'فوراً میانمار چھوڑ دیں'، بھارت کا اپنے شہریوں کو مشورہ

میانمارکے 600 سے زائد فوجی میدان جنگ چھوڑ کر جان بچانے کے لیے سرحد عبور کرکے بھارت سے ملحق علاقوں میں چلے آئے تھے، جنہیں اب واپس بھیج دیا گیا ہے۔

'فوراً میانمار چھوڑ دیں'، بھارت کا اپنے شہریوں کو مشورہ
'فوراً میانمار چھوڑ دیں'، بھارت کا اپنے شہریوں کو مشورہ
user

Dw

میانمار کی راکھین ریاست کی "بگڑتی ہوئی سکیورٹی صورت حال" کے پیش نظر بھارت نے اپنے شہریوں کو وہاں کا سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ نئی دہلی نے وہاں موجود بھارتی شہریوں کو جلد از جلد ریاست چھوڑ دینے کا بھی مشور دیا ہے۔میانمار کی راکھین ریاست میں تشدد میں اضافے کے بعد اپنی پہلی ایڈوائزری میں بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ ریاست راکھین کا سفر نہ کریں کیونکہ موجودہ صورت حال ٹھیک نہیں ہے۔ مواصلاتی نیٹ ورک متاثر ہیں اور ضروری اشیاء کی قلت ہے۔

ایڈوائزری میں کہا گیا ہے،"سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال، لینڈ لائنز سمیت مواصلات کے ذرائع میں خلل اور ضروری اشیاء کی شدید قلت کے پیش نظر تمام بھارتی شہریوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ میانمار کی ریاست راکھین کا سفر نہ کریں۔" ایڈوائزری میں مزید کہا گیا ہے، "جو بھارتی پہلے سے ہی راکھین ریاست میں موجود ہیں انہیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ وہاں سے جلد از جلد نکل جائیں۔"


میانمار میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے ہی جمہوریت کی بحالی کے لیے وسیع پیمانے پر پرتشدد مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اور گزشتہ اکتوبر سے راکھین ریاست نیز دیگر علاقوں میں مسلح نسلی گروہوں اور میانمارکی فوج کے درمیان شدید لڑائی ہوئی ہے۔

بھارت کا ردعمل

گزشتہ ہفتے بھارت نے میانمار میں سن 2021 کی فوجی بغاوت کے تین سال پورے ہونے کے موقع پر فوجی جنتا کے تشدد اور ملک میں عدم استحکام پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ وہا ں ہونے والی پیش رفت کا بھارت کی سلامتی پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔


بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ان خیالات کا اظہار میانمار میں فوجی حکمرانوں کی جانب سے ایمرجنسی میں توسیع کے چند گھنٹے بعد کیا تھا۔ خیال رہے کہ جمہوریت نواز رہنما آنگ سان سوچی کی قیادت والی حکومت کو اقتدار سے برطرف کرنے کے بعد سے وہاں ایمرجنسی نافذ ہے۔

جیسوال نے تشدد کے مکمل خاتمے اور ایک جامع اور وفاقی جمہوریت کی طرف میانمار کی منتقلی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ، "ہم تعمیری بات چیت اور ملک میں امن و استحکام کی واپسی کے ذریعہ مسئلے کا جلد از جلد حل چاہتے ہیں۔" یکم فروری 2021 کو فوجی بغاوت نے ملک بھر میں افراتفری کو جنم دیا اور جمہوریت اور معاشی اصلاحات کے لیے ایک دہائی سے جاری کوششوں کا خاتمہ کردیا۔ اس نے میانمار کے مختلف حصوں میں مسلح نسلی گروہوں کی بغاوتوں کو بھی جنم دیا۔


گزشتہ اکتوبرسے جمہوریت نواز مزاحمتی قوتوں نے فوجی جنتا کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کردی ہیں اور انہیں اس میں کئی اہم کامیابیاں بھی ملی ہیں۔ گزشتہ اکتوبر میں سب سے طاقتور فوج مخالف گروپ میانمار نیشنل ڈیموکریٹک الائنس آرمی، ارکان آرمی اور تآنگ نیشنل لبریشن آرمی نے مشترکہ طور پر مہم شروع کی اور اس نے کم ا ز کم 35 قصبوں پر قبضہ کرلیا، جن میں بعض کلیدی علاقے بھی شامل ہیں۔ ان میں بھارت اور چین کی سرحد سے ملحق علاقوں میں اہم تجارتی چوکیاں اور کراسنگ شامل ہیں۔

میانمار کے سینکڑوں فوجیوں نے شان اور رخائن ریاستوں میں مزاحمتی قوتوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ میانمارکے 600 سے زائد فوجی میدان جنگ چھوڑ کر جان بچانے کے لیے سرحد عبور کرکے بھارت سے ملحق علاقوں میں چلے آئے تھے، جنہیں اب واپس بھیج دیا گیا ہے۔ میانمار کے ہزاروں افراد نے بھارت کے شمال مشرقی ریاستوں منی پور اور میزورم میں بھی پناہ لے رکھی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔