عہد نبوی میں افطار کا دسترخوان... ریاض الحق تیمی مدنی

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا سحری اور افطاری کے لیے طرزِ زندگی اعتدال اور میانہ روی پر مبنی تھا۔ آپ اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اسراف یا کنجوسی سے کام نہیں کرتے تھے۔

<div class="paragraphs"><p>کھجوریں، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

کھجوریں، تصویر آئی اے این ایس

user

ریاض الحق تیمی مدنی

يقىناً رمضان المبارک کے اہم اعمال میں سے ایک اہم عمل افطار کرنا بھی ہے اور ہمارے لئے آئیڈیل اور نمونہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چنانچہ ہم عہد نبوی میں افطار کا دسترخوان آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

افطار کن چیزوں سے ہونا چاہئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعلق سے کچھ وضاحتیں پیش کی ہیں۔ ارشاد ہے کہ کھجورسے روزہ افطار کیا جائے۔ اگر کجھور میسر نہ ہو تو پانی سے افطار کریں، کیونکہ وہ پاک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس پر عمل فرمایا۔ معمول مبارک تھا کہ اگر تازہ کھجوریں ہوتیں تو ان سے افطار کرتے، ورنہ خشک کھجور (خرما) سے، اور یہ بھی نہ ہوتا تو چند گھونٹ پانی نوش فرما لیتے۔


ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’نبی صلی اللہ علیہ و سلم  کے تازہ کھجوروں، یا کھجوروں، یا پھر پانی سے بالترتیب روزہ افطار کرنے میں بہت ہی باریک  فائدہ ہے۔ چونکہ روزہ رکھنے سے معدہ کھانے سے خالی رہتا ہے، چنانچہ جگر کو معدے میں کوئی ایسی چیز میسر نہیں آتی جسے وہ جذب کر کے اعضا کو توانائی پہنچائے، جبکہ میٹھا جگر تک سب سے زیادہ جلدی پہنچتا ہے اور جگر کے ہاں سب سے محبوب بھی ہے۔ خصوصاً اگر تازہ کھجور کی شکل میں ہو، لہٰذا تازہ کھجور کو جگر فوری جذب کرتا ہے اور تازہ کھجور سے روزہ افطار کرنے پر جگر کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ پورے جسم میں توانائی فوری طور پر پہنچتی ہے۔ چنانچہ اگر تازہ کھجور دستیاب نہ ہو تو پھر کھجور اس کے بعد آتی ہے، کیونکہ اس میں میٹھا اور بھرپور غذائیت ہوتی ہے۔ اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو پھر پانی کے گھونٹ معدے کی حرارت ختم کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد معدہ کھانا ہضم کرنے کے لیے بالکل تیار ہوتا ہے، اور کھانا صحیح سے کھایا جاتا ہے۔‘‘ (انتہی زاد المعاد، 4/287)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ افطار کرتے ہوئے طاق عدد میں کھجوریں کھاتے تھے۔ اس لیے مسلمان روزہ افطار کرتے ہوئے کھجوروں کی تعداد شمار کیے بغیر ہی ان سے روزہ افطار کر لے۔


شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’طاق عدد میں کھجوروں کے ساتھ روزہ افطار کرنا واجب بلکہ سنت بھی نہیں ہے کہ 3، 5، یا 7 کھجوریں کھائیں۔ البتہ عید کے دن طاق عدد میں کھجوریں کھا کر عید گاہ جانا ثابت ہے۔ جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم عید الفطر کے دن عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے طاق عدد میں کھجوریں کھاتے تھے۔ جبکہ اس کے علاوہ کسی بھی حالت میں آپ کھجوریں کھاتے ہوئے طاق عدد کا خیال نہیں رکھتے تھے۔‘‘ (انتہی، فتاوى نور على الدرب، 2/11)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا سحری اور افطاری کے لیے طرزِ زندگی اعتدال اور میانہ روی پر مبنی تھا۔ آپ اس میں اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اسراف یا کنجوسی سے کام نہیں کرتے تھے، اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ہدف کھانا پینا ہوتا تھا۔ بلکہ آپ اتنا ہی تناول فرماتے تھے کہ جس سے آپ کی کمر سیدھی رہے۔


آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے پینے میں کوئی ایسی عادت نہیں تھی جس کی آپ پابندی کرتے ہوں، یا لمبی چوڑی تفصیلات بھی نہیں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی صورت حال یہ ہوتی تھی کہ اگر پسند کا کھانا مل جاتا تو کھا لیتے، وگرنہ خاموش رہتے۔ اور اگر پسند کا کھانا نہ ملتا تو کھانا نہ کھاتے بلکہ بسا اوقات روزہ رکھ لیتے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  گوشت، روٹی، زیتون کا تیل، شہد، دودھ اور گھر میں میسر دیگر چیزیں تناول فرماتے تھے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل خانہ پورا مہینہ صرف کھجور اور پانی پر گزارا فرماتے تھے۔ کبھی یہ صورت حال بھی ہوتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے مہمان کو لے کر تمام بیویوں کے گھر جاتے لیکن سب کے پاس صرف کھجور اور پانی ہی میسر ہوتا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔