دیہات سے شہر تک رمضان کے بدلتے رنگ... سید ضیغم مرتضیٰ

دیہات میں آج بھی رمضان کی روحانی اور اجتماعی حیثیت برقرار ہے۔ سحر و افطار کے اعلانات مسجدوں سے کیے جاتے ہیں اور لوگ زیادہ تر گھروں یا مساجد میں اکٹھے ہو کر افطار کرتے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

سید ضیغم مرتضیٰ

رمضان المبارک کی برکتیں، رونقیں اور روحانی لمحات ہر جگہ ایک جیسے ہونے چاہئیں لیکن اگر آپ دیہات سے شہروں کی طرف آئیں تو محسوس ہوگا کہ رمضان کا رنگ اور ماحول بھی بدل جاتا ہے۔ دیہات میں سادگی، سکون اور ایک خاص قسم کی روحانی فضا نمایاں ہوتی ہے، جبکہ شہروں میں چمک دمک، سجاوٹ، افطار پارٹیوں اور تجارتی سرگرمیوں کا غلبہ رہتا ہے۔ اگرچہ وقت کے ساتھ دیہات بھی بدل رہے ہیں اور شہروں کی رنگینیاں وہاں بھی پہنچ رہی ہیں، مگر اب بھی ان دونوں کے رمضان میں نمایاں فرق محسوس کیا جا سکتا ہے۔

دیہات میں آج بھی رمضان کی روحانی اور اجتماعی حیثیت برقرار ہے۔ سحر و افطار کے اعلانات مسجدوں سے کیے جاتے ہیں اور لوگ زیادہ تر گھروں یا مساجد میں اکٹھے ہو کر افطار کرتے ہیں۔ بازاروں میں ہجوم کم ہوتا ہے اور زیادہ تر افطار گھروں میں سادہ اور روایتی کھانوں سے کیا جاتا ہے، جیسے چنے، کھجور، دودھ اور سادہ روٹی۔ دیہات میں آج بھی اجتماعی سحر و افطار کا ماحول باقی ہے، جہاں لوگ مل بیٹھ کر کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ نمازِ تراویح میں پورا گاؤں شریک ہوتا ہے اور مساجد میں قرآن کی تلاوت گونجتی ہے۔ مغربی اتر پردیش جیسے علاقوں میں آج بھی سحری کے وقت دیہاتوں میں مخصوص افراد گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر جگانے کی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔


دوسری طرف شہروں میں رمضان کا ایک مختلف رنگ نظر آتا ہے۔ یہاں افطار کے وقت گلیاں اور بازار کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں۔ جگہ جگہ افطار پارٹیوں کا اہتمام ہوتا ہے، جن میں سے بیشتر کا تعلق سماجی یا سیاسی حیثیت کے اظہار سے ہوتا ہے۔ سحری کے وقت بھی ریستوران کھلے رہتے ہیں اور لوگ گھروں میں سحری کرنے کے بجائے ہوٹلوں اور فوڈ اسٹریٹس کا رخ کرتے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

RITESH SHUKLA

سوشل میڈیا اور مارکیٹنگ نے بھی شہری رمضان کو کافی حد تک متاثر کیا ہے۔ ہر کوئی اپنے افطار اور سحری کی تصویریں شیئر کرنے میں مصروف نظر آتا ہے اور اس معاملے میں بعض اوقات اصل روحانی فوائد پسِ پشت چلے جاتے ہیں۔ عبادات کی جگہ تقریبات نے لے لی ہے اور تراویح میں شرکت کرنے والے کم جبکہ شاپنگ کرنے والے زیادہ نظر آتے ہیں۔ اگرچہ دیہات میں اب بھی روایتی سادگی باقی ہے لیکن شہروں کے اثرات وہاں بھی واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ قصبوں میں افطار بازار اور رات بھر کھلے رہنے والے ہوٹل عام ہو چکے ہیں۔ جہاں پہلے سحر و افطار گھروں میں محدود تھا، اب وہاں بھی بازاروں میں چہل پہل دیکھی جا سکتی ہے۔


دیہاتوں میں بھی فینسی افطار اور چمک دار سحری کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ پہلے جہاں سادہ کھانے اور مشترکہ افطار کا رواج تھا، اب وہاں فاسٹ فوڈ، برگر، شوارما اور دیگر شہری کھانوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسی طرح، موبائل فون اور انٹرنیٹ کی وجہ سے دیہات کے نوجوان بھی رمضان کے دوران ویڈیوز اور سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنے لگے ہیں، جو کبھی صرف شہری طرزِ زندگی کا خاصہ ہوا کرتا تھا۔

دیہات میں اب بھی رمضان کے دوران دیگر مذاہب کے ساتھ سماجی تعلقات نمایاں نظر آتے ہیں۔ غیر مسلم بھی اکثر احتراماً افطار میں شامل ہوتے ہیں یا روزے داروں کے احترام میں کھانے پینے سے اجتناب کرتے ہیں۔ شہروں میں، اگرچہ افطار پارٹیاں بڑی تعداد میں منعقد ہوتی ہیں لیکن اکثر ان کا مقصد سیاسی یا سماجی تعلقات کو بڑھانا ہوتا ہے، بجائے اس کے کہ حقیقی روحانی اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔ ماضی میں دیہاتوں میں روزے داروں کی مدد کے لیے غیر مسلم ہمسائے بھی پیش پیش ہوتے تھے لیکن بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ روایت کمزور ہو رہی ہے۔ شہروں میں جہاں ایک طرف بڑے پیمانے پر افطار کا اہتمام ہوتا ہے، وہیں طبقاتی فرق کے باعث کئی لوگ سحری اور افطار کے لیے محتاج نظر آتے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images


رمضان صرف کھانے پینے اور میل جول کا نام نہیں بلکہ ایک روحانی تربیت کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں خود احتسابی، اللہ کی قربت اور سماجی یکجہتی پر زور دیا جاتا ہے۔ شہروں میں جہاں رمضان کی رنگینیاں بڑھ رہی ہیں، وہیں عبادات میں کمی آتی جا رہی ہے۔ دیہات میں بھی اگرچہ روایتی عبادات قائم ہیں لیکن وہاں بھی جدید سہولتوں کے ساتھ طرزِ زندگی میں تبدیلی آ رہی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ رمضان کے اصل مقاصد کو نہ بھولا جائے۔ افطار اور سحری کے اہتمام کے ساتھ ساتھ عبادات، خیرات اور ضرورت مندوں کی مدد بھی اسی جوش و جذبے سے کی جائے۔ دیہات کی سادگی اور شہروں کی تنظیم اگر یکجا ہو جائے تو رمضان کے اصل ثمرات حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جو ہمیں سادگی، تقویٰ، قربانی اور یکجہتی کا درس دیتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے ظاہری رنگ بدلتے جا رہے ہیں لیکن ضروری ہے کہ ہم اس کی اصل روح کو نہ کھو دیں۔ اگر ہم دیہات کی روحانی سادگی اور شہروں کی منظم صلاحیت کو یکجا کر لیں تو رمضان کی حقیقی برکتوں سے فیض یاب ہو سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ رمضان کی عبادات کو محض ایک رسمی عمل نہ سمجھیں، بلکہ اس مہینے کو اپنی زندگی میں حقیقی بہتری کا ذریعہ بنائیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں نہ صرف دیہات اور شہروں میں یکجہتی فراہم کر سکتا ہے، بلکہ مجموعی طور پر ایک مضبوط اور بہتر معاشرہ بھی تشکیل دے سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔