مریضوں کے دیری سے اسپتال پہنچنے سے خطرناک ہو سکتے ہیں کورونا کے معاملے

کورونا وائرس کے تعلق سے لوگوں میں خوف و ہراس کا ماحول ہے، لیکن انہیں سامنے آنے اور علاج کرانے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کیے جانے کی ضرورت ہے، تبھی لوگوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: کورونا انفیکشن (كووڈ -19) کے 90 سے 95 فیصد مریض ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایسے مریض کافی تاخیر کرنے کے بعد اسپتال پہنچتے ہیں جس سے یہ وائرس ہلاکت خیز ثابت ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق مریضوں کا دیری سے سامنے آنے سے ان کا کیس بگڑ جاتا ہے اور اس کے 80 فیصد کیس بہت معمولی علامات والے ہوتے ہیں اور 15 فیصد معاملوں میں طبی سپورٹ اور آکسیجن اور پانچ فیصد معاملوں میں آئی سی یو اور وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔ لہذا کورونا کے مریضوں کا پتہ لگتے ہی انہیں طبی امداد دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کسی کا ٹیسٹ پہلے ہو چکا ہے تو اسے فوری طور پر اسپتال جاکر علاج کرانا چاہیے۔

راحت کی ایک اور بات یہ ہے کہ متاثرین کی شرح اموات 3.2 فیصد پر ہی برقرار ہے جو پہلے کے مقابلے میں انتہائی معمولی اضافہ سمجھا جا سکتا ہے۔ پہلے متاثرین کی شرح اموات 3.1 فیصد تھی۔ پیر کو مریضوں کے ٹھیک ہونے کی شرح بڑھ کر 27.45 فیصد سے زیادہ ہو گئی جبکہ مریضوں کی شرح اموات اعشاریہ ایک اضافہ کے ساتھ 3.2 فیصد ہو گئی۔


اب تک دوسری مثبت بات یہ رہی ہے کہ ہمارے ملک میں ’’آوٹ كم ریشیو‘‘ میں اضافہ ہوا ہے یعنی جتنے کیس آئے تھے اور ان میں سے کتنے لوگ ٹھیک ہوئے ہیں اور کتنوں کی موت ہوئی ہے، وہ اب بڑھ کر 90:10 ہو گئی ہے جبکہ 17 اپریل کو 80:20 تھی، جو ظاہر کرتی ہے کہ ہماری طبی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کے سلسلے میں کی گئی تیاریاں صحیح سمت میں ہیں اور ہم کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں۔

اس وقت کورونا وائرس کے تعلق سے لوگوں میں خوف و ہراس کا ماحول ہے لیکن انہیں سامنے آنے اور علاج کرانے کے لئے حوصلہ افزائی کیے جانے کی ضرورت ہے تبھی لوگوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔ ملک میں کورونا وائرس انفیکشن کے معاملے دوگنے ہونے کی شرح بڑھ کر اب 12 دن ہو گئی ہے جو کورونا وائرس انفیکشن کو کنٹرول کرنے کی مرکزی حکومت کی کوششوں کی کامیابی کی عکاسی کرتی ہے۔ مارچ میں لاک ڈاؤن سے پہلے یہ شرح 3.2 دن تھی۔


وزارت صحت کے مطابق ملک میں اس وقت 130 ہاٹ اسپاٹ ضلع، 284 غیر ہاٹ اسپاٹ ضلع اور 319 غیر متاثرہ ضلع ہیں۔ ان اضلاع کو گرین، اورنج اور ریڈ زون میں تقسیم کیا گیا ہے اور حکومت ہند کے ہدایات کے مطابق ہی انہیں کھولا جائے گا۔ ملک میں ابھی تک 10 لاکھ سے بھی زیادہ کی جانچ (ٹیسٹ) کا ہندسہ پار ہو چکا ہے اور اس وقت ایک دن میں 74000 سے زیادہ کی جانچ ہو رہی ہیں۔ ہندوستان دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہتر حالت میں ہے اور پورے ملک میں كووڈ اسپیشل اسپتالوں اور خصوصی كووڈ صحت مراکز میں موجود 2.5 ملین سے بھی زیادہ بستر کی بدولت کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے قابل ہے۔

اس وقت ملک میں 111 پرائیویٹ اور 315 سرکاری لیبارٹریاں کورونا کی جانچ میں مصروف ہیں اور یکم مئی کو 74500 ٹیسٹ ہوئے تھے، ملک میں کورونا وائرس کے معاملے شروع ہونے کے وقت لیبارٹریوں کی تعداد 100 تھی۔ اس وقت کورونا بحران سے نمٹنے کے لئے ڈی بی ٹی، آئی سی ایم آر، آئی سی اے آر، سی ایس آئی آر، ڈی ایس ٹی، ڈی آر ڈی او اور ملک کے مختلف میڈیکل کالج اور پرائیویٹ سیکٹر کے انسٹی ٹیوٹ آگے آ رہے ہیں۔


ملک میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ تو ہو ہی رہا ہے لیکن ابھی تک ہم کمیونٹی انفیکشن کی اسٹیج میں داخل نہیں ہوئے ہیں اور یہ سب پہلے سے کی گئیں تیاریوں اور پہلے مرحلے کے لاك ڈاؤن اور سماجی فاصلے (سوشل ڈسٹینسنگ) کی بدولت ممکمن ہو سکا ہے۔

ہندوستان میں ابھی کمیونٹی انفیکشن کا دور شروع نہیں ہوا ہے اور كئی علاقوں میں یہ مقامی سطح پر دیکھنے کو ملا ہے اور اسے ’کلسٹر آؤٹ بریك‘ کہا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں معاملات کو پتہ چلتے ہی فوری طور پر معاملات کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اور پورے علاقے کے لئے ’كٹینمینٹ پلان‘ بنا کر اس علاقے کا محاصرہ کرلیا جاتا ہے اور اس کے ارد گرد کے علاقے یفنی ’’بفر زون‘‘ پر مکمل نظر رکھی جاتی ہے اور اس میں رہنے والے تمام لوگوں کے گھر گھر جاکر سروے کیا جاتا ہے اور لوگوں کے کھانسی، سردی، بخار اور سانس لینے میں دقتوں جیسے مسائل کے بارے میں اعداد و شمار یکجا کیے جاتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔