وی بی–جی رام جی: گاندھی کا نام مٹانے سے بھی زیادہ بڑا نقصان

منریگا کا نام بدلنا اصل مسئلہ نہیں، بلکہ اس کے بنیادی اصولوں کا خاتمہ اصل خطرہ ہے۔ نیا مجوزہ بل روزگار کے قانونی حق کو ختم کر کے اسے محدود اور سیاسی مصلحتوں پر مبنی اسکیم میں بدل دے گا

<div class="paragraphs"><p>پارلیمنٹ میں احتجاج کرتے حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

یوگیندر یادو

اپوزیشن کو اس بات پر اعتراض ہے کہ منریگا کا نام کیوں بدلا جا رہا ہے۔ جس تاریخی اسکیم کو ملک برسوں سے ’مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی اسکیم‘ کے نام سے جانتا رہا ہے، اس کے نام سے مہاتما گاندھی کو کیوں ہٹایا جا رہا ہے۔ مجھے بھی ابتدا میں اس پر کچھ افسوس ہوا تھا۔ ویسے بھی حکومت کی تجویز کردہ نئی اصطلاح ’وکست بھارت – روزگار اور آجیویکا گارنٹی مشن (دیہی)‘ خاصی اٹپٹی اور مصنوعی محسوس ہوتی ہے۔ انگریزی کے ایکرونم کو ذہن میں رکھ کر ہندی نام گھڑنے کے اس انداز میں مجھے میکالے کی بو آتی ہے۔

لیکن جب میں نے منریگا قانون کی جگہ لائے جانے والے نئے قانون کے مسودے کو غور سے دیکھا تو یہ احساس ہوا کہ حکومت نے شاید ٹھیک ہی کیا کہ اس نئی اسکیم سے مہاتما گاندھی کا نام ہٹا دیا۔ جب کسی اسکیم کی روح ہی باقی نہ رہے، جب اس کے بنیادی اصول ہی ختم کر دیے جائیں، تو محض نام بچا لینے کا کیا فائدہ؟

سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ منریگا نامی یہ قانون تاریخی کیوں تھا۔ آزادی کے تقریباً ساٹھ برس بعد، حکومتِ ہند نے اس قانون کے ذریعے پہلی بار اپنے آئینی فریضے کی سمت میں سنجیدہ قدم اٹھایا تھا۔ آئین کے رہنما اصولوں میں شامل دفعہ 39(اے) اور 41 ریاست کو ہدایت دیتی ہیں کہ ہر شہری کے لیے ذریعۂ معاش اور روزگار کے حق کو یقینی بنایا جائے۔ چھ دہائیوں تک اس ذمہ داری کو نظر انداز کرنے کے بعد، 2005 میں یو پی اے حکومت نے پارلیمنٹ میں قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون منظور کیا اور پہلی مرتبہ ملک کے آخری فرد کو روزگار کے سلسلے میں ایک قانونی حق دیا۔

یہ قانون مکمل معنوں میں روزگار کی ضمانت تو نہیں تھا لیکن اس کی نوعیت عام سرکاری روزگار اسکیموں سے بالکل مختلف تھی۔ اس قانون نے دیہی علاقوں میں ہر شخص کو یہ حق دیا کہ وہ حکومت سے روزگار کا مطالبہ کر سکے۔ اس میں سرکاری افسران کے لیے اگر مگر یا بہانے بازی کی گنجائش نہایت محدود کر دی گئی تھی۔ اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے کسی طرح کی اہلیت شرط نہیں رکھی گئی۔ کوئی بھی دیہی باشندہ جاب کارڈ بنوا کر اس کا فائدہ حاصل کر سکتا تھا۔


روزگار مانگنے کے لیے کوئی شرط نہیں تھی، جب بھی کام مانگا جائے، حکومت پر لازم تھا کہ دو ہفتوں کے اندر یا تو کام فراہم کرے یا پھر معاوضہ ادا کرے۔ اس قانون کی سب سے منفرد بات یہ تھی کہ اس میں بجٹ کی کوئی حد مقرر نہیں تھی۔ جتنے لوگ کام مانگیں، جتنا کام مانگا جائے، مرکزی حکومت کو اس کے لیے وسائل فراہم کرنا ہوتے تھے۔ اس طرح اگرچہ نامکمل ہی سہی، مگر پہلی بار روزگار کے حق کو قانونی شکل دینے کی کوشش کی گئی۔ دنیا بھر میں اس اسکیم پر گفتگو ہوئی اور اسے ایک مثال کے طور پر دیکھا گیا۔

عملی طور پر یہ قانون اپنی اصل روح کے مطابق صرف چند برس ہی نافذ رہ سکا۔ منریگا کی اجرت کم تھی اور سرکاری پابندیاں بہت زیادہ تھیں۔ اس کے باوجود منموہن سنگھ کی قیادت والی حکومت نے اس اسکیم کا دائرہ بڑھایا۔ یو پی اے حکومت کے اقتدار سے باہر ہونے کے بعد، وزیراعظم نریندر مودی نے تو اس قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسے یو پی اے کی ’شیخ چلی‘ ذہنیت کی یادگار کے طور پر محفوظ رکھیں گے۔

ابتدائی برسوں میں مودی حکومت نے اس اسکیم کو کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن کورونا کی وبا کے دوران اسی حکومت کو منریگا کا سہارا لینا پڑا۔ مجموعی طور پر، حکومتی کوتاہیوں، افسر شاہی کی بدنیتی اور مقامی سطح پر بدعنوانی کے باوجود، منریگا دیہی ہندوستان کے آخری فرد کے لیے ایک سہارا ثابت ہوئی۔

گزشتہ 15 برسوں میں اس اسکیم کے تحت تقریباً 4000 کروڑ یومیہ روزگار فراہم کیا گیا۔ دیہی علاقوں میں اس کے ذریعے 9.5 کروڑ سے زائد کام مکمل ہوئے۔ ہر سال اوسطاً 5 کروڑ خاندانوں نے اس اسکیم سے فائدہ اٹھایا۔ منریگا کے باعث دیہی مزدوری کی اجرت میں اضافہ ہوا۔ کووِڈ جیسے قومی بحران یا قحط جیسی مقامی آفات کے دوران، اس اسکیم نے لاکھوں خاندانوں کو بھوک سے بچایا اور کروڑوں لوگوں کو نقل مکانی سے روکا۔


لیکن اب مودی حکومت نے اس تاریخی اسکیم کو دفن کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی ایسی اسکیم کو براہِ راست ختم کرنے سے سیاسی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ اسکیم کو ’ترمیم‘ کے ذریعے بدلا جا رہا ہے۔ عوام کو بہلانے کے لیے یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اب 100 دن کے بجائے 125 دن روزگار کی گارنٹی دی جائے گی لیکن یہ گنتی تب شروع ہوگی جب اسکیم واقعی نافذ ہوگی اور روزگار فراہم کیا جائے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ’وکست بھارت- روزگار اور آجیویکا گارنٹی مشن (دیہی) بل‘ دراصل روزگار گارنٹی کے تصور ہی کو ختم کر دیتا ہے۔ اب یہ ہر ہاتھ کو کام دینے کے حق کے بجائے، منتخب مستفیدین کو دی جانے والی مزدوری کی اسکیم بن کر رہ جائے گی۔

حکومت کے پیش کردہ مسودے کے مطابق، اس اسکیم کے تمام بنیادی اصول الٹ دیے گئے ہیں۔ اب مرکزی حکومت یہ طے کرے گی کہ کس ریاست میں اور ریاست کے کس حصے میں روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ ہر ریاست کے لیے بجٹ کی حد بھی مرکز ہی مقرر کرے گا۔ ریاستی حکومتیں یہ فیصلہ کریں گی کہ زرعی مزدوری کے موسم میں کن دو مہینوں کے لیے اسکیم کو معطل رکھا جائے۔

مقامی سطح پر کون سا کام ہوگا، اس کا فیصلہ بھی اب اوپر سے آنے والی ہدایات کے مطابق ہوگا۔ سب سے خطرناک تبدیلی یہ ہے کہ اب اس اسکیم کے اخراجات کا بڑا بوجھ ریاستی حکومتوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ پہلے مرکز حکومت 90 فیصد خرچ برداشت کرتی تھی، اب یہ حصہ گھٹا کر 60 فیصد کر دیا گیا ہے۔ جن غریب علاقوں میں روزگار گارنٹی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہاں کی کمزور ریاستی حکومتوں کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں ہوں گے، اور مرکز حکومت آسانی سے اپنی ذمہ داری سے ہاتھ جھاڑ لے گی۔


یعنی نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی۔ ہاں، اگر کسی ریاست میں انتخابی مجبوری ہو تو اچانک وہاں روزگار گارنٹی کا فنڈ جاری ہو جائے گا۔ جہاں اپوزیشن کی حکومت ہے، وہاں یا تو اس اسکیم کو نافذ ہی نہیں کیا جائے گا، یا پھر اس پر سخت شرائط عائد کر دی جائیں گی۔

اچھا ہوا کہ ایسی اسکیم سے مہاتما گاندھی کا نام ہٹا دیا گیا۔ جن لوگوں کو گاندھی کے نظریے سے محبت ہے، انہیں اس بل کے خلاف پارلیمنٹ میں جدوجہد کرنی ہوگی۔ انہیں عوامی شعور میں منریگا کے قتل کی خبر پہنچانی ہوگی اور کسانوں کی طرح سڑکوں پر اتر کر اس کے خلاف منظم جدوجہد کرنی ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔