کورونا ویکسین بنانے میں 93 ممالک کے تقریباً 1300 سائنسداں سرگرم

آج کل پوری دنیا کورونا وبا سے پریشان رہے۔ لاکھوں لوگ اس خطرناک وائرس کی زد میں آ چکے ہیں جب کہ مرنے والوں کی تعداد بھی لگاتار بڑھ رہی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

اس وقت پوری دنیا کورونا کے قہر سے پریشان ہے۔ لاکھوں لوگ اس خطرناک بیماری کی زد میں آ چکے ہیں اور مہلوکین کی تعداد میں بھی روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ آخر اس مہلک وائرس کو قابو میں کرنے کے لیے ویکسین کب تیار ہوگی۔ اس دوران دنیا بھر کے سائنسداں اور محققین شدت کے ساتھ اس کوشش میں مصروف ہیں کہ جلد از جلد اس کا ٹیکہ بنایا جا سکے تاکہ اس وبا پر قابو حاصل ہو۔

چین سمیت کئی ممالک ویکسین تیار کرنے کے لیے پوری محنت کر رہے ہیں۔ اس میں دنیا کی سب سے اعلیٰ صحت ایجنسی ڈبلیو ایچ او کے کردار کو بھی کم کرکے نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ حالانکہ امریکہ نے عالمی صحت ادارہ کا فنڈ روک دیا ہے، باوجود اس کے چین وغیرہ ملک اس ادارے کی مدد کر رہے ہیں کیونکہ وائرس کو کنٹرول میں کرنا بہت ضروری ہے، ورنہ دنیا میں معاشی بحران کا اثر مزید گہرا ہوتا جائے گا۔


غور طلب ہے کہ کئی ممالک کے سائنسداں بار بار دعویٰ کر رہے ہیں کہ اگلے کچھ مہینوں میں ویکسین تیار ہو سکتی ہے، لیکن کئی مراحل کے ہیومن ٹرائل کے بعد ہی ٹیکے کی حقیقت سامنے آتی ہے۔ ایسے میں یہ کہنا جلد بازی ہوگی کہ ویکسین کب تک بازار میں آ پائے گی۔ اس درمیان ہندوستان میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ 15 اگست کو کووڈ-19 کے لیے ویکسین مریضوں کے استعمال کے لیے دستیاب ہوگی۔

ڈبلیو ایچ او کے حالیہ بیان پر غور کریں تو پتہ چل جائے گا کہ اس صحت ادارہ نے ٹیکہ تیار ہونے کی کوئی طے مدت بتانے سے انکار کیا ہے۔ لیکن اس بات کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وائرس سے نمٹنے کے لیے ویکسین غالباً 2020 کے آخر تک تیار ہو۔ بھلے ہی ویکسین بن جائے، لیکن یہ سوال کم بڑا نہیں کہ بڑی مقدار میں اس کی مینوفیکچرنگ کب تک ہو پائے گی۔ اور ساتھ ہی کون سی ویکسین اصل میں اثردار ہوگی، یہ بھی ایک بڑا سوال ہوگا۔


ڈبلیو ایچ او کے ایمرجنسی پروجیکٹ چیف مائیکل ریان کے مطابق کچھ ٹیکوں کے شروعاتی ٹرائل کا ڈاٹا امید کی شمع روشن کرتا ہے، لیکن یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کون سا ٹیکہ زیادہ اثردار ہوگا۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے کووڈ-19 گلوبل ریسرچ فورم میں 93 ممالک اور علاقوں کے تقریباً 1300 محققین و ماہرین شامل ہیں جو لگاتار اپنے تجربات شیئر کر رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، ڈبلیو ایچ او کی قیادت میں 39 ممالک اور علاقوں کے تقریباً ساڑھے پانچ ہزار مریضوں کو داخل کیا گیا اور اگلے کچھ ہفتہ میں اس کے نتائج سامنے آئیں گے۔