کورونا سے ٹھیک ہوئے مریضوں کا خون ہوا ’بیش قیمتی‘، 10 لاکھ روپے فی لیٹر ہو رہا فروخت

ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ کورونا سے صحتیاب ہوئے مریضوں کا خون 10 لاکھ روپے فی لیٹر فروخت ہو رہا ہے۔ ڈارک نیٹ پر موجود سیلر اس کی ڈیلیوری بیرون ممالک میں کر رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

کمائی کے دو ذرائع ہیں... ایک ایمانداری (صحیح طریقے سے) اور دوسرا بے ایمانی (غلط طریقے سے)۔ اب زیادہ تر کمائی کا ذریعہ بے ایمانی والا ہو چکا ہے۔ اس کو غلط طریقہ کہہ لیجیے یا غیر قانونی طریقہ کہہ لیجیے۔ کل ملا کر بات یہ ہے کہ محنت کسی کو کرنی نہیں ہے اور خواب گھر بیٹھے بیٹھے لاکھوں کمانے کا دیکھا جا رہا ہے۔ ایسے لوگ ہر حالت میں خود کو ڈھال لیتے ہیں۔ چاہے عام دنوں کی بات ہو یا موجودہ کورونا بحران کی۔ اس وقت بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو غیر قانونی طریقے سے کمانے کے لیے تیار ہیں۔

ایک ایسا ہی حیران کرنے والا معاملہ سامنے آیا ہے۔ دراصل انٹرنیٹ پر غیر قانونی طریقے سے کورونا سے ٹھیک ہو چکے مریضوں کے خون کی فروخت شروع ہو گئی ہے۔ کورونا کے علاج اور ویکسین کے نام پر مریضوں کے خون کو ڈارک نیٹ پر فروخت کیا جا رہا ہے۔ آسٹریلیا نیشنل یونیورسٹی (اے این یو) کی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے۔ ڈارک نیٹ پر موجود سیلر یعنی فروخت کنندگان الگ الگ ممالک سے شپنگ کر کے بیرون ممالک میں ڈیلیوری کرا رہے ہیں۔ ڈیلی میل کی ایک رپورٹ کے مطابق زندگی بھر کے لیے قوت مدافعت بڑھانے کے دعوے کے ساتھ کورونا مریضوں کے خون کو لاکھوں روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ ایک لیٹر خون کی قیمت 10 لاکھ روپے تک رکھی گئی ہے۔ حالانکہ خون کے ساتھ غیر قانونی طریقے سے پی پی ای، ماسک، ٹیسٹ کِٹ سمیت دیگر سامان بھی زیادہ قیمتوں پر فروخت کیے جا رہے ہیں۔ آسٹریلیا کی نیشنل یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق کم از کم 12 الگ الگ ڈارک نیٹ مارکیٹ پر یہ سامان فروخت ہو رہے ہیں۔


ڈارک نیٹ پر ایسا دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ دنیا بھر میں کورونا کا علاج کر رہے ڈاکٹرس کے ذریعہ پی پی ای اور دیگر سامان حاصل کیے گئے ہیں۔ فروخت کرنے والے ان سامانوں کو الگ الگ ممالک میں ڈیلیوری کرانے کو بھی تیار ہیں۔ زیادہ تر ایسے پروڈکٹ امریکہ سے جبکہ کچھ پروڈکٹ یوروپ، برطانیہ اور آسٹریلیا سے شپنگ کے لیے موجود تھے۔ کورونا سے ٹھیک ہو چکے مریضوں کے پلازمہ کے ذریعہ دیگر مریضوں کے علاج سے جڑی کچھ رپورٹس سامنے آئی ہیں۔ لیکن پلازمہ تھیراپی کے خطرے بھی ہیں اور اس میں لوگوں کی جان بھی جا سکتی ہے۔ فی الحال ڈاکٹر تجرباتی طور پر کچھ خاص حالات میں ہی اس تھیراپی کو آزما رہے ہیں۔

اس سلسلے میں تحقیق کرنے والے روڈ براڈہرسٹ کا کہنا ہے کہ وبا کے وقت کچھ لوگ مجرمانہ طریقے سے کمائی کی کوشش کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ معاملہ بڑھ سکتا ہے۔ اس لیے سخت مانیٹرنگ کی ضرورت ہے تاکہ اسے بند کیا جا سکے۔ روڈ براڈہرسٹ نے مزید کہا کہ "ہم نے پایا ہے کہ غیر محفوظ ویکسین اور اینٹی وائرل دوائیں بھی ڈارک نیٹ پر لوگوں کو فروخت کی جا رہی ہیں۔ کثیر مقدار میں پی پی ای بھی فروخت ہو رہے ہیں کیونکہ بازار میں اس کی کمی بنی ہوئی ہے۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 May 2020, 7:40 PM