ڈووال کے نظریہ کی حقیقت، ’گھر میں گھس کر مارنے‘ کی حکمت عملی ناکام؟

اب تک کے طاقتور ترین قومی سلامتی کے مشیر قرار دئے جانے والے ڈووال کی حکمت عملی پر سوال اٹھنے لگے ہیں، ان کے نظریہ اور ’آپریشن سندور‘ جیسے اقدامات نے ملک کو سفارتی اور عسکری سطح پر مشکلات میں ڈالا ہے

اجیت ڈووال، تصویر آئی اے این ایس
اجیت ڈووال، تصویر آئی اے این ایس
user

رشمی سہگل

گزشتہ گیارہ برسوں کے دوران اجیت ڈووال کی کیا حیثیت رہی ہے؟ بلاشبہ وہ اب تک کے سب سے طاقتور اور سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے) رہے ہیں، جنہیں وزیر اعظم نریندر مودی کا مکمل اعتماد حاصل رہا ہے۔ قومی سلامتی اور عالمی تعلقات سے متعلق معاملات میں دونوں کی سوچ کافی حد تک یکساں ہے۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق عوامی بیانیہ قائم کرتے ہیں اور نئے نئے ’افسانوی کردار‘ تخلیق کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔

تاہم یہ مماثلتیں یہاں ختم ہو جاتی ہیں۔ مودی کی عمر 75 سال ہے، جبکہ ڈووال 80 برس کے ہیں (وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران پیدا ہوئے تھے)۔ مودی ہمہ وقت خبروں میں رہتے ہیں، جبکہ ڈووال پردے کے پیچھے رہ کر فیصلے کرتے اور پالیسیاں طے کرتے ہیں، مگر عوامی سطح پر وہ کبھی ان کا دفاع کرتے نہیں دکھائی دیتے۔ پالیسی ناکامیوں یا بحرانوں کے لیے جواب دہی کا سوال آئے تو جواب ہمیشہ ’نہیں‘ میں ہوتا ہے۔

غالب امکان ہے کہ ’آپریشن سندور‘ کا مشورہ بھی وزیر اعظم کو اجیت ڈووال نے ہی دیا ہوگا۔ دونوں ہی ’گھر میں گھس کر مارنے‘ والے نظریے سے متاثر ہیں، جسے میڈیا میں ’ڈووال نظریہ‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن بعد کی صورت حال سے پتا چلتا ہے کہ آپریشن سندور کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ پاکستان کے اندر دہشت گرد نیٹ ورک کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ بیشتر ماہرین کا خیال ہے کہ ہندوستان کی یکطرفہ فوجی کارروائی کے بعد ملک میں دہشت گرد حملوں کا خطرہ دراصل بڑھ گیا ہے۔

یہ آپریشن پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو بھی متاثر نہ کر سکا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانی فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں ظہرانے پر مدعو کیا۔ ہندوستان کے تزویراتی ماہرین اگرچہ پاکستان کو ایک ناکام ریاست کہتے ہیں لیکن جس ملک سے وہ نفرت کرتے ہیں، اس نے نہ صرف چین کی حمایت حاصل کی، بلکہ امریکہ، روس اور ترکی سے بھی تعلقات بہتر کیے۔ ہندوستان کی مخالفت کے باوجود پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے مالی امداد کا پیکیج بھی مل گیا۔


اگر، جیسا کہ صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے، ہندوستان نے 7 مئی کو ’آپریشن سندور‘ کی پہلی ہی رات میں اپنے پانچ جنگی طیارے گنوا دیے، تو یہ ہندوستان کے لیے ایک سنگین بدنامی کی بات ہے۔ رائٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان نے تسلیم کیا تھا کہ یہ طیارے ہندوستانی فضائی حدود میں ہی پرواز کر رہے تھے۔ ابتدائی نقصان کے بعد، ہندوستانی فضائیہ اگلے 40-48 گھنٹوں تک پرواز نہیں کر سکی۔ انڈونیشیا میں تعینات ہندوستانی ملٹری اتاشی کیپٹن شیو کمار نے بھی مانا کہ یہ نقصان اس لیے ہوا کیونکہ ہندوستانی فضائیہ کو پاکستان کی فضائی دفاعی نظام پر حملے سے روک دیا گیا تھا۔

پاکستانی ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد کے 11 مئی کے اس بیان کے بعد ہندوستانی فوجی قیادت فکرمند ہے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ 7 مئی کو پاکستان نے تین رافیل سمیت ہندوستانی کے چھ جنگی طیارے مار گرائے۔ ’پی اے ایف: 6، آئی اے ایف: 0‘ جیسا اشتعال انگیز نعرہ فوراً وائرل ہو گیا اور احمد ان مقامات کی تفصیل بھی دے رہے تھے جہاں یہ طیارے گرے تھے۔ جنرل چوہان نے اگرچہ ’چھ سے کم‘ طیاروں کے نقصان کی بات کی لیکن ڈووال مکمل خاموش رہے۔

یہ واضح ہے کہ ہندوستان نے جوابی کارروائی میں پاکستان کی صلاحیتوں کا غلط اندازہ لگایا۔ اگلی ہی صبح ہندوستان نے پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ اس کی کارروائی کا مقصد تصادم کو وسعت دینا نہیں بلکہ نو اہداف پر حملہ کر کے مقصد حاصل کرنا تھا۔ اگر یہ بیان ہندوستان کے طیارے گرانے کے بعد جاری کیا گیا، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ’آپریشن سندور‘ کو واقعی کامیاب کہا جا سکتا ہے؟

یہ غلطی پاکستان کی فوجی طاقت کو کم تر سمجھنے سے بھی آگے نکل جاتی ہے۔ دنیا کو یہ بتانا کہ اگر پاکستان کشمیر میں کچھ کر سکتا ہے تو ہندوستان بھی بلوچستان میں ایسا کر سکتا ہے، ’ڈووال نظریہ‘ کا وہ منفی پہلو ہے جس نے ہندوستان کو اخلاقی بلندی سے گرا دیا۔ پہلگام حملے میں پاکستان کی شمولیت کے ٹھوس ثبوت نہ ہونے کے باوجود ہندوستان کی یکطرفہ فوجی کارروائی کو ایک جارحانہ عمل کے طور پر دیکھا گیا۔ تمام ممالک نے اگرچہ پہلگام حملے کی مذمت کی لیکن ہندوستان کی فوجی کارروائی کی حمایت کسی نے نہیں کی۔


نائب فوجی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل راہل آر سنگھ نے بھی تصدیق کی کہ چین نے پاکستان کو ہندوستانی فوجی نقل و حرکت کی ’لائیو معلومات‘ فراہم کی تھیں، حالانکہ دونوں ممالک کے ڈی جی ایم او کے درمیان مذاکرات جاری تھے۔ یہ واضح تھا کہ چین شمالی سرحد کو اپنے جدید ہتھیاروں، مصنوعی ذہانت اور سیٹلائٹ ڈیٹا پر مبنی ریڈار نظام کی آزمائش کے لیے ’لائیو لیب‘ کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔ ان میں سے کئی امور کی معلومات ہندوستانی منصوبہ سازوں کو پہلے ہی ہونی چاہیے تھی لیکن یہ غلط فہمیاں دراصل پہلگام حملے اور ’آپریشن سندور‘ سے قبل کی خفیہ ناکامیوں کا نتیجہ تھیں۔

یہ ناقابل تصور ہے کہ ہندوستانی خفیہ ایجنسیاں چین اور پاکستان کے فوجی رشتوں کی گہرائی سے واقف نہ ہوں۔ اس کے باوجود، ہندوستانی فوجی و سیاسی ادارے حیران دکھائی دیتے ہیں کہ چینی سیٹلائٹوں کی نگرانی کی بنیاد پر پاکستان کی فضائی کمان کو ہندوستانی سرگرمیوں کی حقیقی وقت میں معلومات فراہم ہو گئیں۔ انٹیلی جنس بیورو، را، اور دیگر اداروں کی رپورٹوں کے باوجود، ڈووال نے ان خفیہ ناکامیوں پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

ڈووال کا کیریئر بظاہر شاندار دکھائی دیتا ہے۔ انہیں پاکستان، کشمیر اور پنجاب کا ماہر مانا جاتا ہے۔ چین کے ساتھ سرحدی مذاکرات میں وہ سب سے طویل خدمات انجام دینے والے خصوصی نمائندے رہے ہیں۔ NSA کی حیثیت سے وہ نیشنل سیکیورٹی کونسل کی قیادت کرتے ہیں، جس میں داخلہ، خزانہ، دفاع اور خارجہ کے وزراء شامل ہوتے ہیں۔ 2015 میں انہوں نے ناگا معاہدے کی قیادت کی تھی، جسے نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ نے بعد میں یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ مودی حکومت ’عیسائی اکثریتی ریاست‘ کو خودمختاری دینے کو تیار نہیں تھی۔

منی پور کی موجودہ صورتحال کی بھی ڈووال کو جواب دہی کرنی چاہیے۔ اس سے پہلے کبھی کسی ریاست کے اسلحہ خانہ کو عوامی بھیڑ نے لوٹا نہیں تھا، اور اب تک وہ اسلحہ واپس نہیں ملا ہے۔ فوج بھی مسلح نسلی گروپوں کو خیالی ’حدود‘ کے پار الگ رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ منی پور کے چیف سکریٹری کو چار پانچ بار بدلا گیا، لیکن کوئی حل دکھائی نہیں دیتا۔


اگر کسی ایک شخص کو اندرون ملک (ناگا معاہدہ، منی پور، کشمیر) اور پڑوس میں (نیپال، بنگلہ دیش، افغانستان، پاکستان، میانمار، سری لنکا) پالیسی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے، تو وہ صرف NSA ہی ہو سکتے ہیں۔ ہندوستان کو امریکہ و کینیڈا میں چند خالصتانی عناصر پر اتنی توجہ دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ جب انہیں قومی سلامتی کا بڑا خطرہ بنا کر پیش کیا گیا تو اس سے نہ صرف علیحدگی پسندوں کے حوصلے بلند ہوئے بلکہ ہندوستان کی شبیہ کو بھی نقصان پہنچا، خاص طور پر جب اس کے خفیہ اداروں کو کینیڈا و امریکہ میں قتل کی کوششوں سے جوڑا گیا۔

دفاعی تجزیہ کار سشانت سنگھ کا کہنا ہے، ’’ہندوستان کی انٹیلی جنس ناکامیاں انتظامی مسائل، اداروں کے درمیان تال میل کی کمی، اصلاحات کے فقدان، تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی، کمزور ٹیکنالوجی اور دستیاب معلومات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہیں۔ نظریاتی طور پر متاثر سیاسی قیادت نے اختیارات کا ارتکاز کر کے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔‘‘

ٹرمپ کے دباؤ کے بعد ہندوستان نے چین سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں شروع کی ہیں۔ آپریشن سندور کے بعد کئی وزراء نے چین کا دورہ کیا۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے چینی ہم منصب وانگ ای سے ملاقات کی؛ ہندوستان نے پانچ سال بعد چینی شہریوں کو ویزا دینا بحال کیا۔ امکانات ہیں کہ ہندوستان چینی سرمایہ کاری کے ضوابط میں نرمی کرے گا۔ وزیر اعظم مودی خود سال کے آخر میں چین جانے کی تیاری میں ہیں۔

تاہم لداخ میں بفر زون اب بھی ہندوستانی گشتی دستوں کی پہنچ سے باہر ہے۔ اروناچل پردیش میں حالات کشیدہ ہیں۔ چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ حل طلب ہے اور اس نے نایاب دھاتوں، کھاد، اور سرنگ کھودنے والی مشینوں کی ترسیل بند کر دی ہے۔ اروناچل میں وہ دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بنانے کا آغاز بھی کر چکا ہے جس سے دریائے برہمپتر کے بہاؤ پر اثر پڑ سکتا ہے۔


این ایس اے کی کارکردگی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ یہ حیران کن ہے کہ حکومت اب تک ان کا کوئی متبادل تلاش نہیں کر سکی۔ ان کے گرد گھومتی فلم کو ’مہان ڈووال‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن اصل حقیقت کے قریب تو ’تباہ کن ڈووال‘ ہی لگتے ہیں۔ ایک تزویراتی ماہر نے تبصرہ کیا: ’’ڈووال اب ضعیف ہو چکے ہیں، ان کا عالمی وژن فرسودہ ہو چکا ہے، اور اب وقت آ گیا ہے کہ وہ عزت کے ساتھ خود کنارہ کش ہو جائیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔