شہادت کا 33 سالہ سوگ اور نئی بابری مسجد کا تنازع... سہیل انجم

6 دسمبر 1992 سے لے کر اب تک مسلمان بابری مسجد کی شہادت کا سوگ منا رہے ہیں۔ شہادت کے ابتدائی برسوں میں دکھ اور تکلیف کی شدت زیادہ تھی جو رفتہ رفتہ کم ہوتی جا رہی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>بابری مسجد کی شہادت کی تصویر</p></div>
i
user

سہیل انجم

کل 6 دسمبر تھا۔ تاریخی بابری مسجد کی شہادت کا سیاہ دن۔ یعنی شہادت کا 33 سالہ سوگ۔ یہ صرف بابری مسجد کی شہادت کا یوم سیاہ نہیں تھا بلکہ ہندوستانی آئین کی شہادت کا بھی دن تھا۔ یہاں کے سیکولرزم کی شہادت کا دن تھا۔ فرقہ وارانہ یگانگت کے خاتمے کا دن تھا۔ ہندو-مسلم اتحاد کے پارہ پارہ کر دیے جانے کا دن تھا۔ ایک تاریخی حقیقت کو ایک مفروضے کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دینے کا دن تھا۔ اسی کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی اسلامی شناخت کو مٹانے کی کوشش کا دن تھا۔ اس دن شدت پسندوں کے ایک طبقے کی جانب سے اپنے عمل سے یہ اعلان کیا گیا کہ یہ ملک صرف اور صرف ایک خاص مذہب کے پیروکاروں کا ہے جس میں کسی اور مذہب کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس عمل سے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا مقولہ فرضی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ طاقت کے نشے اور دن کے اجالے میں جس طرح تاریخی بابری مسجد کو شہید کیا گیا وہ سیکولر ہندوستان کی پیشانی پر ایک بدنما داغ تھا۔

6 دسمبر 1992 سے لے کر اب تک مسلمان بابری مسجد کی شہادت کا سوگ منا رہے ہیں۔ شہادت کے ابتدائی برسوں میں دکھ اور تکلیف کی شدت زیادہ تھی جو رفتہ رفتہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کی خاموشی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انھوں نے اس سانحے کو فراموش کر دیا ہے۔ وہ اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے اور ان کی آنے ولی نسلیں بھی اس کو فراموش نہیں کر سکیں گی۔ البتہ یہ دن ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ کیا ہم نے اس لرزہ خیز سانحے سے کوئی سبق سیکھا؟ اپنے حقوق کی بازیابی کیسے کی جائے یا اس کی تحریک کیسے چلائی جائے اس بارے میں کوئی متفقہ غور و فکر کیا؟ کوئی حکمت عملی بنائی؟ کیا ہم نے گیان واپی مسجد (بنارس) اور شاہی عیدگاہ (متھرا) اور ملک کے مختلف علاقوں میں موجود تاریخی مساجد، آثار، خانقاہوں، درگاہوں اور نئی تعمیر کی جانے والی مساجد اور اسی کے ساتھ مدارس کے تحفظ کے سلسلے میں کسی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا؟ کیا ہم نے اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر اس بارے میں کچھ سوچنے کو ترجیح دی؟ یہ اور ایسے جانے کتنے سوالات ہیں جو آج ہمارا پیچھا کر رہے ہیں، لیکن ہم ان سوالوں سے بھاگ رہے ہیں۔ یہ جانتے بوجھتے بھی کہ ہم ان سے راہ فرار اختیار نہیں کر سکتے۔ ہم جس موڑ پر بھی پہنچیں گے یہ سوالات اپنی پوری شدت کے ساتھ ہمارے سامنے آ کھڑے ہوں گے۔ لہٰذا ان سے بھاگنے کی نہیں بلکہ ان کا سامنا کرنے اور ان کی سنگینی کے پیش نظر حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔


جب بابری مسجد مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا (جس پر ہم کچھ نہیں کہیں گے) اس وقت ایودھیا سے کچھ مسافت پر نئی مسجد کی تعمیر کے لیے ایک قطعہ اراضی بھی دیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک ثقافتی سینٹر بھی قائم کیا گیا۔ ابتدائی برسوں میں اس کا ایک خوبصورت نقشہ بنوایا گیا اور یہ اعلان کیا گیا کہ یہاں صرف ایک مسجد کی تعمیر نہیں ہوگی بلکہ اسلامک کلچرل سینٹر بھی بنے گا۔ اسلامی علوم کی تحقیق کا ادارہ قائم کیا جائے گا۔ ایک دانش گاہ بنائی جائے گی۔ ایک اسپتال قائم کیا جائے گا۔ لیکن جب ذمہ داروں کی جانب سے اس کا نقشہ منظور کرانے کی کوشش کی گئی تو متعلقہ حکام نے کچھ اعتراض کیا اور ایک دوسرا نقشہ بنوایا گیا۔ لیکن اسے بھی ابھی تک منظوری نہیں ملی ہے۔ اس مسجد یا کلچرل سینٹر کی تعمیر کے لیے ضروری کلیئرنس نہیں دی جا رہی ہے اور ابھی تک وہ معاملہ حکام کی فائلوں میں دبا پڑا ہے۔ جبکہ بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کے لیے جو ٹرسٹ بنایا گیا تھا اس نے حکومت کے تعاون سے اپنا کام کیا اور وہاں ایک عظیم الشان رام مندر کی تعمیر بھی ہو گئی، جس کا افتتاح وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا تھا۔ گزشتہ دنوں انھوں نے اس پر جھنڈا بھی نصب کر دیا ہے اور اب لاکھوں عقیدت مند اس جھنڈے اور پھر مندر کے دَرشن کے لیے پہنچ رہے ہیں۔

بہرحال اسی اثنا میں ایک اور بابری مسجد کا تنازع پیدا ہو گیا ہے۔ یہ تنازع مغربی بنگال میں حکمراں ٹی ایم سی کے معطل رکن اسمبلی ہمایوں کبیر کی جانب سے مرشد آباد میں بابری مسجد کے نام سے ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے اور پھر چھ دسمبر کو سنگ بنیاد رکھ دینے سے پیدا ہوا ہے۔ مرشد آباد کا وہ علاقہ سیکورٹی فورسز کی چھاؤنی بن گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق وہاں فرقہ وارانہ کشیدگی بھی پیدا ہو گئی ہے۔ مرشد آباد میں چند ماہ قبل وقف املاک کے تحفظ کے سلسلے میں مسلمانوں کے احتجاج کے دوران فرقہ وارانہ تشدد برپا ہوا تھا جس میں 5 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ وہاں سیکورٹی فورسز کی 19 کمپنیاں تعینات تھیں جن کو کسی اندیشے کے پیش نظر ہٹایا نہیں گیا تھا۔ وہ کمپنیاں موجودہ حالات کے پیش نظر ابھی تک تعینات ہیں۔


ہمایوں کبیر نے 6 دسمبر کو ہزاروں مسلمانوں اور ہزاروں سیکورٹی جوانوں کی موجودگی میں اور نعرۂ تکبیر کی گونج میں اس نئی بابری مسجد کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ اس موقع پر ان کے متعدد کارکن اپنے سروں پر اینٹیں رکھ کے لے گئے جن کو سنگ بنیاد کے طور پر استعمال کیا گیا۔ میڈیا میں ایسے لوگوں کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہیں جو اپنے سروں پر اینٹ رکھ کر لے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ہمایوں کبیر کو پارٹی مخالف سرگرمیوں کے الزام میں ٹی ایم سی سے معطل کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے اپنی نئی پارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔

ان کے اس اعلان کے بعد کہ وہ مرشد آباد میں بابری مسجد کے طرز پر مسجد کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھیں گے، ہائی کورٹ میں اس کے خلاف اپیل دائر کی گئی اور اس اندیشے کا اظہار کیا گیا کہ اس سے ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو جائے گی۔ لیکن عدالت نے اس معاملے میں مداخلت سے انکار کیا اور کہا کہ لا اینڈ آرڈر کے قیام کی ذمہ داری مقامی انتظامیہ پر ہے۔ اس طرح ہمایوں کبیر نے سنگ بنیاد رکھ دیا اور اس سے پیدا ہونے والے تنازعہ کے نتیجے میں الزام اور جوابی الزام کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔


بی جے پی اور ٹی ایم سی ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ حالانکہ ٹی ایم سی نے خود کو اس پروگرام سے الگ کیا ہوا تھا لیکن وہ بی جے پی کی الزام تراشی سے خود کو الگ نہیں کر سکی۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ ٹی ایم سی سیاست کر رہی ہے اور یہ قدم ووٹ بینک کی سیاست کا حصہ ہے۔ حالانکہ ہمایوں کبیر اب ٹی ایم سی سے برطرف کر دیے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود ٹی ایم سی پر الزامات عاید کیے جا رہے ہیں۔ اس واقعے کے نتیجے میں وہاں کی سیاست گرم ہو گئی ہے اور کوئی تعجب نہیں کہ اس واقعے کا استعمال کیا جائے۔ کون سی پارٹی اس کا استعمال کرنے میں کامیاب ہوتی ہے آنے والے چند دنوں میں معلوم ہو سکے گا۔

یاد رہے کہ رام مندر تحریک کے دوران وشو ہندو پریشد کی جانب سے شلا پوجن کا اعلان کیا گیا تھا اور کار سیوک اینٹیں لے کر وہاں پہنچ رہے تھے۔ اسی طرح ہمایوں کبیر کے آدمی بھی سر پر اینٹیں رکھ کر پہنچے جن کو سنگ بنیاد میں استعمال کیا گیا۔ ہمارے نزدیک جہاں رام مندر کی تعمیر کے لیے اینٹیں لے جانا اور اس نام پر لوگوں کا جذباتی استعمال کرنا غلط تھا اسی طرح نئی بابری مسجد کے لیے اینٹیں لے جانا بھی غلط ہے۔ اس سے جذباتی مسلمانوں کے اندر ایک جوش پیدا ہوگا جس کا جواب فریق مخالف دے گا اور ریاست کی فرقہ وارانہ صورت حال خراب ہو جائے گی۔


بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے، جس سے ہم بھی متفق ہیں کہ ہمایوں کبیر کا یہ قدم سیاسی اسٹنٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دراصل انھیں ٹی ایم سی سے نکال دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ممکن ہے کہ ان کی سیاست پھیکی پڑ گئی ہو اور وہ اس جذباتی معاملے کا سہارا لے کر پھر سے اپنی سیاست کرنا چاہتے ہوں۔ بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے اور خود ٹی ایم سی نے بھی یہ الزام عاید کیا ہے کہ ہمایوں کبیر بی جے پی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ انھوں نے بی جے پی کے اشارے پر ہی یہ قدم اٹھایا ہے تاکہ اگلے سال جو اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ان میں اس سے سیاسی فائدہ اٹھایا جائے۔

دراصل وہ اس سے قبل بی جے پی میں تھے۔ انھوں نے 2019 میں بی جے پی کے ٹکٹ پر مرشد آباد سے الیکشن لڑا تھا اور ٹی ایم سی کے امیدوار سے شکست کھا گئے تھے۔ بعد میں وہ ٹی ایم سی میں شامل ہو گئے لیکن جب پارٹی مخالف سرگرمیوں کا الزام ان پر عاید ہونے لگا تو انھیں نکال دیا گیا۔ اس لیے ممکن ہے کہ انھوں نے اندرون خانہ بی جے پی سے سازباز کر لی ہو اور اس کے اشارے پر یہ سب کر رہے ہوں۔ لیکن ہم اس کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتے۔


کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ اب ایودھیا میں رام مندر بن گیا ہے، اب اس کے نام پر عوام کو زیادہ نہیں ورغلایا جا سکتا اس لیے اس جذباتی ایشو کا سہارا لے کر مغربی بنگال کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ اس سے انتخابی فائدہ اٹھایا جا سکے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان الزامات میں کتنی صداقت ہے، لیکن بہرحال بابری مسجد کے نام پر کوئی اور مسجد بنانا اور اس کے نام پر ماحول کو جذباتی کرنا ہمارے نزدیک مناسب نہیں ہے اور ملک و قوم کے لیے مفید بھی نہیں ہے۔

(یہ مضمون نگار کی ذاتی رائے ہے، اس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں)