ایپسٹین فائلس: ڈونالڈ ٹرمپ کی تصویر دوبارہ ڈیٹا بیس میں ڈالنے کا دعویٰ!

ڈیموکریٹک پارٹی کے ہاؤس مائینارٹی لیڈر حکیم جیفریز نے ایک پروگرام میں کہا کہ اس پورے معاملے کی ’مکمل اور غیر جانبدار تحقیقات ہونی چاہئے کہ دستاویزات کا افشاء قانون کے تقاضوں پر کھرا کیوں نہیں اترا‘۔

<div class="paragraphs"><p>امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

دنیا کو ہلادینے والے امریکہ کے کم سن بچیوں کے سیکس ریکٹ ’جیفری ایپسٹین جنسی اسکینڈل‘سے متعلق دستاویزات کے ڈیٹا بیس سے ہٹائی گئی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ایک تصویر کو امریکی محکمہ انصاف نے دوبارہ عام کردیا ہے۔ محکمے کا کہنا ہے کہ جائزہ لینے کے بعد یہ واضح ہوا کہ اس تصویر میں ایپسٹین کی کسی بھی متاثرہ کی موجودگی نہیں ہے اس لئے بغیر کسی تبدیلی کے اسے دوبارہ اپ لوڈ کر دیا گیا۔ یہ تصویر ایک ڈیسک کی ہے جس کے کھلے دراز میں ڈونالڈ ٹرمپ کی ایک تصویر رکھی ہوئی نظر آرہی ہے۔ تصویر میں ٹرمپ کچھ خواتین کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ نیویارک کے جنوبی ضلع آفس نے ممکنہ متاثرین کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تصویر کو جائزے کے لیے نشان زد کیا تھا۔

ایک خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ انصاف نے اتوار کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم’ایکس‘ پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ جائزہ لینے کے بعد یہ پایا گیا کہ تصویر میں جیفری ایپسٹین کی کسی بھی متاثرہ کے ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس لیے اسے بغیر کسی تبدیلی یا ترمیم کے دوبارہ پوسٹ کر دیا گیا ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل ٹوڈ بلانچ نے پہلے بتایا تھا کہ تصویر کو ہٹانے کا فیصلہ فوٹو میں موجود خواتین سے متعلق خدشات کی وجہ سے لیا گیا تھا۔ انہوں نے این بی سی کے پروگرام ’میٹ دی پریس ود کرسٹن ویلکر‘میں کہا کہ اس کا صدر ٹرمپ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


غورطلب ہے کہ جمعہ کے روز محکمہ انصاف نے جیفری ایپسٹین سے متعلق ہزاروں دستاویزات عام کئے تھے۔ ایپسٹین ایک سزا یافتہ جنسی مجرم تھا جس نے 2019 میں جیل میں خودکشی کر لی تھی۔ تاہم ان دستاویزات میں بھاری کٹوتی (ریڈیکشن) اور ٹرمپ کی بہت کم وضاحت ہونے کو لے کر محکمے کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس میں کچھ ریپبلکن رہنمابھی شامل ہیں۔ اس دوران ڈیموکریٹک پارٹی کے ہاؤس مائینارٹی لیڈر حکیم جیفریز نے اے بی سی نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ اس پورے معاملے کی ’مکمل اور غیر جانبدار تحقیقات ہونی چاہئے کہ دستاویزات کا افشاء قانون کے تقاضوں پر کھرا کیوں نہیں اترا‘۔