بلآخر انسان اڑنے لگا

1903 کو پہلا ہوائی جہاز اڑایا گیا۔ سن 1909 میں جہاز کی مخصوص دم کا ڈیزائن وضع ہوا اور پھر جہازکے ڈیزائن اور کارکردگی میں تبدیلیاں عمل میں آنے لگیں۔

بلآخر انسان اڑنے لگا
بلآخر انسان اڑنے لگا
user

Dw

انسان ہزاروں برس تک فضا میں اڑتے پرندے دیکھتا رہا، پتنگیں اڑا کر آسمان کو چھونے کی کوشش کرتا رہا تاہم ہوائی جہاز پر سفر جو اب ایک بہت عام سی بات ہے، صرف ڈیڑھ صدی قبل تک یہ فقط ایک خواب تھا۔انسان کی ایوی ایشن کی تاریخ دو ہزار سال سے زائد پرانی ہے، جب کہیں پتنگیں اڑا کر تو کہیں، میناروں سے چھلانگیں لگا کر اڑنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ تاہم اب آواز کی رفتار سے بھی زیادہ رفتار سے سفر ممکن ہے۔ آئیے اس طویل تاریخی سفر سے ذرا تیزی سے گزرتے ہیں۔

چین میں پتنگیں اڑانے کی تاریخ چند سو برس قبل مسیح سے جڑی ملتی ہے اور غالباﹰ یہیں سے یہ ساری دنیا میں پھیلتی چلی گئی۔ پتنگ کو ہی انسان کی تیار کردہ قابل پرواز شے تصور کیا جاتا ہے۔ پندرہویں صدی میں لیونارڈوڈا ونچی کے پرواز کے خواب کو ان کی کئی تخلیقات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ وہاں ڈیزائن تو بھرپور ملتے ہیں مگر سائنسی توجیہات مفقود ہیں۔


ہم اڑنا کب شروع ہوئے؟

اٹھارہویں صدی میں مونٹگولفیر برادرز نے پہلی بار گرم ہوا والے غبارے کے ساتھ انسان بردار پروازوں کا آغاز کیا۔ یہ قریب وہی وقت ہے، جب ہائیڈروجن کی دریافت ہوئی اور ہائیڈرجن والے غبارے بننا شروع ہوئے۔ یہی وہ دور بھی تھا جب نیوٹن کے قوانین حرکت بھی سامنے آئے اور متعدد دیگر سائنسی نظریات کے ساتھ ساتھ ایروڈائنامکس سے متعلق معلومات سامنے آئیں۔ اس حوالے سے سب سے ہم سر جارج کیلے کی توجیہات تھیں۔ اٹھارہویں صدی میں ان سائنسی نظریات کو استعمال کرتے ہوئے غباروں کا عسکری استعمال شروع ہوا، جب کہ انقلاب فرانس کے دوران فرانسیسی حکومت نے غبارہ ساز کمپنیاں بنائیں۔

اس دوران یہ سائنسی نظریہ سامنے آیا کہ ڈائنامکس جہاز سے زیادہ بھاری ہیں، یوں انسان نے پرواز کی تیاری شروع کر دی۔ بیسویں صدی کے آغاز پر جہاز کے پروں کے ڈیزائن اور کنٹرول سے متعلق متعدد تجربات ہوئے۔ یوں 1903 کو پہلا ہوائی جہاز اڑایا گیا۔ سن 1909 میں جہاز کی مخصوص دم کا ڈیزائن وضع ہوا اور پھر جہازکے ڈیزائن اور کارکردگی میں بہتری کے لیے تیز رفتار تبدیلیاں عمل میں آنے لگیں۔


پہلا انسان بردار جہاز

امریکہ کے نیشنل ایئر اینڈ اسپیس میوزیم کے مطابق 1903 میں جو پہلا انسان بردار جہاز بنا، وہ امریکی سرزمین پر رائٹ برادران کا کارنامہ تھا۔ 12 ہارس پاور کے اس رائٹ فور سلینڈر انجن والے جہاز میں دو پروپیلرز نصب تھے جب کہ ٹرانسمیشن کا ایک نظام بھی موجود تھا۔ اس میں لینیئر سکائیڈز لینڈنگ گیئر کا کام سرانجام دیتے تھے۔

اس کے پروں کی لمبائی بارہ اعشاریہ تین میٹر، لمبائی چھ اعشاریہ چار میٹر، بلندی دو اعشاریہ آٹھ میٹر تھی جبکہ خالی جہاز کا وزن دو سو چوہتر کلوگرام اور زیادہ سے زیادہ وزن اٹھانے کی صلاحت تین سو اکتالیس کلوگرام تھی۔


اس کا فریم لکڑی کا بنا تھا، جب کہ انجن کا کرینکیس المونیم کا تھا۔ اس جہاز کا نام 1903 رائٹ فلائر تھا۔ اس جہاز نے پہلی بار کیٹی ہاک، شمالی کیرولائنا سے سترہ دسمبر انیس سو تین کو اڑان بھری تھی جب کہ اس کے پائلٹ اورلیوے رائٹ تھے۔ (عاطف توقیر)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔