امریکی محکمہ دفاع کے 60 ہزار ملازمین نوکری سے نکالے جائیں گے، ڈیموکریٹک اراکین پارلیمنٹ کا اظہار تشویش
محکمہ دفاع کا ہدف 900000 سے زیادہ غیر فوجی ملازمین میں سے 5 سے 8 فیصد کی کٹوتی کرنا ہے۔ یہ کٹوتی ٹرمپ انتظامیہ کے قریبی صلاح کار ایلون مسک کے ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفی شی اینسی سروس کے تحت ہو رہی ہے۔

ایلون مسک/ ڈونالڈ ٹرمپ
امریکی محکمہ دفاع (پنٹاگون) میں 50000 سے 60000 سویلین نوکریوں میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔ اس کٹوتی کے عمل میں اب تک تقریباً 21000 ملازمین نے اپنی خواہش سے استعفیٰ منصوبہ کو قبول کیا ہے جو کُل ہدفِ کٹوتی کا تقریباً ایک تہائی ہے۔ ایک سینئر دفاعی افسر نے منگل کو یہ اطلاع دی۔
محکمہ دفاع کا ہدف 900000 سے زیادہ غیر فوجی ملازمین میں سے 5 سے 8 فیصد کی کٹوتی کرنا ہے۔ اس کے لیے فی ماہ تقریباً 6000 عہدوں کو ہٹایا جائے گا۔ اس کے علاوہ مستقل طور سے سبکدوش ہونے والے یا نوکری چھوڑنے والے ملازمین کی جگہ نہیں بھری جائے گی۔
یہ کٹوتی محکمہ دفاع کے سکریٹری پیٹ ہیگ سیتھ کی نگرانی میں نافذ کی جا رہی ہے جس کا مقصد محکمہ کے بجٹ کو کم کرنا اور سرکاری خرچ میں کمی لانا ہے۔ اس منصوبہ کو 'فورک اِن دی روڈ' قرار داد کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ ملازمین کو ستمبر تک تنخواہ اور فائدہ کے ساتھ رضاکارانہ طور سے نوکری چھوڑنے کا متبادل دیتی ہے۔
افسروں نے فکرمندی ظاہر کی ہے کہ خالی ہوئے غیر فوجی عہدوں کو بھرنے کے لیے فوجی ملازمین کو تعینات کیا جا سکتا ہے جس سے ان کی کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔ حالانکہ پیٹ ہیگ سیتھ نے یہ یقینی کرنے کی ہدایت دی ہے کہ ان کٹوتیوں سے فوجی تیاریوں پر منفی اثر نہ پڑے۔ یہ کٹوتی ٹرمپ انتظامیہ کے قریبی صلاح کار اور ارب پتی کاروباری ایلون مسک کے ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفی شی اینسی سروس (ڈی او جی ای) کے تحت کی جا رہی ہے۔
وہیں پروبیشنری ملازمین کی چھٹنی پر عدالتوں نے روک لگا دی ہے اور انتظامیہ کو ہزاروں ملازمین کو واپس کام پر رکھنے کا حکم دیا ہے۔ عدالتوں نے چھٹنی کے قانونی عمل میں خامیاں پائی ہیں۔ محکمہ دفاع کے سربراہ ہیگ سیتھ کا کہنا ہے کہ ان کٹوتیوں سے فوجی کام کے نظام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اس درمیان امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹک اراکین پارلیمنٹ نے مرکزی نوکر شاہی میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں کو لے کر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ہاؤس جوڈیشیری اور ہاؤس اوورسائٹ کمیٹی نے حقوق اطلاعات (ایف او آئی اے) کے تحت انتظامیہ سے ان کٹوتیوں کے قانونی پہلوؤں کی جانکاری مانگی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔