سرکار کے نشانے پر دینی مدارس

کہنے کی ضرورت نہیں کہ موجودہ حکمرانوں نے ایسے کئی قدم اٹھائے، اور ایسے بہت سے قوانین وضع کیے ہیں کہ جن میں نیک نیتی کا فقدان صاف نظر آتا ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

سراج نقوی

مختلف حربوں اور بہانوں سے اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی سازشوں میں مصروف حکمرانوں کی نظر اب اسلامی مدارس پر ہے۔خصوصاً وہ مدارس جو سرکار کی مالی امدادکے رحم وکرم پر ہیں، ان کے لیے ایسے منصوبے بنائے جا رہے ہیں کہ جن کے نفاذ کے بعد ان مدارس کی منتظمہ کمیٹیوں کا دائرہ ا ختیار اس حد تک محدود ہو جائیگا کہ جس سے ان کی اسلامی شناخت بھی خطرے میں پڑسکتی ہے۔

خبر ہے کہ اتر پردیش کی حکومت اب جونیئر اور ہائر سکنڈری اسکولوں کی طرز پر مدارس کے اساتذہ کا بھی تبادلہ کرنے کے لیے اس سلسلے میں اصول و ضوابط میں ترمیم کرنے جا رہی ہے۔خبر کے مطابق ضابطوں میں ایسی ترامیم کی جارہی ہیں کہ جن کے ذریعہ مدارس کے منتظمین کی منمانی پر شکنجہ کسا جا سکے۔اس کے علاوہ یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ مدارس کے اساتذہ کی تقرری بھی سلیکشن کمیشن کے ذریعہ کرائی جائے۔واضح رہے کہ اس وقت اتر پردیش میں 558 ایسے اسلامی مدارس ہیں کہ جن کا انحصار سرکاری گرانٹ پر ہے۔ان مدارس میں تقریباً 9000 اساتذہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔


ان مدارس کے لیے الگ اصول و ضوابط پہلے ہی سے طے ہیں۔لیکن اب ریاستی حکومت ان مدارس کے ضابطوں میں نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق ترمیم کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔فی الحال جو ضابطے طے ہیں ان میں مدارس کے اساتذہ کا تبادلہ کرنے کا کوئی قانون یا ضابطہ نہیں ہے۔اساتذہ جس مدرسے میں ملازمت حاصل کرتے ہیں وہیں سے ریٹائر ہوجاتے ہیں۔لیکن اب ضابطوں میں ترمیم کے بعد ان اساتذہ کا تبادلہ بھی کیا جا سکیگا۔اس کا سبب یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ کئی معاملوں میں مدارس کی انتظامیہ کمیٹی اساتذہ پر ضابطہ شکنی کا الزام لگا کر ان کے خلاف منمانے ڈھنگ سے کارروائی کرتی ہے، اور حکومت اس منمانی پر شکنجہ کسنا چاہتی ہے۔یہ بھی دلیل دی جا رہی ہے کہ انتظامیہ سے تنازعہ کے بعد کبھی کبھی ان اساتذہ کی تنخواہیں رک جاتی ہیں ،لیکن اب یہ سلسلہ بھی ختم ہو جائیگا۔اب تک ان مدارس میں اساتذہ کی تقرریاں وہاں کی انتظامیہ کرتی رہی ہے، لیکن اب اس بات پر غور کیا جارہا ہے کہ یہ تقرریاں کسی سرکاری سیلیکشن کمیشن کے ذریعہ کرائی جائیں۔اساتذہ کو ان ترامیم کے ذریعہ ’اسٹدی لیو‘ اور ’پرموشن‘ کا لالی پاپ بھی دیا جا رہا ہے۔مدارس میں کھیل سرگرمیاں اور مدارس کو عصری ضرورتوں کے مطابق زیادہ بہتر بنانے کے نام پر بھی کچھ ترامیم کی جا سکتی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دیگر تعلیمی اداروں کی طرح اسلامی مدارس بھی بد عنوانی سے پاک نہیں ہیں، اور ان مدارس کی انتظامیہ کی منمانی کے تعلق سے بھی بہت سی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔خصوصاً وہ لوگ جو ان مدارس کے ذمہ داروں سے کسی بھی طرح رابطے میں ہیں وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ ان مدارس اور دیگر اقلیتی تعلیمی اداروں میں ایک طرح کا مافیا مقامی سطح پر ہر جگہ سرگرم ہے جو ان مدارس میں نااہل افراد کی تقرری سے لیکر ان تقرریوں کے لیے خطیر رقم تک وصول کرتا ہے ،اور دیگر طرح کی بدعنوانیوں میں بھی ملوث رہتا ہے۔اس طرح کے بھی کچھ واقعات دیکھنے میں آئے ہیں کہ کہیں کہیں مدارس یا دیگر اقلیتی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ نے کسی لالچ،خوف یا سرکار کے دباﺅ میں آکر خو د ایسے فیصلے لیے کہ جن کا بالواسطہ اثر ان اداروں کے اقلیتی کردار پر پڑا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ان اداروں کے اقلیتی کردار کو مسخ کرنے کی کوششیں کانگریس اور دیگر پارٹیوں کی مرکزی و ریاستی حکومتیں بھی کرتی رہی ہیں۔لیکن پہلے اور ا ب کے حالات میں فرق یہ ہے کہ اب ایک طے شدہ ایجنڈے اور بھگوا آقاﺅں کے اشارے پر یہ کام کیا جا رہا ہے اور اس پر قدغن لگانے کے تمام متبادل بھی بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔


جہاں تک اسلامی مدارس میں بدعنوانی روکنے کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ان مدارس میں بد عنوانی اس لیے زیادہ باعث تشویش ہے کہ یہاں پڑھنے اور پڑھانے والوں کی دوہری ذمہ داریاں ہیں۔اس لیے کہ ایک طرف ان پر ملت اسلامیہ کی رہنمائی کافریضہ ادا کرنے کی ذمہ داری ہے تو دوسری طرف ملک کے تئیں اپنا فرض بھی اس طرح ادا کرنے کی ذمہ داری ہے کہ جس سے ان کے دامن پر بدعنوانی کا کوئی داغ نہ لگے۔لیکن اگر مدارس بھی بدعنوانی کے اڈے بن جائینگے تو اس سے ملک و ملت دونوں کا ہی نقصان ہوگا۔اسی لیے ان مدارس کے ماحول کو بدعنوانی سے پاک کرنے کے لیے نیک نیتی سے اٹھائے جانے والے کسی بھی قدم کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔لیکن اصل مسئلہ نیک نیتی کا ہی ہے ۔کہنے کی ضرورت نہیں کہ موجودہ حکمرانوں نے ایسے کئی قدم اٹھائے ،اور ایسے بہت سے قوانین وضع کیے ہیں کہ جن میں نیک نیتی کا فقدان صاف نظر آتا ہے۔بد عنوانی کہیں بھی ہو وہ ناقابل قبول ہے اور اس کے خلاف لڑنا ہر انسان اور ہر حکومت کا فرض ہے۔ لیکن کیا واقعی حکومت اپنے فیصلوں میں یہ یقین دہانی کرانے میں کامیاب ہے کہ اسلامی مدارس کے تعلق سے وہ جو فیصلے لے رہی ہے اس کا مقصد ان اقلیتی دینی مدارس کے کردار کی بنیادی حیثیت کو بدلنا نہ ہوکران کی اس طرح اصلاح کرنا ہے کہ وہ بدعنوانی سے پاک ہوکر دین اور ملک کی زیادہ بہتر طور پر خدمت کر سکیں۔یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ بد عنوانی تو حکمراں جماعت کے نمائیندوں سے لیکر نوکرشاہی میں بھی شباب پر ہے،لیکن ان بد عنوانیوں پر کس طرح حکمراں اپنی آنکیھں بند کر لیتے ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔

مسئلہ یہ بھی ہے کہ مدارس کے اساتذہ کا تبادلہ کرنے کی پالیسی کا نقصان ان مدارس کی انتظامیہ سے زیادہ خود اساتذہ کو پہنچیگا ۔وہ غیر ضروری ہجرت کے مسائل سے دوچار ہونگے اور اس کا اثر طلباءکی پڑھائی پر بھی پڑے گا۔ یونیورسٹیوں سے لے کر پرائمری سطح تک کے دیگر تعلیمی اداروں میں تبادلوں کا ضابطہ بہت کم معاملوں میں ہی نافذ ہے۔ایسے میں دینی مدارس میں تبادلوں کا سلسلہ شروع کرنے کا کوئی مناسب جواز نہیں ہے۔


دراصل اسلامی مدارس کے معاملات میں مرکزی حکومت سے لیکر مختلف ریاستوں تک کی بی جے پی حکومتیں جس طرح سے دلچسپی لے رہی ہیں، اور اقلیتوں کے تعلق سے ان حکومتوں کا جو اب تک رویّہ ہے اسے دیکھتے ہوئے ہی مسلم اقلیت کے ذہن میں شکوک و شبہات پنپ رہے ہیں۔جولائی 2019 میں مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آباد میں آل انڈیا امام کونسل کی جانب سے ’مدارس بچاﺅ کانفرنس‘ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس کے شرکاء نے حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ نئی تعلیمی پالیسی کے تحت تعلیم کا بھگواکرن کرنا چاہتی ہے۔ اس کانفرنس کے شرکاء نے حکومت کے ذریعہ دینی مدارس کے معاملات میں مبینہ مداخلت کو قبول کرنے سے صاف طور پر انکار کر دیا تھا۔ جہاں تک اتر پردیش کے دینی مدارس کا تعلق ہے تو کچھ عرصہ قبل ہی آسام کی بی جے پی حکومت کے ذریعہ امداد یافتہ دینی مدارس کو ختم کر دینے کے فیصلے کے بعد یہ سوال اترپردیش کے تعلق سے بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا یہاں بھی دینی مدارس کو ختم کر دیا جائے گا؟ کچھ مدارس اور قائدین ملت میں مدرسہ بورڈ کو ختم کرنے سے متعلق خدشات بھی پائے جاتے ہیں۔ظاہر ہے اگر حکومت نے ان مدارس کے اسلامی کردار اور تشخص کو بدلنے کے تعلق سے کوئی فیصلہ اب یا مستقبل میں لیا تو اس کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زیادہ طلباء ان مدارس کے ذریعہ دینی تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہو جائیں گے۔ ان شکوک و شبہات کو تقویت اس لیے بھی ملتی ہے کہ حکومت نے اس معاملے میں کوئی وضاحت ابھی تک نہیں کی ہے اور اس کے رویے سے ایسا لگ رہا ہے کہ اسلامی مدارس پر شکنجہ کسنے کی کی کوشش کی جا رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔