یہ ایک چھوٹا قدم ہے، ہمیں اٹھانے ہیں اور بڑے قدم... پرشوتم اگروال

بھارت جوڑو یاترا کی بنیاد میں اخلاقیات ہے لیکن اس کا ایک فطری سیاسی پہلو بھی ہے جو کسی بھی نظریہ سے کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔

<div class="paragraphs"><p>بھارت جوڑو یاترا / ٹوئٹر / @INCIndia</p></div>

بھارت جوڑو یاترا / ٹوئٹر / @INCIndia

user

پرشوتم اگروال

راہل گاندھی کی ایشی شبیہ بنائی گئی گویا وہ ایک بے حس اور غیر سنجیدہ لیڈر ہیں لیکن ’بھارت جوڑو یاترا‘ نے ایسی غلط فہمیوں کو دور کر دیا۔ جب 7 ستمبر کو یاترا شروع ہوئی تھی تو لوگ اس کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ مخمصہ راہل کی جسمانی قابلیت کو لے کر نہیں تھا بلکہ ان کی سیاسی استعداد کو لے کر تھا لیکن اس یاترا کا اثر یہ ہوا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ سول سوسائٹی کے وہ نام نہاد نمائندے جو نریندر مودی کی چمک سے مسحور تھے آج راہل گاندھی کے بڑے سیاسی اقدام میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ راہل نے جب یاترا شروع کی تو وہ ان لوگوں کے سوالوں کو لے کر کافی دفاعی انداز میں تھے لیکن جب وہ دہلی پہنچے تو اس یاترا کے ساتھ ہی راہل کا ہر قدم اعتماد سے بھرا نظر آتا ہے۔

جب یاترا دہلی میں داخل ہوئی تو میں تھوڑی دور کے لیے اس میں شامل ہوا۔ میں نے راہل جی سے کہا ’’راہل جی! اس بڑے قدم کے لیے مبارکباد۔‘‘ کانگریس لیڈر نے فوراً کہا ’’نہیں نہیں، یہ ایک چھوٹا قدم ہے، ہمیں اس سے کہیں بڑے قدم اٹھانے ہوں گے۔‘‘ راہل گاندھی نے بارہا واضح الفاظ میں کہا ہے کہ یہ یاترا سیاسی نظریات سے متاثر نہیں ہے، اس کا مقصد 'محبت پھیلانا' ہے۔ وہ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب سیاسی قوتیں اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے میڈیا کے بڑے حصے کی مدد سے نفرت اور ہزیمت کا ماحول بنا رہی ہیں، 'محبت پھیلانا' بہت اہم اخلاقی فریضہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرچہ یہ ایک اخلاقی فعل ہے، تاہم کیا اس کا کوئی سیاسی پہلو نہیں ہو سکتا؟


تاریخی طور پر دیکھا جائے تو کسی بھی معاشرے میں خصوصاً آج کے پیچیدہ معاشروں میں محبت پھیلانے کا مطلب لوگوں کے دل جیتنا، ان کی سوچ کو متاثر کرنا ہے۔ سیاسی حوالے سے بات کی جائے تو کسی بھی سنجیدہ شخص یا ادارے کے لیے اقتدار آخری منزل نہیں ہے بلکہ مقررہ اہداف کے حصول کا ذریعہ ہے۔ جمہوریت میں سیاست کا مطلب ہے کسی کے منصوبوں کی قبولیت کو یقینی بنانا اور لوگوں کو اعتماد میں لے کر اقتدار حاصل کرنا۔ بلاشبہ، اقتدار پر مبنی سیاست اور خود اطمینانی کی، اخلاقیات ایک دوسرے سے مختلف نظر آ سکتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ اخلاقیات کا ایک سنجیدہ سیاسی پہلو بھی ہے کیونکہ اقتدار کے بغیر آپ کسی سیاسی وژن کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے۔

گجرات جیسی صورتحال میں، جب سزا یافتہ عصمت دری کرنے والوں کا خیرمقدم کرنے والی قوت کو زبردست اکثریت کے ساتھ اقتدار میں لایا جاتا ہے، تو کوئی محبت کیسے پھیلا سکتا ہے؟ لوگوں کو اس کے مضر اثرات سے آگاہ کیے بغیر مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے پیدا کیے گئے زہریلے ماحول کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ خود راہل گاندھی میڈیا کے افسوسناک کردار کے بارے میں بہت آواز اٹھاتے رہے ہیں اور یہ صحیح بھی ہے لیکن وہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی مجموعی سیاسی اہمیت کے بارے میں متضاد اشارے کیوں دیتے ہیں؟ یہ درست ہے کہ اس یاترا کو کسی تنگ نظری سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ ویسے بھی جو چیز سیاسی ہے، وہ تنگ ہونی چاہیے، ایسا ضروری تو نہیں۔


کچھ سیاسی پنڈتوں نے اس یاترا کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ یہ ایسی یاترا ہے جس کی کوئی 'منزل' نہیں۔ یہ غلط ہے۔ اس یاترا کی 'منزل' ایک جامع، جمہوری ہندوستانی سیاست اور ایک ہم آہنگ معاشرے کے خیال کا قیام ہے۔ راہل گاندھی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ بی جے پی کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھنے والا کوئی بھی بامعنی اپوزیشن اتحاد ایک سیاسی وژن کے ارد گرد ہی بنایا جا سکتا ہے، کسی لیڈر کی چمک کے ارد گرد نہیں۔

میڈیا کی مدد سے وزیر اعظم مودی کی چمک پیدا کرنے کے علاوہ، بی جے پی نے کامیابی سے خود کو ایک مضبوط اور قابل فخر ہندوستان کے لیے پرعزم پارٹی کے طور پر پیش کیا ہے۔ مودی کو اس خوابیدہ مقصد کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا اور کانگریس کو اس سے لاتعلق پارٹی کے طور پر پیش کیا گیا۔ اسے مرکز میں رکھتے ہوئے ہی بی جے پی نے 'کانگریس مکت' ہندوستان کا تصور پیش کیا۔


بدقسمتی سے گزشتہ ایک دہائی کے دوران کانگریس قیادت نے پارٹی میں 'سیاست' کے تئیں ایک طرح کی بے حسی کا پیغام دیا ہے۔ اس نے 'گڈ گورننس' کے مبہم خیال پر بہت زیادہ زور دیا اور 'جامع قوم پرستی' کو ہاتھ سے پھسلنے دیا جو اس کی سیاسی میراث میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں نفرت کے پھیلاؤ کو روکنا اور قرون وسطیٰ کی سوچ اور تعصب کی طرف جانے والے عمل کے پہیے کو واپس موڑنا صرف ایک جامع ہندوستانی قوم پرستی کے سیاسی ڈھانچے میں ہی کیا جا سکتا ہے جس کا مقصد محروموں اور غریبوں کو بااختیار بنانا ہے۔ بھارت جوڑو یاترا اس سمت میں ایک بہت ضروری قدم ہے۔ آخرکار، 'قوم' کا مطلب ہے اس کے لوگ، نہ کہ خالی بیان بازی اور لوگوں کو خیالی 'اندرونی دشمنوں' کے خلاف اکسانا۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت جوڑو یاترا کا اخلاقی پیغام اہم ہے لیکن اس کے سیاسی نتائج بھی کم اہم نہیں ہیں۔ یاترا کے سیاسی امکانات کا اندازہ نہ صرف بی جے پی کی ’ٹرول آرمی‘ بلکہ اس کے سینئر لیڈروں کے شدید ردعمل سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس آسانی کے ساتھ راہل گاندھی اور ان کی یاترا میڈیا کے ایک حصے اور بی جے پی سمیت دیگر سیاسی حریفوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کر رہی ہے، وہ کانگریس میں نئی ​​زندگی کی علامت ہے۔ اگلا چیلنج اس جوش کو پارٹی کے مضبوط تنظیمی ڈھانچے میں تبدیل کرنا ہے تاکہ اس سال کے آخر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جا سکے۔ اگر راہل کے ذہن و دماغ میں یہ مقصد ایک 'بڑے قدم' کے طور پر ہے، تو بلا شبہ وہ صحیح راستے پر ہیں۔

(پرشوتم اگروال ایک مشہور مصنف اور نقاد ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔