کیرالہ میں بائیں بازو کی اجارہ داری کمزور، کانگریس چمک اٹھی...سہیل انجم

کیرالہ کے بلدیاتی انتخابات نے بائیں بازو کی کمزوری اور کانگریس کی مضبوط واپسی کے آثار دکھا دیے ہیں۔ نتائج نے بی جے پی کی پیش رفت اور ایل ڈی ایف کے خلاف عوامی ناراضگی کو بھی نمایاں کیا ہے

<div class="paragraphs"><p>بلدیاتی انتخابات میں شاندار کامیابی کے بعد کیرالہ کانگریس کے رہنماؤں کی دہلی میں ملکارجن کھڑگے، سونیا گاندھی، راہل گاندھی، کے سی وینوگوپال اور پرینکا گاندھی سے ملاقات / تصویر آئی این سی</p></div>
i
user

سہیل انجم

کیرالہ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے ہیں اگر وہ مستقبل کی سیاست کا کوئی اشارہ ہیں تو اس کا مفہوم یہی ہے کہ اب وہاں بائیں بازو کی اجارہ داری ختم ہو رہی ہے اور کانگریس کی قیادت والے متحدہ محاذ (یو ڈی ایف) کے برسراقتدار آنے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ کیرالہ کے مقامی انتخابات کے نتائج کو ہلکے میں نہیں لیا جا سکتا۔ ان کی بڑی اہمیت ہے اور یہ اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہاں اگلے سال مارچ میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس وقت جو نتائج سامنے آئے ہیں اگر یہی رجحان جاری رہاتو پنرئی وجین کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا اور کانگریس کی قیادت والے متحدہ محاذ کی حکومت بن جائے گی۔ لیکن اگر ہم ترواننت پورم کے نتیجے پر نظر ڈالیں تو تشویش بھی پیدا ہوتی ہے کیونکہ وہاں کے کارپوریشن میں بی جے پی کو کامیابی ملی ہے۔

کیرالہ میں چھ کارپوریشنوں، 86 میونسپلٹی بلاکوں، 14 ضلع پنچایتوں، 152 بلاک پنچایتوں اور 941 گرام پنچایتوں کے لیے 9 اور 11 دسمبر کو انتخابات ہوئے ہیں۔ جن میں سے کانگریس کی قیادت والے محاذ کو سب سے زیادہ کامیابی ملی ہے۔ کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی نے نتائج پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک فیصلہ کن مینڈیٹ ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے ریاست کے عوام تبدیلی چاہتے ہیں اور ایک ایسی حکومت چاہتے ہیں جو ان کے مسائل پر توجہ دے، ان کو حل کرنے کی کوشش کرے اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم عوام کے ساتھ کھڑے ہیں ان کے مسائل کے تئیں فکرمند ہیں اور ایک شفاف اور عوام کو ترجیح دینے والی حکومت فراہم کرنے کے تئیں پرعزم ہیں۔

ترواننت پورم سے کانگریس کے ایم پی اور وقتاً فوقتاً بی جے پی اور وزیر اعظم نریند رمودی کی تعریف کرنے والے ششی تھرور نے بھی ان نتائج کی ستائش کی اور خیرمقدم کیا ہے لیکن ترواننت پورم کا نتیجہ تشویش ناک بھی ہے۔ ترواننت پورم کارپوریشن میں بی جے پی کامیاب ہوئی ہے جو کہ چونکانے والی بات ہے۔ واضح رہے کہ ترو اننت پورم کارپوریشن میں ایل ڈی ایف یعنی بائیں بازو کے محاذ کو 45 برسوں سے اکثریت حاصل تھی۔ اب وہاں بی جے پی کی کامیابی جہاں وزیر اعلیٰ پنرئی وجین کی شکست ہے وہیں ششی تھرور بھی اس کے لیے کسی حد تک ذمہ دار ہیں۔ ان کی زبانی بی جے پی اور نریند رمودی کی ستائش نے ممکن ہے کہ کچھ کانگریسی ووٹرز کو بی جے پی کی طرف مائل کیا ہو۔ ممکن ہے وہ یہ سمجھ رہے ہوں کہ آج نہیں تو کل ششی تھرور پالا بدل سکتے ہیں لہٰذا بی جے پی کی طرف مڑ جانا چاہیے۔ لیکن صرف یہی ایک وجہ نہیں ہو سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی ایک عرصے سے کیرالہ میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ترو اننت پورم کارپوریشن میں 101 وارڈوں میں این ڈی اے کو 50، ایل ڈی ایف کو 29 اور یو ڈی ایف کو 19 میں کامیابی مل گئی۔


کیرالہ میں ایل ڈی ایف کی شکست کے کئی اسباب رہے ہیں۔ جب سبری مالا مندر سے سونے کے زیورات کی چوری کا معاملہ سامنے آیا تو بائیں بازو کے کئی لیڈروں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا اور ایک سینئر پارٹی لیڈر کو گرفتار بھی کیا گیا۔ بی جے پی نے اس ایشو کو خوب اچھالا جس کی وجہ سے ہندو ووٹ اس کی جانب مائل ہو گیا۔ حالانکہ وہی ہندو ووٹ ایک عرصے سے بائیں بازو کو اقتدار میں لاتا رہا ہے۔ لیکن بایاں محاذ اس معاملے کو سنبھال نہیں سکا۔ادھر سی پی آئی ایم نے کانگریس پر الزام لگایا کہ وہ جماعت اسلامی کے لوگوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے لیکن کانگریس نے اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیا اور انکشاف کیا کہ وہ خود جماعت کے لوگوں کے ساتھ ہے اور جماعت نے 2019 میں سی پی آئی ایم کو ووٹ دیا تھا۔ اس طرح یہ الزام خود اس کے گلے پڑ گیا۔

مسلم علاقوں میں بائیں بازو کو سخت نقصان ہوا۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا جو کسی حد تک درست ہے کہ بایاں محاذ ہندوتو طاقتوں کے خلاف لڑائی لڑنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ مرکز کی ایک اسکیم ہے ”پی ایم شری“۔ بایاں بازو پہلے اس کی مخالفت کرتا رہا لیکن پھر اس نے اس کو منظوری دے دی۔ جس سے سنگھ پریوار کے خلاف بائیں بازو کی لڑائی کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے۔ اس کے علاوہ جب کٹر ہندو رہنماؤں نے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف اپنی جارحانہ مہم تیز کی تو وزیر اعلیٰ وجین اور ان کی پارٹی نے خاموشی اختیار کر لی۔ انھوں نے مسلمانوں اور اقلیتوں کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھائی جس سے مسلمانوں میں یہ پیغام گیا کہ وہ ان کے ہمدرد نہیں ہیں اور انھوں نے ہندوتو کی طاقتوں کو چھوٹ دے رکھی ہے۔ وجین حکومت گزشتہ سال سے چل رہی ہے جس کی وجہ سے اس کے خلاف عوام میں جذبات پائے جاتے ہیں۔ اس نے بھی بائیں بازو کی شکست کی راہیں کھول دیں۔

ان انتخابات میں ایک اہم بات اور دیکھی گئی جو سوشل میڈیا سے متعلق تھی۔ متعدد امیدواروں اور خاص طور پر نوجوان امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم میں سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔ انھوں نے اس کی بنیاد پر اپنی مہم چلائی اور اس کے بہت مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ 80 فیصد ایسے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جنھوں نے سوشل میڈیا کا استعمال کیا۔ واضح رہے کہ اس وقت سوشل میڈیا ایک بہت اہم پلیٹ فارم ثابت ہو رہا ہے۔ صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں اس کے اثرات بڑھ رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں نیویارک کے میئر کے انتخابات میں ظہران ممدانی کی جیت میں بھی سوشل میڈیا کا بڑا عمل دخل تھا۔ سیکڑوں افراد نے سوشل میڈیا پر دن رات مہم چلائی تھی جس کے نتیجے میں ممدانی کی شاندار کامیابی ہوئی۔ ہندوستان میں بھی ایسے ہزاروں انفولوینسر ہیں جو سوشل میڈیا کے ہیرو ہیں۔ عوام اور بالخصوص نوجوان نسل ان کی باتیں سنتی ہے اور ان کی اپیلوں پر کان دھرتی ہے۔ خود بی جے پی نے اسی پلیٹ فارم کا سہارا لے کر سیاسی کامیابی حاصل کی ہے۔

بہرحال کیرالہ کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے سب کو چونکا دیا ہے۔ جہاں بائیں بازوں کا قلعہ ہل گیا ہے وہیں بی جے پی نے ریاست میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ کانگریس کو اس کامیابی سے بہت زیادہ خوش ہونے کے بجائے اسے اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بہترین حکمت عملی اختیار کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ جس طرح ان مقامی انتخابات میں اس نے شاندار حکمت عملی بنائی اسی طرح اسمبلی انتخابات میں بھی بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئی تو اسمبلی انتخابات میں اسے کامیابی مل سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔