ڈونالڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کی 6 سال بعد ملاقات، تجارتی تعلقات اور عالمی استحکام پر گفتگو
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کی چھ سال بعد جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں ملاقات ہوئی۔ دونوں رہنماؤں نے تجارتی تعلقات، عالمی استحکام اور نایاب زمینی معدنیات پر بات چیت کی

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں طویل عرصے بعد براہِ راست ملاقات ہوئی۔ یہ دونوں رہنما آخری بار 2019 میں ملے تھے اور اب 6 سال بعد ایک بار پھر آمنے سامنے آئے۔ اس ملاقات پر پوری دنیا کی نظریں مرکوز تھیں کیونکہ دونوں ملک دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے درمیان تعلقات عالمی سطح پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
بوسان میں ہونے والی یہ ملاقات ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (اے پی ای سی) اجلاس کے موقع پر ہوئی، جہاں دونوں رہنماؤں نے باہمی تجارت، عالمی منڈی کے استحکام، اور سکیورٹی امور پر گفتگو کی۔ ٹرمپ نے ملاقات کے آغاز میں کہا کہ ’’ہم پہلے بھی کئی معاملات پر اتفاق کر چکے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آج بھی کئی امور پر ہماری بات بنے گی۔‘‘ انہوں نے صدر شی جن پنگ کو عظیم ملک کے عظیم رہنما قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات طویل عرصے تک مثبت سمت میں آگے بڑھتے رہیں گے۔‘‘
چینی صدر شی جن پنگ نے بھی اپنے ابتدائی بیان میں کہا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر بننے کے بعد ان سے تین بار بات ہو چکی ہے اور اب بالمشافہ ملاقات عالمی تعاون کے لیے نیا باب کھولے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’چین اور امریکہ کو ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے جذبے سے کام لینا چاہیے۔ ہم ہر معاملے پر متفق نہیں ہو سکتے لیکن ہمیں شراکت داری اور دوستی کو بنیاد بنانا چاہیے۔‘‘
تجزیہ کاروں کے مطابق اس ملاقات سے عالمی منڈیوں میں مثبت ردعمل دیکھنے کو ملا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی کشیدگی نے گزشتہ برسوں میں بین الاقوامی کاروبار پر منفی اثر ڈالا تھا۔ خاص طور پر ریئر ارتھ میٹریلز یعنی وہ نایاب معدنی عناصر جن کا استعمال دفاعی اور ٹیکنالوجی صنعتوں میں ہوتا ہے، پر پابندیوں نے امریکی صنعت کو مشکلات میں ڈال رکھا ہے۔
امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کے مطابق دونوں ممالک کے مذاکرات کار چین کے جانب سے ان نایاب معدنیات کے برآمدی ضابطوں میں نرمی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اسی دوران اطلاعات ہیں کہ چین دوبارہ امریکی سویابین کی خریداری پر آمادہ ہو سکتا ہے، جسے امریکی کسانوں کے لیے بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
بوسان روانگی سے قبل صدر ٹرمپ نے دفاعی تیاریوں کے حوالے سے ایک اہم بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے اپنی وزارتِ دفاع کو ہدایت دی ہے کہ وہ فوری طور پر جوہری ہتھیاروں کے تجربات کی تیاری کرے تاکہ امریکہ مخالف قوتوں کو برابر کے درجے پر جواب دے سکے۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب روس نے یوکرین تنازع کے دوران جوہری میزائل اور زیرِ آب ڈرون تجربات کیے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔