یوروپی یونین کی قرارداد فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی... سراج نقوی

یہ بات اب پوری دنیا تسلیم کر چکی ہے کہ اسرائیل اب حماس کے خلاف جنگ نہیں لڑ رہا ہے، بلکہ اپنی شکست کی پردہ پوشی کے لیے مسلسل فلسطینی عوام کو نشانہ بنا رہا ہے۔

یوروپی یونین، تصویر آئی اے این ایس
یوروپی یونین، تصویر آئی اے این ایس
user

سراج نقوی

ایک طرف میکسیکو اور چلی نے بین الاقوامی عدالت میں اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے تو دوسری طرف یوروپی یونین نے جنگ بندی کے تعلق سے ایک ایسی قرارداد منظور کی ہے جسے فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ پہلے بات میکسیکو اور چلی کے مقدمے کی۔ جنوبی افر یقہ کے بعد اب میکسیکو اور چلی نے بھی اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف جاری سرکاری دہشت گردی کے معاملے میں عالمی فوجداری عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اس سلسلے میں میکسیکو کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اس نے چلی کے ساتھ مل کر فلسطینی ریاست کے حیثیت کے خلاف ممکنہ جرائم کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے رجوع کیا ہے۔ میکسیکو کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اقدام تشدد کے حالیہ اضافے، خاص طور پر شہری اہداف کے خلاف بڑھتی ہوئی تشویش کی وجہ سے کیا ہے۔ میکسیکو کی وزارت خارجہ نے یہ بات بھی دہرائی کہ وہ بین الاقوامی عدالت کے سامنے جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر مقدمے کی بھی پیروی کر رہی ہے۔

یہ بات اب پوری دنیا تسلیم کر چکی ہے کہ اسرائیل اب حماس کے خلاف جنگ نہیں لڑ رہا ہے۔ بلکہ اپنی شکست کی پردہ پوشی کے لیے مسلسل فلسطینی عوام، جن میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے، ان کو نشانہ بنا رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اسرائیل یہ سب ایک خاص مقصد کے تحت کر رہا ہے، اور وہ مقصد ہے کہ فلسطینیوں کی اس طرح نسل کشی کی جائے کہ مستقبل میں فلسطینیوں کی نسلوں میں بھی اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ باقی نہ رہے۔ اسرائیل کے ذریعہ غزہ اور ویسٹ بینک میں جس طرح فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اسے کسی بھی طرح جنگ کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ امریکہ کے صیہونی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن بھلے ہی اسرائیل کی اس کارروائی کو بھی ’حق دفاع‘ قرار دیتے ہوں لیکن صدر جو بائیڈن تک اسرائیل سے غزہ کے شہری علاقوں میں قتل عام سے بچنے کی اپیل کر چکے ہیں۔ یہ بات خارج از بحث ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہونے کا مدعی ’امریکہ‘ اسرائیل کے سامنے اس طرح کی اپیلیں کر رہا ہے اور صیہونی وزیر اعظم اس کے جواب میں کہہ رہے ہیں کہ ان کا ملک اپنے فیصلے خود لے گا۔


بہرحال اصل بات یہ ہے کہ اسرائیل کی فوجی طاقت حماس کو جھکانے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے اور اسرائیل نے اس بات کی جھلاہٹ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فلسطینی شہریوں پر نکالنی شروع کر دی ہے۔ اس صورتحال کے سبب ہی کچھ روز قبل جنوبی افریقہ نے یہ حوصلہ دکھایا کہ اس نے اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس معاملے کی سماعت عدالت میں جاری ہے اور تادم تحریر اسرائیل عدالت میں اپنے دفاع میں ٹھوس دلائل پیش نہیں کر سکا ہے۔ یہی نہیں بلکہ صیہونی وزیر اعظم صاف کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرے گا۔ نیتن یاہو کا یہ بیان ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اسرائیل جنگی جرائم کا مجرم ہے، لیکن اس کے باوجود اپنی طاقت اور سرکاری دہشت گردی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے وہ عالمی اداروں کے فیصلوں اور ہدایتوں یا اپیلوں تک پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ ظاہر ہے اس کا حل صرف اور صرف یہی ہو سکتا ہے کہ اسرائیل کو سبق سکھانے کے لیے عالمی طاقتیں متحد ہو کر اس کے خلاف ٹھوس کارروائی کریں۔ یہ کارروائی فوجی بھی ہو سکتی ہے، لیکن ایسی صورت میں عالمی جنگ کا خطرہ ہونے کے سبب ابھی تک اس متبادل پر کسی ملک نے زبان نہیں کھولی ہے، اور پر امن و بین الاقوامی قوانین کے تحت ہی اسرائیل کو راہ راست پر لانے کی لاحاصل کوششیں ہو رہی ہیں۔ میکسیکو اور چلی کے مذکورہ قدم کو بھی ایسی ہی کوششوں کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

میکسیکو اور چلی کے مذکورہ قدم کے علاوہ یوروپی پارلیمنٹ نے بھی غزہ کے تعلق سے ایک قرارداد پاس کی ہے جس میں اسرائیل سے جنگ بندی کا مشروط مطالبہ کیا گیا ہے۔ خبر کے مطابق یوروپی پارلیمنٹ کے قانون سازوں نے غزہ میں فوری اور غیر مشروط  جنگ بندی کے مطالبے سے اتفاق نہ کرنے کا اشارہ  دیا ہے، اور  اپنے اس سابقہ موقف کو دہرایا ہے جو درحقیقت اسرائیل کا بھی موقف ہے۔ یوروپی پارلیمنٹ کی اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جنگ بندی سے پہلے اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ غزہ سے حماس کا خاتمہ ہو۔ جبکہ دوسری طرف حماس بار بار اپنا یہ موقف واضح کر چکا ہے کہ وہ کسی صورت میں جنگ بندی سے قبل اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہیں کرے گا۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی دو مرتبہ کی عارضی جنگ بندی میں حماس نے جنگ بندی شروع ہونے کے بعد اور اپنے شہریوں کی اسرائیل قید سے رہائی کے بعد ہی اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا تھا۔ ظاہر ہے اسرائیل جیسی شاطر طاقت پر کسی طرح کا بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور صیہونیوں کی اب تک کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے حماس نے جو رویہ اسرائیل کے خلاف اپنایا ہے وہ قطعی مناسب ہے۔


یوروپی یونین کی تازہ قرارداد میں دراصل تین الگ الگ گروپوں نے تقریباً ایک سی قرارداد پیش کرنے کی کوشش کی، جس میں کہا گیا کہ مستقل جنگ بندی اور غزہ کے سیاسی حل کی جانب از سر نو کوشش کی جائے۔ ظاہر ہے یوروپی یونین کی یہ تجاویز حماس کو مسئلہ فلسطین کے سیاسی فریم سے باہر کر دینے کی اسرائیلی کوششوں کو تقویت دینے کی طرف ہی ایک قدم ہے اور کسی بھی صورت میں حماس کے لیے یہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ آپ جس فریق سے جنگ بندی کے تعلق سے بات کریں اس سے یہ کہیں کہ وہ فلسطینیوں کی نمائندگی کے اپنے دعوے سے دستبردار ہو جائے۔ اپنی دفاعی سرگرمیاں ترک کر کے اسرائیل کے رحم و کرم پر مظلوم فلسطینیوں کو چھوڑ دے۔ اگر یوروپی یونین کی اس تجویز کا مقصد فلسطینیوں کی دیگر تنظیموں سے بات کرنا ہے تو پھر یہ اس لیے ایک لا حاصل قدم ہوگا کہ جنگ بندی کا تعلق صرف اسرائیل اور حماس سے ہے۔ فلسطین میں کوئی بھی دوسری تنظیم تو اسرائیل کے خلاف جنگ لڑ ہی نہیں رہی، اور نہ ہی کسی تنظیم کو اتنے بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کی حمایت ہی حاصل ہے۔ ابھی تک حماس کے حق میں فلسطینیوں کا کھڑے رہنا اس کا ثبوت ہے۔ اس لیے یوروپی یونین کی یہ سوچ ہی فلسطینی مفادات کے خلاف ہے کہ مستقل جنگ بندی کے لیے حماس کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ آپ جس سے جنگ بندی کی بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس کے خاتمے کی بات کرنا سوائے حماقت اور اسرائیل کی کھلی حمایت کے سو ا کیا ہے؟ اسی طرح یہ کہنا بھی کہ غزہ کے سیاسی حل کی از سر نو کوشش کی جائے محض ایک فریب اس لیے ہے کہ مستقبل کے فلسطین کو صرف غزہ کی چھوٹی سی پٹی تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ حماس بار بار اس بات کو دہرا چکا ہے کہ پورا علاقہ جو 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے اپنے قبضے میں لیا تھا وہ سب فلسطین کا حصہ ہے۔ حماس کا صاف موقف ہے کہ وہ موجودہ اسرائیل پر بھی اپنا حق رکھتا ہے۔

ایسی صورت میں یوروپی یونین کی پر فریب تجویز سوائے فلسطینیوں کا حق غصب کرنے کی بالواسطہ سازش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ یوروپی یونین اسرائیلی یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے، وہ حماس کے مکمل خاتمے کا بھی مطالبہ بھی کر رہی ہے لیکن مسئلہ فلسطین کے سیاسی حل کی کوششوں کو دوبارہ شروع کرنے کی بات کر رہی ہے۔ یعنی فلسطینی مفادات کے تعلق سے معاملہ ’کوششوں‘ پر ٹالا جا رہا ہے، اور سب جانتے ہیں کہ یہ کوششیں یا طفل تسلیاں گزشتہ 75 سے فلسطینیوں کو صرف اور صرف زخم دے رہی ہیں۔ یوروپی یونین کی یہ قراردادیں حالانکہ صرف سفارشی نوعیت کی ہیں، لیکن ان سے یوروپی حکومتوں کی مکاری اور اسرائیل نوازی کا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے۔ اسی لیے ان تجاویز یا قرارداد کو فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا، اور اسی لیے اس بات کا بھی کوئی سوال نہیں کہ حماس یا فلسطین کا دوسرا کوئی بھی گروپ اس پر اتفاق کرے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔