مغل عہد کے بھارت کو کیوں فراموش نہ کیا جائے؟

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تاریخ کے استاذ پروفیسر محمد سجاد کا خیال ہے کہ مسولینی، ہٹلر اور جنرل ضیاءالحق نے بھی تاریخ سے اس طرح کی چھیڑ چھاڑ، حذف اور مبالغہ کا ارتکاب کیا تھا۔

<div class="paragraphs"><p>شاہجہاں، تاج محل / Getty Images</p></div>

شاہجہاں، تاج محل / Getty Images

user

محمد سجاد

مرکزی حکومت نے این سی ای آر ٹی کی درجہ گیارہ کے نصاب سے مغل عہد کی تاریخ کو حذف کر دیا ہے۔ اس کی وجہ حکومت نے طلبہ پر بہت زیادہ بوجھ بتایا ہے، جسے ہلکا کرنے کی غرض سے کیا گیا ہے۔ حالاںکہ یہ ایک بہانہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس سے انکار کرنا مشکل ہے کہ یہ ایک سیاسی قدم ہے۔

<div class="paragraphs"><p>اکبر بادشاہ / Getty Images</p></div>

اکبر بادشاہ / Getty Images

کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سیاسی مقصد کے تحت بھارتی تاریخ کے ایک اہم عہد کو ختم کر دینے کا قدم اٹھایا گیا ہے۔ دنیا بھر میں دائیں بازو کی تمام جماعتیں اپنے انداز میں تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہیں۔ ہندوؤں کا ایک طبقہ یعنی فرقہ پرست ہی نہیں بلکہ رجعت پسند طبقہ بھی زبردست احساس کمتری کا شکار ہے اور حذف کرنے کا یہ تازہ ترین قدم اسی احساس کمتری کا اظہار ہے۔ اس نفسیاتی پہلو کی وضاحت راقم نے اپنے ایک انگریزی کالم (ریڈف ڈاٹ کام، بہ تاریخ، 19اکتوبر 2018) میں کی تھی، جب الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کر دیا گیا تھا۔ مغل تو مکمل طور پر ہندوستانی ہو گئے تھے اور بر صغیر کے طول و عرض کو متحد کر دیا تھا، محض جغرافیائی اور علاقائی اعتبار ہی سے نہیں، بلکہ، مختلف زبانوں، بولیوں کو بولنے والی، مختلف مذاہب اور عقیدوں کو ماننے والی، مختلف نسلوں والی عوام کے دل و دماغ کو بھی متحد کر دیا تھا۔ مغلوں نے ہندوستان کو سترہویں صدی کی دنیا میں ایک قابل رشک سپر پاور ملک بنا دیا تھا۔

مغل عہد کے بھارت کو کیوں فراموش نہ کیا جائے؟

موجودہ بھگوا حکومت کو لگتا ہے کہ مغلیہ عہد میں سول انجینئرنگ، آرٹ، ادب، فلسفہ، فن تعمیر، معیشت، تجارت اور انتظامیہ وغیرہ کے شعبوں میں جو ترقی ہوئی تھی اسے پڑھانے سے ہندوؤں کے اس متعصب طبقہ کو احساس کمتری کا احساس ہوگا۔ واضح رہے کہ مغل راج کو تاریخ داں جدو ناتھ سرکار نے کاغذی راج کہا تھا۔ کیوں کہ مغل حکومت میں ریکارڈ کیپنگ بہت ہی اعلی درجہ کی تھی۔ آگرہ کا تاج محل مغل بادشاہ شاہ جہاں نے سترہویں صدی میں تعمیرکرایا تھا۔ ہمایوں کا مقبرہ (دہلی)، آگرہ کا لال قلعہ، دہلی کا لال قلعہ اور دیگر عماریں، فتح پور سیکری کی عمارتیں، لاہور کی عمارتیں، فوارے، باغات، وغیرہ سے بھارت کا افتخار ظاہر ہوتا ہے۔

یوروپ کے سیاحوں کے سفرناموں میں یہ تفصیل سے درج ہے کہ سولہویں و سترہویں صدی میں بھارت کے کئی شہر یوروپ کے بڑے شہروں سے زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ ایسا تب ممکن ہو پایا جب زراعت اور تجارت میں بھارت کافی آگے تھا۔ مغل کارخانہ سسٹم سے صنعتی پیداوار اور ان کی تجارت سے روزگار اور خوش حالی تھی۔ قانون و انتظام اور انصاف کا نظام کچھ ایسا بہتر تھا کہ تجارت فروغ پائی۔ انتظام کاری کے مغل نمونوں کو بیسویں صدی تک کی دیسی ریاستوں میں رائج رکھا گیا تھا۔ اس زمانے کے معیار سے، بینکنگ سسٹم بھی خاصا ترقی یافتہ تھی۔ سکوں کا نظام بھی کافی آگے تھا۔ سورت کے ورجی وہرا اور عبدالغفور اس زمانے کے امیر ترین تاجروں میں سے تھے۔ آگرہ میں کئی امیر ترین تاجروں کی دولت دیکھ کر یوروپی سیاح مینرق حیرت میں پڑ گیا تھا۔


معروف تاریخ داں پروفیسر عرفان حبیب نے اپنے ایک عظیم تحقیقی مضمون (1969) میں بتایا ہے کہ مغل بھارت، جدید سرمایہ دارانہ ترقی کی چار اہم ترین شرطوں میں سے تین کو پورا کر رہا تھا۔ اوّل، سرمایہ کا کنٹرول پروڈکشن پروسیس پر، دوم، مارکیٹ ریلیشنس میں روپیوں کی بہتات، اور سوم، صنعتی و حرفتی مالوں کی بہتات۔ صرف چوتھی شرط، یعنی، پروڈکشن ٹیکنالوجی میں ترقی، کی نہج پر کچھ کمیاں تھیں۔ تاریخ داں احسن جان قیصر کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بلڈنگ کنسٹرکشن کے میدان میں یعنی سول انجنئرنگ میں بھارت بہت آگے تھا۔

ہو سکتا ہے، سمندری تجارت کے لئے جہاز بنانے کی ٹیکنالوجی کو ترقی دی جاتی تو بھارت انگریزوں کے تسلط سے محفوظ رہ پاتا۔ تاریخ داں آر۔ پی۔ تریپاٹھی کے نامکمل تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنوری 1664ء میں شواجی نے سورت پر حملہ اور لوٹ پاٹ نہ کی ہوتی تو شاید بھارت سمندری تجارت کی جانب بھی متوجہ ہو پاتا۔ خیر، تاریخ نگاری کے اصول اور دائرہ میں یہ بحث کہ،یوں ہوتا تو کیا ہوتا، والی بات شامل نہیں ہے۔ یعنی اٹھارہویں صدی کی علاقائی طاقتوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہی برطانوی تسلط قائم ہو سکا (مندرجہ بالا تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیں راقم کا انگریزی کالم، نیوز کلک، بہ تاریخ 4 ستمبر 2021)۔


تھوڑی دیر کے لئے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ طلبا پر بوجھ کم کرنا ہے تو پورے مغل عہد کو ایک صفحہ میں بھی پڑھایا جا سکتا ہے اور دو صفحے میں بھی۔ لیکن اس پورے عہد کو کیسے غائب کیا جا سکتا ہے۔ تناسب کا خیال رکھا جائے کہ عہد، قدیم، عہد وسطی اور عہد جدید، یعنی سبھی عہد کی تاریخ سے نسبتاً کم اہم ابواب حذف کئے جائیں، تاکہ جانب داری سے بچا جا سکے۔ اگر ان سیاسی طاقتوں اور حکومت کا یہ الزام ہے کہ مغل دور حکومت میں ہندوؤں پر ظلم ہوا تھا تو ثبوتوں کے ساتھ وہ بھی پڑھائیں۔ اس عہد کی خوبیاں اور خامیاں سب پڑھائی جانی چاہئیں۔ جب تک طالب علم پڑھیں گے نہیں، انہیں ماضی کی اچھائیوں اور برائیوں کا پتا کیسے چلے گا۔

ہم تاج محل پر فخر بھی کرتے ہیں، سیاحوں کی معرفت ہمارے ملک کی معیشت میں بھی توانائی آتی ہے، اور اس کے معمار کی تاریخ بھی مٹانا چاہ رہے ہیں۔ یہ تو ایک عجیب بات ہے۔ اگر ان کی تاریخ نہیں پڑھائی جائے گی تو مغلیہ دور کی تعمیرات کن کے نام سے منسوب کی جائیں گی؟ اب سے دو سال قبل، سن 2021ء میں بھی آر ایس ایس کارکن رتن شاردا کے مطالبے پر حکومت کی ویب سائٹ knowindia.gov.in سے وہ پیراگراف حذف کر لیا گیا تھا جس میں عہد مغلیہ کو بھارت کی تاریخ کے ایک بہترین عہد کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔


در اصل سیاست یہ ہے کہ موجودہ عہد کے مسلمانوں کو مغل حکمرانوں کا حصہ ثابت کر کے اور مغل حکمرانوں کے خلاف لگائے گئے جھوٹے اور سچے دونوں الزامات کے انتقام میں آج کے مسلم عوام کے خلاف ہندوؤں میں نفرت اور انتقام کا جذبہ بھڑکا کر سیاست کی جا رہی ہے۔ ہندوستانی جمہوریت ابھی بدترین بحران کا شکار ہے، پورا نظام مطلق العنانیت کی جانب تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ دنیا کے دیگر کئی ممالک میں بھی کچھ ایسا ہی ماحول بنتا جا رہا ہے (تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں، راقم کا انگریزی کالم، نیوز کلک، بہ تاریخ، 3 اپریل 2023)۔

عوام کو مطلق العنان حکومت کے لئے آمادہ کرنے کے لئے نفرت کی ایسی سیاست آج کل آلہ کار ہے۔ بھارت کی معیشت تباہ ہے۔ ایک، یا دو بڑے سرمایہ داروں کی مٹھی میں پوری دولت دے دی جا چکی ہے۔ روس، سنگاپور، اسرائیل اور دیگر کچھ ممالک میں مطلق العنانیت قائم ہے۔ بھارت کو بھی تیزی سے اسی جانب لے جایا جا رہا ہے۔ ایسے ماحول میں ملک میں ہندو بہ نام مسلم خطوط پر پولرائزیشن کی سیاست کرنے سے تمام اقتصادی و دیگر ناکامیوں کو چھپانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ عوام کی بڑی آبادی کو مطلق العنانیت کو قبول کرنے کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش بھی اسے کہی جا سکتی ہے۔


یہاں پر یہ تذکرہ ضروری ہے کہ مسولینی، ہٹلر، اور جہاں تک کہ جنرل ضیاءالحق نے بھی تاریخ سے اس طرح کی چھیڑ چھاڑ، اور حذف اور مبالغہ کا ارتکاب کیا ہے۔ جنرل ضیاءالحق کے عہد (1977-1988) کے تعلق سے ویریندر کالرا اور وقاس بٹ کے ایک تحقیقی مضمون (موڈرن ایشئن اسٹڈیز، 2019) میں یہ انکشاف تفصیل سے کیا گیا ہے۔ وہاں بھی عورتوں، شیعوں، احمدی قادیانیوں کے خلاف عوام میں نفرت، تشدد اور انتقام کا جذبہ بھڑکانے کے لئے ایسا سب کچھ کیا گیا تھا، اور اس طرح وہ ملک تباہ کر دیا گیا (تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں راقم کا انگریزی کالم، سبرنگ انڈیا، بہ تاریخ 17 فروری 2020)۔

فرقہ پرست، رجعت پسند، اور مطلق العنانیت کا رویہ رکھنے والی جماعتیں، تنظیمیں اور حکومتیں ایسا کرتی ہیں۔ بھگوا طاقتوں ہی کی مانند، برصغیر کی مسلم فرقہ پرست اور رجعت پسند جماعتیں بھی عہد قدیم کے بھارت کی تاریخ کے خلاف متعصب رہتے ہیں۔ موریوں، گپتوں، اور جنوبی بھارت کے چولا، پللو، وغیرہ کے عہد کی فن تعمیر، زراعتی ترقی، زرعی و انتظامی اصلاحات، نظام حکومت، علوم و فنون، کے تئیں حقارت و تعصب کا جذبہ رکھتے ہیں۔


بہر کیف مطلق العنان اور نفرت کا زہر پھیلانے والی طاقتوں کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ چھیڑ چھاڑ یا حذف کر دینے سے تاریخیں نہیں مٹائی جا سکتی ہیں۔ شاعر احمد فراز (1931-2008) نے، پاکستان میں جنرل ضیاءالحق کی مطلق العنانیت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک نظم محاصرہ کہی تھی، جس کی تین سطریں یہاں درج کرنا مناسب لگتا ہے:

اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے

کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے

تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے۔ 

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 06 Apr 2023, 7:11 PM