اڈانی گروپ کے گھوٹالے کا جنّ پھر بوتل سے باہر!

ہنڈن برگ رپورٹ کے بعد سنگین الزامات کے گھیرے میں آیا اڈانی گروپ ایک بار پھر تنازعات میں ہے، اس بار جانکاری سامنے آئی ہے کہ سرمایہ کاری کا بہاؤ کس کس ذریعہ سے گزرا اور اس کا آخری فائدہ کسے ملا۔

<div class="paragraphs"><p>اڈانی گروپ، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

اڈانی گروپ، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

اڈانی گروپ... ہوائی اڈوں سے لے کر ٹیلی ویژن اسٹیشنوں تک، ہر چیز میں مداخلت رکھنے والا ایک بڑا گروپ ہے۔ گروپ اسی سال شیئرس میں ہیرا پھیری کے الزامات میں پھنسا تھا اور یہ مبینہ طور سے جدید ہندوستان کی تاریخ کے سب سے بڑے معاشی گھوٹالوں میں سے ایک تھا۔ اب گروپ ایک بار پھر تنازعات کا سامنا کر رہا ہے۔ اس بار یہ جانکاری مل رہی ہے کہ سرمایہ کاری حقیقی معنوں میں کہاں سے ہوئی اور کمائی کا پیسہ کہاں گیا۔

رواں سال جنوری میں نیویارک واقع ایک شارٹ سیلر کے ذریعہ لگائے گئے الزامات کے سبب اڈانی کے اسٹاک میں زبردست گراوٹ آئی۔ گروپ کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے اور آخر کار ہندوستان کے سپریم کورٹ نے اس پر جانچ بٹھا دی۔ لیکن عدالت کے ذریعہ بنائی گئی ماہرین کی کمیٹی گھوٹالے کی تہہ تک پہنچنے میں ناکام رہی۔ اس معاملے کے سنگین سیاسی مفادات ہیں، کیونکہ مانا جاتا ہے کہ گروپ کے وزیر اعظم نریندر مودی سے قریبی رشتے ہیں اور ملک کی ترقی کے ان کے منصوبہ میں اس گروپ کا مرکزی کردار ہے۔


الزامات کا نچوڑ یہ تھا کہ اڈانی گروپ کے کچھ بڑے ’پبلک‘ سرمایہ کار دراصل اڈانی گروپ کے ہی انسائیڈر تھے، جو ہندوستانی سیکورٹیز قوانین کی خلاف ورزی تھی۔ لیکن اڈانی کے اس مبینہ گڑبڑجھالے کی جانچ کرنے والی کمیٹی نے جن بھی ایجنسیوں سے رابطہ کیا، وہ ان سرمایہ کاروں کی پہچان نہیں کر سکیں، کیونکہ یہ سرمایہ کار خفیہ آفشور سیل کمپنیوں کے پیچھے چھپے تھے۔ اب او سی سی آر پی کے ذریعہ حاصل اور ’دی گارجین‘ و ’فنانشیل ٹائمز‘ کے ساتھ شیئر کیے گئے دستاویزات، جس میں کئی ٹیکس ہیونس، بینک ریکارڈ اور اڈانی گروپ کے داخلی ای میل کی فائلیں شامل ہیں، اسی معاملے پر روشنی ڈالتے ہیں۔

اڈانی گروپ کے کاروبار کی سیدھی جانکاری رکھنے والے لوگوں نے ان دستاویزات کی تصدیق کی ہے اور اس کے ساتھ ہی کئی ممالک میں اڈانی گروپ سے جڑے عوامی ریکارڈ بتاتے ہیں کہ کیسے ماریشس کے غیر شفاف سرمایہ کاری فنڈز نے اڈانی گروپ کے شیئرس میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ کم از کم دو معاملے ایسے ہیں جب اڈانی گروپ کے پراسرار سرمایہ کار گروپ کے اکثریت شیئر ہولڈرس اڈانی فیملی کے قریبی پائے گئے۔ یہ ہیں ناصر علی شعبان علی اور چانگ چُنگ لنگ۔ ان دونوں کے اڈانی فیملی کے ساتھ طویل مدتی کاروباری رشتے ہیں اور انھوں نے اڈانی گروپ کی کمپنیوں اور فیملی کے سینئر اراکین میں سے ایک ونود اڈانی سے جڑی کمپنیوں میں ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔


دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ماریشس فنڈ کے ذریعہ سے ان لوگوں نے سالوں تک اڈانی کے شیئرس خرید-فروخت کر موٹی کمائی کی۔ دستاویز سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کی سرمایہ کاری کا مینجمنٹ کرنے والی کمپنی نے ونود اڈانی کی کمپنی کو انھیں سرمایہ کاری سے متعلق مشورہ دینے کے لیے ادائیگی بھی کی تھی۔ یہ انتظام قانون کی خلاف ورزی ہے یا نہیں، یہ اس بات پر منحصر کرتا ہے کہ کیا ناصر علی اور چانگ چُنگ کو اڈانی کے پروموٹرس کی طرف سے کام کرنے والا مانا جانا چاہیے؟ ’پروموٹر‘ لفظ کا استعمال کسی کاروبار ہولڈنگ کے اکثریتی مالکان یا ان سے جڑی پارٹیوں کو خطاب کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس حساب سے اڈانی گروپ میں انسائیڈر کی مجموعی حصہ داری قانون کے ذریعہ طے 75 فیصد سے زیادہ ہو جاتی ہے۔

ہندوستانی مارکیٹ اینالسٹ ارون اگروال کہتے ہیں کہ ’’جب کمپنی خود اپنے شیئر خرید کر اپنی حصہ داری 75 فیصد سے زیادہ کر لیتی ہے تو یہ نہ صرف ناجائز ہے، بلکہ شیئر کی قیمت میں ہیرا پھیری ہے۔ اس طرح کمپنی مصنوعی کمی پیدا کر کے اپنے شیئر کی قیمت کو بڑھاتی ہے اور اس کا اپنا مارکیٹ کیپـٹلائزیشن بھی بڑھ جاتا ہے۔‘‘ ارون کہتے ہیں کہ ’’اس طرح وہ اپنی شبیہ ایک ایسے کاروباری کی بنا لیتے ہیں جو بہت اچھا کام کر رہا ہے۔ اس سے انھیں قرض واپس کرنے، کمپنیوں کی تشخیص کو نئی اونچائی پر لے جانے اور پھر نئی کمپنیاں بنانے میں مدد ملتی ہے۔‘‘

جب اس انکشاف کے بارے میں اڈانی گروپ کا رد عمل لینے کی کوشش کی گئی تو اڈانی گروپ کے ایک نمائندہ نے کہا کہ وہ لوگ ماریشس کے جن فنڈز کے بارے میں جانکاری چاہ رہے ہیں، ان کے بارے میں ’ہنڈن برگ رپورٹ‘ میں پہلے سے ہی تذکرہ ہے۔


اڈانی کے نمائندہ نے سپریم کورٹ کی ماہرین کی کمیٹی کا بھی حوالہ دیا جس نے فنانشیل ریگولیٹری کو معاملے کی تہہ میں جانے کو کہا، جو کسی بھی طرح کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اڈانی کے نمائندہ نے لکھا ’’ان دلائل کے مدنظر یہ الزامات نہ صرف بے بنیاد ہیں، بلکہ ان میں ہنڈن برگ کے الزامات ہی دہرائے گئے ہیں۔ یہ بالکل صاف ہے کہ اڈانی گروپ کی سبھی پبلک لسٹیڈ ادارے پبلک شیئر ہولڈنگ سے متعلق سبھی قوانین پر عمل کرتی ہیں۔‘‘ او سی سی آر پی نے ناصر اور چانگ سے بھی ان کا نظریہ جاننے کی کوشش کی، لیکن انھوں نے جواب نہیں دیا۔

’دی گارجین‘ کے رپورٹر کے ساتھ انٹرویو میں چانگ نے کہا کہ انھیں اڈانی اسٹاک کی کسی بھی خفیہ خرید کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں۔ حالانکہ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ انھوں نے اڈانی کے شیئرس میں کوئی خریداری کی یا نہیں، لیکن یہ ضرور پوچھا کہ انھیں ان کی دیگر سرمایہ کاریوں میں دلچسپی کیوں نہیں ہے۔ انٹرویو ختم ہونے سے پہلے انھوں نے کہا کہ ’’ہمارا بڑا سیدھا کام کاج ہے۔‘‘ ونود اڈانی سے بھی ان کا نظریہ جاننے کی کوشش کی گئی، لیکن انھوں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ حالانکہ اڈانی گروپ نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ گروپ کو چلانے میں ان کا کوئی کردار ہے، لیکن اسی سال مارچ میں انھوں نے اعتراف کیا تھا کہ وہ اڈانی گروپ کے ’پروموٹرس گروپ‘ کا حصہ تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ کمپنی کے معاملوں پر ان کا کنٹرول تھا اور انھیں اڈانی گروپ کے شیئرس میں ہولڈنگ کے بارے میں مطلع کیا جاتا تھا۔ وہیں، اڈانی گروپ کے ایک نمائندہ نے نامہ نگاروں سے بات چیت میں کہا کہ ونود اڈانی کے شامل ہونے کا ’باضابطہ خلاصہ‘ کیا گیا ہے... وہ ایک ’غیر ملکی شہری ہیں جو گزشتہ تین دہائیوں سے بیرون ملک میں رہ رہے ہیں اور اڈانی کی کسی بھی فہرست بند کمپنی یا اس کی معاون کمپنیوں میں کسی بھی مینیجنگ عہدے پر نہیں ہیں۔‘‘

(آنند منگنالے، روی نایر اور این بی آر آرکاڈیو کی رپورٹ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔