19 رمضان: رب کعبہ کی قسم علیؑ کامیاب ہوگیا!... نواب علی اختر

حضرت علی نے رکعت اول کے سجدہ اول سے سر کو اٹھایا اسی وقت ابن ملجم نے ضربہ شمشیر سے آپ کے سر مبارک پر وار کیا۔

روضہ حضرت علیؑ، نجف عراق
روضہ حضرت علیؑ، نجف عراق
user

نواب علی اختر

اس دنیا میں انسان کے آنے کا مقصد اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی ہے۔ جو لوگ اس جہاں میں اللہ کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں، وہی حقیقت میں کامیاب ہیں۔ تخلیق آدم علیہ السلام سے آج تک، جتنے بھی توحید پرست اس دنیا میں آئے وہ آخرت کی زندگی کی کامیابی کی امید لیے اس جہان فانی سے کوچ کر گئے مگر مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام تاریخ انسانی کی واحد شخصیت ہیں جو اپنی زندگی میں ہی خدائے بزرگ و برتر کی قسم کھا کر اپنی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مشکل کشا مولا علیؑ کی ایک اور انفرادیت یہ بھی ہے کہ آپ کی ولادت خانہ کعبہ میں اور شہادت خانہ خدا یعنی مسجد میں ہوئی تھی۔

19 رمضان کی وہ خونی سحر آج بھی مومنین و مومنات کو افسردہ کیے ہوئے ہے جب دشمن خدا، عبد الرحمن ابن ملجم ملعون نے محراب مسجد کو مولائے کائنات علیہ السلام کے مقدس لہو سے رنگ ڈالا تھا۔ تمام شب اللہ تعالی کی عبادت کرنے کے بعد نماز پڑھانے کی غرض سے امام علیہ السلام مسجد کی طرف روانہ ہوئے، مسجد میں داخل ہوئے تو چراغوں کی روشنی کم ہوگئی تھی۔ مسجد کے اندر نماز پڑھی اور اذان کہنے کی جگہ پر تشریف لے گئے اور اذان دی۔ اس کے بعد محراب میں تشریف لائے اور نماز شروع فرمائی۔ رکعت اول کے سجدہ اول سے سر کو اٹھایا اسی وقت ابن ملجم مرادی لعنة اللہ علیہ نے ضربہ شمشیر سے آپ کے سر مبارک پر وار کیا۔ آپ کے سر سے خون جاری ہوا، آپ کی داڑھی اور محراب خون سے رنگین ہو گئے۔ اس حالت میں حضرت علیؑ نے فرمایا: ” فزت و رب الکعبة “ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔


اس کے ساتھ ہی حضرت جبرائیل علیہ السلام کی درد میں ڈوبی ہوئی صدا فضاء میں گونجی کہ خدا کی قسم آج ہدایت کے ارکان گر گئے۔ آسمان کے ستاروں میں سیاہی چھا گئی، تقوی کی نشانیاں ختم ہوگئیں اور ہدایت کی مضبوط رسی آج ٹوٹ گئی۔ پیغمبر اکرمؐ کا چچا زاد بھائی مارا گیا، مجتبیٰ علیہ السلام کا وصی آج شہید کر دیا گیا، علی مرتضی علیہ السلام آج مارے گئے، اوصیاء کے سید اور امیر مارے گئے۔ ان کو اشقیاء میں سب سے زیادہ شقی نے مار دیا۔ حضرت علیؑ وہ امام المتقین تھے جو اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی لوگوں کی اصلاح و سعادت کی طرف متوجہ تھے۔

حضرت علیؑ نے اپنے بیٹوں، عزیزوں اور تمام مسلمانوں سے اس طرح وصیت فرمائی: ’میں تمہیں پرہیز گاری کی وصیت کرتا ہوں اور وصیت کرتا ہوں کہ تم اپنے تمام امور کو منظم کرو اور ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان اصلاح کی فکر کرتے رہو، یتیموں کو فراموش نہ کرو، پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرو۔ قرآن کو اپنا عملی نصاب قرار دو، نماز کی بہت زیادہ قدر کرو کیوں کہ یہ تمہارے دین کا ستون ہے، جو بھی کہنا حق کے لیے کہنا اور جو کچھ کرنا ثواب کے لیے کرنا۔ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا۔ دیکھو! یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا ان پر فاقے کی نوبت نہ آئے اور تمہارے ہوتے ہوئے وہ برباد نہ ہوں۔


آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کا عالم یہ تھا کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لایا گیا اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے انسو جاری ہیں، تو آپ کو اس پر بھی رحم آگیا۔ آپنے اپنے دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السّلام و امام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ ہمارا قیدی ہے، اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا، جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا، اگر میں صحتیاب ہو گیا تو مجھے اختیار ہے کہ چاہے اسے سزا دوں یا معاف کردوں اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور آپ نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگانا کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کرنا کیوں کہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ حضرت علی علیہ السلام دو روز تک بستر بیماری پر کرب و بے چینی کے ساتھ کروٹیں بدلتے رہے۔

داماد رسولؐ حضرت امام علیؑ ایک شخصیت تھے جنہوں نے دنیا کو ذلیل و رسوا کر دیا، دنیا کا غرور و تکبر خاک میں ملا دیا، دنیا کو مخاطب ہوکر کہا اے دنیا! دور ہو جا مجھ سے، کیا میرے سامنے خود کو لاتی ہے! جا میرے علاوہ کسی اور کو دھوکہ دے، مجھے تیری ضرورت نہیں ہے، میں تجھے تین بار طلاق دے چکا ہوں جس کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں۔ سجی سنوری اور فریب خوردہ دنیا سے اس طرح برأت کرنا اور تین طلاقیں دے کر اپنے سے جدا کر دینا صرف اور صرف اسی کا کارنامہ ہو سکتا ہے جس نے راہ خدا میں اپنے نفس کو بیچ کر آزادی خرید لی ہو، یقیناً ایسی شخصیات کمالات کا مظہر ہوتی ہیں۔ حضرت علیؑ کو خدا اور نبیؐ کے علاوہ کسی نے نہ پہچانا اور نہ پہچان پائے گا۔ انسان کمال سے محبت کرتا ہے، پیغمبر اکرمؐ جو خود کمال کی آخرین سطح پر ہیں وہ بھی مولا علیؑ سے عشق و محبت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔


وہی علی علیہ السلام جس کی پوری زندگی خالص خدا تعالی کی رضا میں گزری، وہ لب کشائی کرتے تو خدا کے لیے، وہ قدم بڑھاتے تو خدا کے لیے، وہ تلوار چلاتے تو خدا کے لیے، وہ خاموشی اختیار کرتے تو خدا کے لیے، پیغمبر اکرمؐ کے حضور جنگ لڑتے تو خدا کے لیے، غرضیکہ پوری زندگی خدا کی رضا میں وقف کردی، مگر ایک دن یہی علی رات کی تاریکی میں صحراؤں کے پاس جاتے، کنوئیں میں چیخ چیخ کر روتے اور درد دل سناتے، ان کی تنہائی کا یہ پہلو کس قدر گہرا اور عمیق ہے، اس تنہائی کو ہم کیسے محسوس کریں، آخر یہ کون سی تنہائی تھی؟ آخر یہ کونسا غم تھا؟ آخر یہ کونسا درد دل تھا؟ ہم اس درد دل کو کیوں نہیں جان پاتے؟

یہ شخصیت ظلم سے برسر پیکار ہوکر اپنی جان لڑا دیتی، یہ شخصیت مظلومین کی پکار پر تڑپ جاتی، یہ شخصیت عدل و انصاف چاہتی، یہ شخصیت اسلامی اقدار کا احیاء کرتی، یہ شخصیت اپنوں کی جدائی پر گریہ کنا ہوتی، اس شخصیت نے اسلام کی ایسی تربیت کی کہ دین میں مالک اشتر، سلیمان، مقداد، ابوذر جیسے جانباز نظر آئے جنہوں نے دین کی اپنے خون سے آبیاری کی، ان میں مظلومیت کا درد اس قدر بھرا کہ ہر فرعونیت کے خلاف جان کی بازی لگا دی، ہر ظلم کے سر کو کچل دیا، ہاں! میرے مولا اس تنہائی پر روتے، گریہ کرتے، تڑپ جاتے، جب مظلومیت کی آواز پر لبیک کہنے والے نہ رہے، جب مالک اشتر جدا ہوگئے، جب سلیمان، مقداد، ابوذر چلے گئے، آج وہی حالات ہیں مظلومیت پکار رہی ہے، بچوں کی چیخ و پکار سنائی دے رہی جو آج بھی اپنے بابا کے منتظر ہیں؟


امیرالمومنین علی ابن ابی طالبؑ کی پوری ذات اتحاد کے سایہ میں بسر ہوئی ہے اور یہ اصول انہوں نے رسول اللہ کی سیرت مبارک سے حاصل کیا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ کی زندگی بھی اتحاد کے لیے بسر ہوئی۔ رحلت رسولؐ کے بعد امت ٹکڑوں میں بٹ گئی، ہر کوئی جماعت اپنے ذاتی مقاصد کے خاطر دوسرے گروہوں سے مل گیا، مولا علیؑ کے خلاف صف آرا ہو گئے، جہاں بھی بات دین اسلام پہ آجاتی تو علیؑ کی ذات شیر جلی کی طرح میدان میں اتر آتی اور اسلام کے قلب پہ حرف نہ آنے دیتے۔ وہیں دوسری طرف اپنا ذاتی حق اسی بڑے مقصد یعنی اسلام کی بقا کے لیے قربان کر دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔