لاکھوں افراد ہندوستانی شہریت کیوں ترک کر رہے ہیں؟...سہیل انجم

گزشتہ 14 برسوں میں ہندوستان کے 20 لاکھ سے زائد افراد نے شہریت ترک کی۔ بہتر مواقع، دوہری شہریت کی عدم اجازت اور معاشی دباؤ اس رجحان کی بڑی وجوہات ہیں، جو حکومتی پالیسیوں پر سوال اٹھاتا ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر اے آئی</p></div>
i
user

سہیل انجم

ایک طرف حکومت ہند یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتی کہ ہندوستان عالمی قائد یا وشو گرو بن چکا ہے اور گزشتہ کچھ برسوں میں ملک میں بے پناہ ترقی ہوئی ہے، وہ تیزی سے ابھرنے والی معیشت بن گئی ہے اور ادھر دوسری طرف انہی برسوں کے دوران لاکھوں افراد ہندوستانی شہریت ترک کرکے دوسرے ملکوں میں مستقل طور پر آباد ہو چکے ہیں۔ حکومت ہی کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 14 برسوں میں 20 لاکھ سے زائد ہندوستانی اپنی شہریت چھوڑ کر غیر ملکوں میں جا چکے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف اسی دوران لوگ اپنی شہریت چھوڑتے رہے ہیں بلکہ پہلے بھی یہ سلسلہ جاری تھا البتہ اب یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور شہریت ترک کرنے والوں کے سالانہ تناسب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی واضح تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔

تاہم اس کی متعدد وجوہات ہیں جن کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ وزارت خارجہ نے اسی سال 20 مارچ کو ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ شہریت چھوڑنے کی وجوہات ذاتی ہیں جن کے بارے میں وہی لوگ بہتر جانتے ہیں۔ البتہ حکومت عالمی سطح پر کام کے مواقع کو تسلیم کرتی ہے۔ اس نے ہندوستانی تارکین وطن کے ساتھ اپنے روابط میں تبدیلی پیدا کی ہے۔ کامیاب، خوشحال اور بااثر تارکین وطن ہندوستان کا اثاثہ ہیں۔ ہندوستان کو اپنے ڈائیسپورا نیٹ ورک (یعنی غیر ملکوں میں آباد ہندوستانیوں) سے روابط پیدا کرنے اوراس کے نتیجہ خیز استعمال سے بہت کچھ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کی کوششوں کا مقصد ڈائیسپورا کی صلاحیتوں کو مکمل طور پر بروئے کار لانا ہے جس میں علم اور مہارت کا اشتراک بھی شامل ہے۔ البتہ حکومت نے اس رجحان کو روکنے کی کوشش کی ہے اور اس نے عوام کو انتباہ دیا ہے کہ وہ غیر رجسٹرڈ ایجنٹوں کی مدد سے دوسرے ملکوں میں جانے کی کوشش نہ کریں۔ ان ایجنٹوں کی تفصیلات ای مائگریٹ پورٹل پر اپ لوڈ کی گئی ہیں۔

اگر ہم سال بہ سال کے اعتبار سے اعداد و شمار کو دیکھیں تو پائیں گے کہ صرف 2020 سے 2024 کے درمیان یعنی چار سال میں تقریباً نو لاکھ ہندوستانیوں نے شہریت چھوڑی ہے۔ 2020 میں 85 ہزار سے کچھ زائد، 2021 میں ایک لاکھ 63 ہزار اور 2022 میں سب سے زیادہ سوا دو لاکھ افراد نے یہ کام کیا ہے۔ البتہ 2023 میں اس تعداد میں ہلکی سی تخفیف ہوئی اور یہ تعداد دو لاکھ 16 ہزار تک آگئی اور 2024 میں دو لاکھ چھ ہزار ہندوستانی شہری یہاں سے جا چکے ہیں۔ ان افراد کے پسندیدہ ملکوں میں امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، دبئی، سنگاپور، نیوزی لینڈ، برطانیہ، فرانس، مالٹا اور بعض یوروپی ممالک شامل ہیں۔ ان ملکوں میں ہندوستانی پیشہ ور ہنرمندوں کی مانگ ہے اور ایسے ہی لوگ ان ملکوں میں مستقل آباد ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر چہ لوگوں کے شہریت چھوڑنے کی وجوہات ذاتی ہیں تاہم وہ بہتر زندگی گزارنے، زیادہ پیسہ کمانے، اچھی تعلیم حاصل کرنے اور اسی قسم کی پرکشش صورت حال کے پیش نظر ایسا قدم اٹھاتے ہیں۔

ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہندوستان دوہری شہریت کی اجازت نہیں دیتا۔ متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہندوستانی باشندوں کی پوسٹس سے بھرے ہوئے ہیں جہاں لوگوں نے لکھا ہے کہ ان کے لیے اپنی ہندوستانی شناخت ترک کرنا کتنا مشکل تھا۔ وہ دستاویز جو انہیں ہندوستانی شہری بناتی ہے ہندوستانی پاسپورٹ ہے۔ لیکن ہندوستانی قانون کے مطابق ہندوستانی پاسپورٹ ہولڈر رضاکارانہ طور پر دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے پر خود بخود شہریت سے محروم ہوجاتا ہے۔ ہندوستانیوں کے لیے جو سالوں سے بیرون ملک مقیم ہیں اور کام کر رہے ہیں غیر ملکی شہریت لینے کے لیے اکثر مکمل شہری اور پیشہ ورانہ حقوق تک رسائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ شہریت ایکٹ 1955 کی دفعہ 9 اس ضابطے کو کنٹرول کرتی ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرتا ہے تو اس کی ہندوستانی شہریت از خود ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود لوگ دوسرے ملکوں میں آباد ہونے کو ترجیح دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ انھیں وہاں پرتعیش زندگی گزارنے کے مواقع ملتے ہیں۔


غیر ملکوں میں جانے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو جائز اور قانونی طور پر جانا اور وہاں کی شہریت حاصل کرنا اور دوسرے زیادہ کمانے کے چکر میں جعلی ایجنٹوں کے چنگل میں پھنس جانا اور غیر قانونی طور پر جانا۔ امریکہ اور کینیڈا وغیرہ میں غیر قانونی طریقے سے جانے والوں کی بڑی تعداد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ملکوں سے ان کو واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد ہندوستانیوں کے امریکہ جانے کی راہ مشکل ہو گئی ہے۔ اس وقت بہت ہنگامہ ہوا تھا جب انھوں نے جہازوں میں بھر بھر کر اور ہاتھوں میں ہتھکڑی اور پیروں میں بیڑی لگا کر ہندوستانیوں کو واپس کیا تھا۔ اپوزیشن نے اس وقت حکومت پر شدید تنقید کی تھی لیکن حکومت نے یہ کہہ کر اپنا پلہ جھاڑ لیا تھا کہ یہ کارروائی امریکی قوانین کے مطابق کی گئی ہے اور وہاں کے قوانین کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن کو اسی طرح واپس بھیجا جاتا ہے یہ وہاں کا پروٹوکول ہے۔ غیر قانونی طریقے سے لوگوں کو بھیجنے کے عمل کو ”کبوتر بازی“ کہتے ہیں اور غیر قانونی ایجنٹ اس سے کافی کمائی کرتے ہیں۔

وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے چند ماہ قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت غیر قانونی طور پر لوگوں کو باہر بھیجنے کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے۔ وہ اس رجحان کو ہر حال میں ختم کرنا چاہتی ہے۔ ایسے ایجنٹوں پر چھاپے ڈالے گئے ہیں اور کئی افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ای مائگریٹ پورٹل پر 3094 غیر قانونی ایجنٹوں کی تفصیلات پوسٹ کی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ غیر قانونی طور پر غیر ملکوں میں جانے کا رجحان سب سے زیادہ پنجاب اور ہریانہ میں ہے۔ لیکن سبھی کامیاب ہو جائیں یہ ضروری نہیں ہے۔ بہت سے لوگ پچاس لاکھ یا اس سے بھی زائد رقم ادا کرکے جاتے ہیں اور چند ماہ میں ان کو پکڑ کر واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ روس گئے تھے اور انھیں یوکرین جنگ میں دھکیل دیا گیا جہاں کچھ کی موت واقع ہو گئی۔

لیکن بہرحال اگر یہاں کے لوگ دوسرے ملکوں میں زیادہ بہتر زندگی گزارنے کے لالچ میں جاتے ہیں اور وہاں کی شہریت حاصل کرتے ہیں تو یہ حکومت کے اقدامات کی ناکامی ہے۔ اس کو چاہیے کہ وہ یہیں بہتر زندگی گزارنے کے مواقع پیدا کرے۔ حکومت تو کہتی ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہندوستانیوں کا معیار زندگی بلند ہوا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت 80 کروڑ شہریوں کو ماہانہ پانچ کلو اناج دیتی ہے تاکہ وہ دو وقت کی روٹی کا انتظام کر سکیں۔ کیا یہی معیار زندگی کی ترقی کا پیمانہ ہے۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرتی ہے کہ کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہاں کی غربت سے تنگ آکر دوسرے ملکوں میں ملازمت اور مزدوری کرنے کے لیے غیر قانونی راستہ اختیار کرنے پر زیادہ تر کسان ہی مجبور ہو رہے ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ صرف انتخابات جیتنے، اپوزیشن کو ختم کرنے کے لیے جوڑ توڑ کرنے اور زیادہ سے زیادہ ریاستوں میں برسراقتدار جماعت کی حکومت بنوانے کو ترجیح دینے کے بجائے شہریوں کا معیار زندگی بلند کرنے کو ترجیح دے۔ اگر لوگوں کو اندرون ملک کام کرنے اور بہتر زندگی گزارنے کے مواقع ملیں تو وہ مادر وطن کو خیرباد کہہ کر دوسرے ملکوں میں جا کر غریب الوطنی کی زندگی کیوں گزاریں۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسی بدلے اور قومی خزانے کو انتخابات جیتنے کی کوششوں پر لٹانے کے بجائے شہریوں کو بہتر سہولتیں فراہم کرنے پر خرچ کرے۔ اگر گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس نے اس پر توجہ دی ہوتی تو آج اتنی بڑی تعداد میں لوگ ہندوستانی شہریت ترک نہیں کرتے۔ سالانہ دو لاکھ افراد کا شہریت ترک کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایسے اقدامات کرے کہ اس رجحان پر بند باندھا جا سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔