حضرت علیؑ کا کردار حکمرانوں کے لیے روشن مثال… نواب علی اختر

رسول کریمؐ کے ان فرمودات کو اگر یاد رکھا جاتا جو انہوں نے مولائے کائنات کے حوالے سے بیان کئے تو اسلامی معاشرہ کبھی بھی انتشار کا شکار نہ ہوتا۔

روضہ حضرت علیؑ
روضہ حضرت علیؑ
user

نواب علی اختر

ماہ مبارک کی 19 تاریخ کو مسجد کوفہ میں نماز فجر کی پہلی رکعت کے پہلے سجدے میں دشمن اسلام کی زہرآلود تلوار کے حملے میں زخمی ہونے والے حضرت علی علیہ السّلام دو روز تک بستر بیماری پر کرب و بے چینی کے ساتھ کروٹیں بدلتے رہے۔ آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی روح جسم سے پرواز کر گئی۔ آپ کے فرزند امام حسن و امام حسین علیہما السّلام نے تجہیز و تکفین کے بعد آپ کے جسم اطہر کو نجف اشرف میں سپرد خاک کیا۔ روایت میں ہے کہ جب عبد الرحمن بن ملجم نے حضرت علیؑ کے سر مبارک پر شمشیر ماری تو زمین لرز گئی، مسجد کوفہ کے دروازے ہلنے لگے، غیب سے ہاتف نے پکارا محمد مصطفیؐ کے جانشین کو قتل کر دیا گیا ہے، جبرئیل امین نے آواز دی، خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہوگئے۔

وصی پیغمبرؐ خدا کی ذات کا منفرد پہلو عدل و انصاف کا نفاذ ہے جو انہیں دنیا کے تمام سابقہ اور آئندہ حکمرانوں سے جدا اور منفرد کرتا ہے۔ آپ نے عدل و انصاف کا معاشروں، ریاستوں، تہذیبوں، ملکوں، حکومتوں اور انسانوں کے لیے انتہائی اہم اور لازم ہونا اس تکرار سے ثابت کیا کہ عدل آپ کے وجود اور ذات کا حصہ بن گیا اور لوگ آپ کو عدل سے پہچاننے لگے۔ ذاتی امور اور حکومتی معاملات کے لیے الگ الگ چراغ جلانے اور اپنے حقیقی بھائی کو بیت المال سے صرف جائز حق سے زیادہ نہ دینے سے لے کر اپنے ملک اور معاشرے میں عدل اجتماعی نافذ کرنے تک آپ کی پوری زندگی عدل سے مزین رہی اور آپ نے گھر سے لے کر معاشرے اور حکمرانی تک عدل و انصاف کے معاملات میں کبھی مصلحت سے کام نہیں لیا۔ اسی عدل کے سبب آپ کی شہادت واقع ہوئی ہے۔


رسول خداؐ سے براہ راست رشتے، تعلق، تربیت، سرپرستی اور بچپن سے لیکر زندگی کے تمام مراحل تک جلوت و خلوت میں قرابت کا سبب ہے کہ امیرالمومنینؑ کی زندگی تعلیمات قرآنی اور سیرت رسول اکرمﷺ کا عملی نمونہ اور روشن تفسیر کے طور پر موجود ہے۔ اسی تربیت کی وجہ ہے کہ امیرالمومنینؑ کا دور حکومت بہت سارے بحرانوں کے باوجود کامیاب دور حکومت تھا۔ اگرچہ تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے اور حقائق پر پردہ ڈالتے ہوئے امیرالمومنینؑ کے تاریخی اور انقلابی اقدامات کو چھپانے کی بہت کوششیں کی گئیں لیکن تاریخ کے جھروکوں سے وہ تمام کامیابیاں اور اصلاحات آج بھی نظر آرہی ہیں۔

امیرالمومنینؑ نے سیاسی، معاشی، سماجی، تہذیبی اور تعلیمی وغیرہ تمام میدانوں میں جو اقدامات اور اصلاحات کیں وہ تمام ادوار اور تمام راستوں کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ آپ نے اپنے دور حکومت میں مثبت اور تعمیری سیاست کی داغ بیل ڈالی۔ حزب مخالف کی سازشوں اور منفی حربوں کا حکمت عملی، دانش مندی اور مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کو دیکھتے ہوئے مقابلہ کیا، حکمرانی کو خدمت کا ذریعہ اور خدا کی طرف سے عطا کردہ امانت قرار دیا اور اس کی ایسے ہی حفاظت کی جس طرح خدا کی امانتوں کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اگر دنیا کے تمام حکمران جدید عصر کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر صرف عدل علیؑ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے نظام آگے بڑھائیں بالخصوص مسلمان ممالک اگر عدل علیؑ کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں تو پوری دنیا سے ظلم و جبر اور زیادتی وتجاوز کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔


امیرالمومنینؑ نے حکومت کا حصول کبھی ہدف نہیں سمجھا بلکہ اپنے اصلی اور اعلی ہدف تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا۔ اس حوالے سے آپ کا ایک معروف قول ہے کہ ”میرے نزدیک حکومت ایک پھٹے پرانے جوتے سے بھی کم تر حیثیت رکھتی ہے مگر اس صورت میں جب اس کے ذریعے کسی حق کو قائم کرسکوں اور کسی باطل کا خاتمہ کرسکوں“ ذاتی نوعیت کے مسائل پر گفتگو کے لیے بیت المال کے چراغ کو ہٹاکر حضرت علیؑ کا اپنے گھر سے چراغ منگوانا حکمرانوں کے لئے ایک روشن مثال ہے کہ ذاتی ضروریات پر قومی امانت کو صرف کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ طرز عمل حکمرانوں کے لیے روشن مثالیں ہیں کہ وہ گڈ گورننس قائم کرتے وقت کس طرح اپنی ذات پر قوم کو ترجیح دیتے ہیں اور انصاف کا قیام کسی مصلحت کے بغیر کرتے ہیں۔

اسی طرح حضرت علیؑ کی طرف سے مالک اشتر کو گڈگورننس اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے ارسال کردہ ہدایات آج کے دور کے حکمرانوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ جب ہم حضرت علی ابن ابی طالبؑ کی شہادت کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو امیرالمومنینؑ کی ذات اور جسم سے دشمنی نہیں تھی بلکہ ان کی فکر اور اصلاحات سے عدوات تھی جو کہ علیؑ نے سیاسی، معاشی اور معاشرتی میدانوں میں کی تھیں۔ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ امیرالمومنینؑ کی شہادت ایک شخص یا فرد کی نہیں ایک سوچ، فکر اور نظریے کی شہادت ہے۔ البتہ حضرت علیؑ کی جن حالات میں شہادت ہوئی اس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ حضرت علیؑ کی چار برس نو ماہ کی حکومت میں عدل و انصاف کا بو ل بولا تھا۔ غریبوں، فقیروں اور مسکینوں کو راتوں رات غذ افراہم کرنا آپ کے طرہ امیتاز میں شامل تھا۔


حضرت علیؑ نے ایسی عادلانہ اور منصفانہ حکومت کی کہ اپنے ذاتی کاموں کے لیے بیت المال کا ذرہ برابر بھی استعمال نہیں کیا۔ اگر کوئی شخص حکومتی اوقات میں امور حکومت کے علاوہ کسی اور موضوع پر گفتگو کرتا تو آپ بیت المال کے چراغ کو بجھا دیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جو لباس اور سواری منصب خلافت سنبھالنے سے پہلے تھی وہی دنیا کو الوداع کہنے کے بعد بھی رہی۔ امیر مملکت ہوتے ہوئے بھی عام سی زندگی گزارنا، محتاجوں کی حاجت روائی کرنا، خود کے لیے بیت المال کا استعمال نہ کرنا اور انسانیت کے درد میں برابر شریک رہنا، اس معیار پر وہی افراد کھرے اترتے ہیں جن کے لیے عہدہ حصول دنیا کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کے تحفظ کے لیے ہو۔ اسی عدل اور انصاف کی بناء پر حضرت علیؑ کو شہید کیا گیا۔

جس دہشت گردی کا آغاز مولائے متقیان کو شہید کر کے مسجد کوفہ سے کیا گیا تھا وہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ دین اسلام کے دشمن مساجد اور عبادت گاہوں کا نشانہ بنا کر اہل بیت سے دشمنی کی اس رسم کو ادا کر رہے ہیں جو ان کے اجداد نے شروع کی۔ مسجد کوفہ میں امام اول کے سر پر لگائی جانے والی ضرب زہد، تقوی، عدل و انصاف اور صبر و رضا پر وار تھا۔ کردار علیؑ وہ مرکز اتحاد ہے جس پر مجتمع ہو کر امت مسلمہ کے سارے اختلافات ختم کیے جا سکتے ہیں۔ آج چند مسلکی اور مذہبی اختلافات کے سبب پوری امت مسلمہ کا شیرازہ بکھرتا جا رہا ہے۔


رسول کریمؐ کے ان فرمودات کو اگر یاد رکھا جاتا جو انہوں نے مولائے کائناتؑ کے حوالے سے بیان کئے تو اسلامی معاشرہ کبھی بھی انتشار کا شکار نہ ہوتا۔ آج پوری دنیا میں امت مسلمہ آپس میں دست و گریباں ہے جس کا واحد سبب اہل بیت اطہار کی تعلیمات سے دوری ہے۔ اگر مسلمان معمولی اختلافات پر الجھنے کی بجائے مشترکات پر اکھٹے ہوجائیں تو عالمی استکباری طاقتوں کے عالم اسلام کے خلاف مذموم عزائم ناکام بنائے جا سکتے ہیں۔ انہیں عظیم ہستیوں کی حقیقی محبت، ان کے پیغامات پرعمل آوری اس طاقت اور یقین کا نام ہے جس سے انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔