ہندوستان سے شکست کے بعد تلملائے نظر آ رہے پاکستانی، ’نو بال‘ تنازعہ پر شعیب اختر بھی امپائر سے خفا

شعیب اختر نے وراٹ کوہلی کی ایک تصویر اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے شیئر کی ہے۔ اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے انھوں نے اسے ایک ’قابل قبول‘ ڈیلیوری بتایا، یعنی یہ نو بال نہیں تھی۔

شعیب اختر، تصویر آئی اے این ایس
شعیب اختر، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

ٹی-20 عالمی کپ 2022 کے سپر-12 میں 23 اکتوبر کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایسا مقابلہ کھیلا گیا، جس کی امید لوگ ہمیشہ کرتے ہیں۔ آخری گیند تک چلے اس میچ میں کئی طرح کے اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملے، کچھ فیصلوں کو لے کر تنازعہ بھی ہوا، لیکن آخر میں جیت ہندوستان کے ہاتھ لگی۔ لیکن اس جیت سے پاکستانی کرکٹ شائقین اور پاکستان کے سابق کرکٹرس بھی تلملائے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

ہندوستان بمقابلہ پاکستان میچ کے دوران ’نو بال‘ اور ’فری ہٹ‘ پر بولڈ ہونے کے باوجود تین رن دوڑے جانے کو لے کر کئی طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ میچ کا رخ پلٹنے والی گیند ’نو بال‘ ہی تھی جس پر وراٹ کوہلی نے شاندار چھکا لگایا تھا۔ آخری اوور میں محمد نواز کے ذریعہ پھینکی گئی اس گیند کو امپائر نے کمر سے اوپر ٹھہراتے ہوئے ’نو بال‘ دیا تھا، لیکن پاکستانی کرکٹ شیدائیوں اور یہاں تک کہ پاکستان کے مشہور سابق تیز گیندباز شعیب اختر نے بھی اس فیصلے کی تنقید کر رہے ہیں۔


شعیب اختر نے وراٹ کوہلی کی ایک تصویر اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے شیئر کی ہے۔ اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے انھوں نے اسے ایک ’قابل قبول‘ ڈیلیوری بتایا، یعنی یہ نو بال نہیں تھا۔ ساتھ ہی انھوں نے امپائر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ’’امپائر بھائیو، آج رات غور و خوض کرنے کے لیے آپ کا کھانا۔‘‘ یعنی امپائر کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ رات کو وراٹ کی نو بال والی تصویر دیکھیں اور اس پر غور کریں۔

اس درمیان پاکستان کرکٹ بورڈ کے صدر رمیز راجہ نے بھی ایک ایسا ٹوئٹ کیا ہے جس میں میچ کے دوران ’سب کچھ ٹھیک نہ ہونے‘ کی بات کہی ہے۔ یعنی انھوں نے اپنے ٹوئٹ میں کسی تنازعہ کا تذکرہ نہیں کیا ہے، لیکن یہ ضرور لکھا ہے کہ ’’ایک کلاسک میچ! آپ کچھ جیتتے ہیں، تو کچھ ہارتے بھی ہیں۔ آپ سبھی جانتے ہیں کہ یہ ایک ظالمانہ اور نامناسب ہو سکتا ہے۔ پاکستانی ٹیم بلے اور گیند سے اس سے زیادہ اچھا نہیں کر سکتی تھی۔ اس کارکردگی کے لیے فخر ہے۔‘‘


حالانکہ کئی ٹوئٹر صارفین نے اسکیل اور لائن کھینچ کر وراٹ کوہلی کو ڈالے گئے متنازعہ ’نو بال‘ کی تصویر بھی شیئر کی ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ گیند واقعی کمر سے اوپر تھی اور امپائر کے ذریعہ اسے نو بال قرار دیا جانا کسی بھی طرح غلط نہیں۔ بہرحال، ان سب تنازعات کے درمیان وراٹ کوہلی کی خوب تعریف ہو رہی ہے، کیونکہ انھوں نے جس طرح پہلے اپنا وکٹ بچا کر رکھا، اور پھر آخر کے اوورس میں تیزی سے رن بنائے، وہ طویل مدت تک یاد رکھا جائے گا۔ وراٹ کوہلی کو 53 گیندوں پر ناٹ آؤٹ 82 رن بنانے کے لیے مین آف دی میچ کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔