کئی نیوز ایجنسیاں وہائٹ ہاؤس پریس پُول سے باہر، اب صرف منظورِ نظر صحافی پوچھ سکیں گے سوال
ٹرمپ انتظامیہ نے وہائٹ ہاؤس پریس پُول سے رائٹرس، بلومبرگ اور اے پی جیسے ادارے نکال دیے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قدم پریس کوریج پر کنٹرول کی کوشش ہے

ڈونلڈ ٹرمپ (فائل)
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ مسلسل اپنے فیصلوں سے سرخیوں میں بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی بڑے پیمانے پر تبدیلی کی طرف اپنے قدم بڑھا دیئے ہیں۔ حالانکہ ان کے فیصلوں کی بڑے پیمانے پر تنقید بھی کی جا رہی ہے لیکن ٹرمپ اپنے قدم پیچھے نہیں کھینچ رہے ہیں۔ اسی کڑی میں ٹرمپ حکومت نے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے میڈیا پر بھی شکنجہ کسنا شروع کر دیا ہے۔ دراصل وہائٹ ہاؤس نے اپنی میڈیا پالیسی میں تبدیلی کر دی ہے۔ نئی پالیسی میں رائٹرس، بلومبرگ اور ایسو سی ایٹڈ پریس جیسی بین الاقوامی ایجنسیوں کو وہائٹ ہاؤس کے پریس پُول سے باہر کر دیا گیا ہے۔ ان نیوز ایجنسیوں کو اب وہائٹ ہاؤس میں مستقل جگہ نہیں ملے گی۔
وہائٹ ہاؤس کا پریس پُول قریب 10 میڈیا اداروں کا ایک گروپ ہوتا ہے، اس میں صحافی اور فوٹوگرافر شامل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ صدر کی ہر چھوٹی بڑی سرگرمیوں کو کور کرتے ہیں۔ دوسرے میڈیا ادارے صدر سے جڑی کوریج کے لیے پریس پُول میں شامل میڈیا اداروں پر منحصر رہتے ہیں۔
اس پالیسی میں تبدیلی کے بعد بین الاقوامی میڈیا اداروں کو امریکی صدر تک پہنچنے میں اب مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہائٹ ہاؤس کے اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بین الاقوامی میڈیا اداروں نے اسے پریس کوریج کو کنٹرول کرنے کی کوشش بتایا ہے، جس سے آزاد صحافت اور اظہار خیال کی آزادی پر اثر پڑ سکتا ہے۔ اے پی، رائٹرس اور بلومبرگ جیسی نیوز ایجنسیوں نے کہا، ’’ہماری خبریں ہر دن اربوں لوگوں تک پہنچتی ہے۔ حکومت کا یہ قدم آزاد اور صحیح معلومات کے لیے اپنا ذرائع انتخاب کرنے کے عوام کے حق کو ختم کردے گا۔‘‘
نئی پالیسی کے تحت اب وہائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولن لیوٹ یہ طے کریں گی کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے کون صحافی یا میڈیا ادارہ سوال پوچھ سکتا ہے۔ یہ پالیسی وہائٹ ہاؤس کے اوول آفس، پریس بریفنگ کمرہ اور صدر کے خاص طیارے ’ایئر فورس ون‘ میں بھی نافذ ہوگی۔
وہائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولن لیوٹ نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ اب ان کی ٹیم روزانہ پریس پُول کے اراکین کا انتخاب کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے پیغام کو صحیح آڈینس تک پہنچانا ہے اور ہر اہم معاملے کو پریس پُول میں جگہ دینا ہے۔ لیوٹ نے کہا کہ پاڈ کاسٹر، سوشل میڈیا انفلوینسر اور نیوز کنٹینٹ کریئٹرس کو بھی پریس پُول میں موقع دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ وہائٹ ہاؤس پریس پُول کی شروعات 1950 کی دہائی میں امریکہ کے 34ویں صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور کی مدت کار میں ہوئی تھی۔ وہائٹ ہاؤس میں صدر سے جڑے معاملوں کی کوریج کے لیے صحافیوں کی بھیڑ بڑھنے لگی۔ اس سے نپٹنے کے لیے 10 صحافیوں یا میڈیا اداروں کا ایک گروپ بنایا گیا۔ اسے پریس پُول کا نام دیا گیا۔ یعنی پریس پُول میں شامل صحافیوں کو ہی وہائٹ ہاؤس کی پریس بریفنگ، اوول آفس (امریکی صدر کا دفتر) اور ایئر فورس ون میں داخلہ ملتا تھا۔ پریس پُول میں کون سے میڈیا ہاؤس یا صحافی ہوں گے یہ طے کرنے کی ذمہ داری وہائٹ ہاؤس کارسپونڈنٹ ایسو سی ایشن (ڈبلیو ایچ سی اے) کے پاس تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔