹیشن تھیوری... قسط اول

آئنسٹائین کے لئے الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ نہایت دلچسپی کا باعث تھی اور ان کی ساری تحقیات میں اس کا اہم رول تھا۔ انہیں بنیادی اصولوں کو استعمال کرکے یورپ میں جگہ جگہ بجلی گھر بنائے جارہے تھے جن میں والد بھی کام کرتے تھے۔ان تحقیقات کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات بیجان نہیں ہے بلکہ اس میں الیکٹرو میگنیٹک فیلو پھیلی ہوئی ہے جس میں وائبریشن کی مددسے لہریں چلتی ہیں، ان معلومات سے آئنسٹائین اس نتیجہ پر پہنچے کہ بالکل بجلی کی لہریں یا روشنی کی طرح مادی کشش بھی یقیناً ایک جگہ سے دوسری جگہ کسی فیلڈ کی مدد سے محسوس ہوتی ہے۔اور یہی فیلڈ گریوٹیشنل فیلڈ ہے، آئنسٹائین نے اس فیلڈ کو سمجھنا اپنی تحقیقات کا عین مقصد بنا لیا اور اس کوشش میں لگ گئے کہ کس طرح سے اس فیلڈ اور اس میں حرکت کو ریاضی کے رشتوں میں لکھا جاسکے۔

اس پہلے کہ آئنسٹائین کی اس حیرت انگیز گریوٹیشن کی آسان سمجھ کو بیان کیا جائے یہ ضروری ہے کہ ایسے ذہنی تجربوں کا ذکر ہو جن کی وجہ سے آئنسٹائین ان نتیجوں تک پہنچے۔

گیلیلیو 1564-1642نے اٹلی کے شہر پیسا کے جھکے ہوئے ٹاور سے ایک تجربہ کیا جو بہت مشہور ہے۔ اس نے ایک بھاری اور ایک ہلکی چیز کو اوپری منزل سے گرا کر یہ ثابت کیا کہ دونوں ہی چیزیں ایک رفتار سے ایک ہی وقت میں زمین پر گرتی ہے۔ اس تجربہ نے ارسطو384-322 BC کی تقریباً 2000 سال کی سمجھ کو ہمیشہ کے لئے بدل دیا۔ اس تجربہ کے بہت ہی اہم نتائج ہیں۔

اگر ہلکی اور بھاری چیزایک ہی رفتار سے ایک ہی وقت میں گرتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے گرنے کی رفتار ان میں مادہ کی تعداد پر منحصر نہیں ہے۔ یعنی زمین اپنے پاس کی کائنات میں کچھ ایسا کرتی ہے کہ چیز چاہے ہلکی ہو یا بھاری ایک ہی رفتار سے گرے گی۔ گیلیلیو نے یہ بھی ثابت کیا کہ زمین کی طرف گرنے والی چیز کی رفتار وقت گزرنے پر بڑھتی جاتی ہے ۔ رفتار میں تبدیلی (بڑھنا ، گھٹنا یا رخ بدلنا) کو فزکس کی زبان میں اکسیلریشن کہتے ہیں۔

گیلیلیو کے تجربہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ زمین کی طرف گرتی ہوئی چیز بھاری ہو یا ہلکی اس میں رفتار کی تبدیلی یعنی اکسیلریشن ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ یعنی زمین کی طرف گرنے والی چیز کا اکسیلریشن اس کے مادہ پر منحصر نہیں کرتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اس کے لئے نیوٹن کے آنے کا انتظار تھا۔

عظیم سائنسداں نیوٹن1643-1727 کی تحقیقات کے وسیع میدان میں حرکت اور گریوٹیشن خاص توجہ کا مرکز ہے۔

نیوٹن نے حرکت سے مطالق تین قوانین معلوم کیے، اس سے اہم بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی بھی چیز کی رفتار میں تبدیلی (یعنی اکسیلریشن) صرف قوت لگا کر ہی پیدا کی جاسکتی ہے اور اکسیلریشن کی مقدار اس چیز کے مادہ پر منحصر کرتی ہے۔ یعنی اگر لگائی گئی قوت کو نہ بدلیں تو بھاری چیز مں اکسیلریشن کم ہوگا اور مادہ کی مقدار انریشیل ماس کہلاتاہے۔

چیزوں کا زمین کی طرف اکسیلریشن کے ساتھ گرنے اور سیاروں کا سورج کے گرد چکر لگانے کو سمجھنے کے لئے نیوٹن نے ایک نئے فورس (قوت) کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ نیوٹن نے یہ بتایا کہ کسی بھی دو چیز وں کے درمیان ایک کشش کی قوت کام کرتی ہے اور یہ کشش دونوں چیزوں میں مادہ کی مقدار اور ان کے بیچ کی دوری پر منحصر کرتی ہے، یہی نیوٹن کا مشہور گریوٹیشن کا قانون ہے ۔ اس کے اس مقولہ میں جو مادہ کی مقدار استعمال ہوتی ہے وہ گریوٹیشنل ماس کہلاتی ہے۔

نیوٹن کے حرکت کے قوانین اور گریوٹیشن کےقانون کی روشنی میں اگر گیلیلیو کے تجربہ کو دیکھیں تو ایک دلچسپ بات معلوم ہوتی ہے، بھاری اور ہلکی چیزکے گرنے میں ایک ہی وقت جبھی لگے گا اگر انرسیل ماس اور گریوٹیشنل ماس دونوں ایک ہی ہوں۔ ان دونوں ماس کا ایک ہونا فزکس کی اور خاص کر آئنسٹائین کی تحقیقات کے لئے ایک نہایت اہم نتیجہ تھا اور اس کو مساوت کا اصول (equivalence principle) کہتے ہیں۔

آئنسٹائین کی گریوٹیشن تھیوری تک پہنچنے کے لئے ایک اور ذہنی تجربہ کا بہت اہم رول ہے جس کو سمجھنا ضروری ہے۔

زمین پر کھڑے ہوئے ہم کو اپنے وزن کا احساس زمین کی کشش کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یعنی ہمارا یا کسی بھی چیز کا وزن اصل میں وہ کشش کی قوت (فورس) ہے جس سے زمین اپنی طرف کھینچ رہی ہے، یعنی وزن کا احساس گریوٹیشن کی وجہ سے ہوتا ہے۔

اگر ہم کسی لفٹ میں تیزی سے نیچے کی طرف جائیں تو ہم کو ایکدم سے ہلکے پن کا احساس ہوتا ہے اور اگر کسی اونچے مینار سے چھلانگ لگا کر زمین کی طرف گریں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارا وزن صفر(weightless) ہوجاتا ہے۔ یعنی جب کوئی بھی چیز زمین کی طرف (Freely) گرتی ہے تو اس کا اکسیلریشن 9.8 میٹر فی سیکنڈ فی سیکنڈ ہوتا ہے اور وہ (weightless) ہو جاتی ہے۔اس تجربہ سے یہ اہم نتیجہ نکلا کہ اکسیلریشن اور گریوٹیشن دونوں کا اثر ایک جیسا ہے۔

اوپر بیان کیے گئے تجربہ سے آئنسٹائین نے نتیجہ نکالا کہ اگر سوتے میں چپکے سے ہمارا بستر ایک ایسے راکٹ میں پہنچا دیا جائے جو خلا میں اسی اکسیلریشن (9.8 میٹر فی سیکنڈ فی سیکنڈ) سے چل رہا ہو تو ہم کو بالکل بھی کسی فرق کا احساس نہیں ہوگا اور یہ لگے گا کہ ہم اپنے گھر کے اسی کمرے میں بستر پر لیٹے ہوئے ہیں۔

اوپر بیان کیے گئے ان تمام تجربوں پر باریکی سے غور کرنے کے بعد آئنسٹائین نے جنرل تھیوری آگ گریوٹیشن دی جس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ’’گریوٹیشنل فیلڈ ساری کائنات میں نہیں پھیلی ہوئی ہے بلکہ یہی کائنات ہے‘‘۔ یونی نیوٹن کی بیجان کائنات اور گریوٹیشنل فیلڈ اصل میں دونوں ایک ہی چیزیں ہیں۔

اس مضمون کی تیسری قسط میں آئنسٹائین کی اس تھیوری کی کچھ حیرت انگیز کامیابیوں کا ذکر ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Nov 2018, 9:09 PM