رمضان کریم اور معمولاتِ زندگی... ڈاکٹر آفتاب احمد منیری

شعورِ بندگی کا یہ تقاضا ہے کہ رمضان المبارک کا استقبال اس انداز سے کیا جائے کہ ہماری زندگی میں صالحیت کے پھول کھلیں، جس کی خوشبو سے شاہراہِ حیات مہک اٹھے

<div class="paragraphs"><p>تصویر آئی اے این ایس</p></div>

تصویر آئی اے این ایس

user

آفتاب احمد منیری

بفضلہ تعالیٰ نیکیوں کا موسمِ بہار، شہرِ قرآن، شہر رمضان ہمارے اوپر سایہ فگن ہو چکا ہے۔ مسلمانانِ عالم کے لیے اس سے عظیم سعادت اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ وہ صحت و عافیت کے ساتھ اس ماہِ محترم کا استقبال کر رہے ہیں۔ آمدِ ماہِ قرآن کی رفعتوں سے باخبر ہر اہلِ ایمان کی یہ دیرینہ خواہش ہوتی ہے کہ زندگی میں بار بار رمضان کریم کی مقدس ساعتیں سایہ فگن ہوں اور وہ حسبِ استطاعت اپنا دامن نیکیوں سے بھر سکے۔ عظمتِ شہرِ رمضان کے حوالے سے دلوں میں راسخ خصوصی احترام کا جذبہ آج کے دورِ پُرفتن میں بھی اپنی ایمانی کیفیت کے ساتھ موجود نظر آتا ہے۔ اس ایمانی کیفیت کے پسِ پردہ وہ احساس کارفرما ہے جو ہمہ وقت ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ آیا اس رمضان اور اس کی برکتوں سے یہ ہماری آخری ملاقات تو نہیں۔

اسی احساس کے پیشِ نظر ایک ادنیٰ درجے کا مسلمان بھی ماہِ صیام کی رحمتوں اور برکتوں سے فیض یاب ہونے کی کوشش کرتا ہے اور خود بخود اس کے قدم مساجد کی جانب اٹھ جاتے ہیں۔ چنانچہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ رمضان کریم کی آمد کے ساتھ ہی قومِ مسلم کی معمولاتِ زندگی یکسر تبدیل ہو جاتی ہے۔ برائی سے دامن کش ہونے اور نیکیوں سے بہرہ مند ہونے کا شوق پروان چڑھتا ہے۔ تلاوتِ قرآن، ذکرو اذکار اور استغفار کی کثرت سے بندگانِ خدا سرور و شادکام نظر آتے ہیں۔

نزولِ قرآن کے اس مہینے میں معمولاتِ زندگی کے تبدیل ہو جانے کی ایک خاص وجہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ بشارت ہے جس میں آپ نے فرمایا تھا: ’’لوگو! تم پر ایک ایسا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے جس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔‘‘ (سنن نسائی: 2106)


ایک دوسری حدیث میں ہے کہ: ’’جب ماہِ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور دوزخ کے تمام دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، کوئی ایک دروازہ بھی نہیں کھولا جاتا جب کہ جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں، کوئی ایک دروازہ بھی بند نہیں کیا جاتا۔ اللہ کا منادی پکارتا ہے: اے خیر و نیکی کے طالب! آگے بڑھ اور اے شر و بدی کے طالب ! رک جا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس رات بہت سے گناہ گار بندوں کو دوزخ سے رہائی دیتے ہیں اور رمضان کی ہر رات یوں ہی ہوتا رہتا ہے۔‘‘ (سنن ترمذی: 682)

علاوہ ازیں رحمتِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہِ قرآن کی فضیلت بیان کرتے ہوئے یہ خوش خبری بھی سنائی: ’’جس شخص نے ایمان اور احتسابِ نفس کے ساتھ روزوں کا اہتمام کیا ، اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘ (متفق علیہ)

چنانچہ شعورِ بندگی کا یہ تقاضا ہے کہ رمضان المبارک کا استقبال اس انداز سے کیا جائے کہ ہماری زندگی میں صالحیت کے پھول کھلیں، جس کی خوشبو سے شاہراہِ حیات مہک اٹھے۔ اس سلسلے میں رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ہماری بہترین رہنمائی کرتی ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ روایت کرتی ہیں کہ ماہِ رمضان میں آپؐ کے معمولات یہ ہوا کرتے تھے:

• آپؐ رمضان کریم کے روزوں کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے اور اس کے روزوں کو ترک کرنا گناہِ کبیرہ قرار دیتے تھے۔ لہذا ہر امتی کو چاہیے کہ حالتِ صحت میں روزے کی سختی سے پابندی کرے۔

• آپؐ غیر رمضان کے مقابلے میں رمضان کے دنوں میں کثرت سے قرآن کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ آپ کبھی تلاوت کرتے اور کبھی قرآن کی تلاوت سماعت بھی کرتے۔


رسولِ کریمؐ کے اس پاکیزہ عمل سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کا پڑھنا اور قرآن کا سننا دونوں عبادت ہے۔ لہذا آج بھی مسلمانانِ عالم اپنے نبی کی اس عظیم سنت کو زندہ کرتے ہوئے رمضان کے شب و روز قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف رہتے ہیں۔ مساجد میں نمازِ تراویح کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے اور فضائیں تلاوتِ قرآن کی دل نواز صداؤں سے معطر ہوتی ہیں۔

اس ماہِ مبارک میں نفس کی پاکیزگی کا سبق بھی پوشیدہ ہے۔ جیسا کہ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیثِ مبارکہ سے پتہ چلتا ہے: ’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخاوت اور خیر کے معاملے میں سب سے زیادہ سخی تھے۔ اور آپ کی سخاوت رمضان کے دنوں میں اور بڑھ جاتی، یہاں تک کہ آپ چلتی ہوا سے بھی زیادہ لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے۔‘‘ (بخاری: 1902)

اس حدیثِ مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے راستے میں خرچ کرنے، لوگوں کو سحری و افطار کرانے وغیرہ جیسے نیک کاموں میں ہمہ تن مصروف رہا کرتے تھے، لہذا قومِ مسلم بھی اس ماہِ محترم میں صدقہ و خیرات کے ذریعے رضائے الٰہی کے حصول میں سرگرداں رہتی ہے۔ واضح ہو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور غریب مسلمانوں کی مدد کرنا پاکیزگیِ نفس کا بہترین ذریعہ ہے۔

حقوق العباد کا تقاضا بھی ہے کہ ہم اپنے غریب مسلمان بھائیوں کی خبرگیری کریں اور انھیں اپنے ساتھ سحری و افطار میں شریک کر اللہ کی خوشنودی حاصل کریں۔ ہماری معمولاتِ زندگی کے اندر آمدِ ماہِ رمضان کے سبب جتنی بھی خوش گوار تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ان میں سب سے بنیادی شئے یہ ہے کہ ہم کم و بیش نفس کی غلامی سے نکل کر اپنے رب کے غلام بن جاتے ہیں اور اس احساسِ بندگی کے نتیجے میں ہماری بے ترتیب زندگی میں ایک قسم کا نظم و ضبط(Discipline) آ جاتا ہے۔ ہم اللہ کی عبادت سے لے کر اپنے دنیوی معاملات تک کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً روزے کی حالت میں ہم جھوٹ، مکر و فریب اور فحش گوئی وغیرہ جیسے مکروہ اعمال ترک کر دیتے ہیں تاکہ ہم روزے کی حلاوت اور ایمان کے ثمرات پا سکیں۔ ذرا تصور کریں کہ اگر یہ نیک روش رمضان کے بعد بھی یوں ہی برقرار رہے تو ہماری زندگی میں کیسی برکتیں نازل ہوں گی؟ اور ہم دنیا کے فتنہ و فساد سے کس حد تک محفوظ و مامون رہیں گے... کوشش کرکے تو دیکھیے۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

(مضمون نگار ’ایچ ڈی جین کالج، آرہ، بہار‘ میں صدر شعبہ اردو ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔