افطار پارٹی میں غیر مسلموں کی شرکت، آپسی بھائی چارے کو فروغ دینے کا بہترین ذریعہ... درخشاں خاتون

ہمارے ملک ہندوستان میں افطار پارٹی کی روایت یوں تو آزادی سے پہلے بھی دیکھنے کو ملتی ہے، لیکن آزادی کے بعد اس کی اہمیت کئی معنوں میں بڑھ گئی۔

<div class="paragraphs"><p>کولکاتا میں منعقد ایک بین المذاہب افطار پارٹی کا منظر، Getty Images</p></div>

کولکاتا میں منعقد ایک بین المذاہب افطار پارٹی کا منظر، Getty Images

user

درخشاں خاتون

مذہب اسلام کے بارہ مہینوں میں رمضان سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس ماہ مبارک میں مذہب اسلام کے پیروکار تمام طرح کی نفرت و کدورت کو بالائے طاق رکھ کر آپسی بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بھائی چارے کو فروغ دینے میں سب سے بڑا عمل دخل افطار کا ہوتا ہے۔ چونکہ لوگ افطار کا اہتمام اجتماعی طور پر کرنا پسند کرتے ہیں، اس لیے یہ آپسی میل جول کا بہترین ذریعہ بن جاتا ہے۔ اجتماعی طور پر افطار کا سلسلہ مساجد اور مذہبی اداروں میں تو پورے ماہ جاری رہتا ہی ہے، سیاسی لیڈران و سماجی تنظیمیں بھی اس ماہ مبارک میں وقتاً فوقتاً اجتماعی افطار کا اہتمام کرتی ہیں جنھیں عام طور پر ’افطار پارٹی‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ افطار پارٹی سے مراد ہم اس افطار کو لیتے ہیں جس کا انتظام کسی سیاسی لیڈر یا پارٹی کی جانب سے کیا گیا ہے۔

جمہوری ملک ہندوستان میں افطار پارٹی بین مذہبی بھائی چارے کے فروغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ آج کل ہم سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر گاہے بہ گاہے سیاسی افطار پارٹی کی تصویریں اور ویڈیوز دیکھتے رہتے ہیں۔ ہمارے ملک ہندوستان میں افطار پارٹی کی روایت یوں تو آزادی سے پہلے بھی دیکھنے کو ملتی ہے، لیکن آزادی کے بعد اس کی اہمیت کئی معنوں میں بڑھ گئی۔ آزادی کے بعد افطار پارٹی سے متعلق ایک روشن تاریخ دیکھنے کو ملتی ہے اور یہ تحقیق کا بہترین موضوع بھی ہے۔ تحقیق اس لیے ضروری ہے کیونکہ گزرتے وقت کے ساتھ افطار پارٹی کی ہیئت میں کئی طرح کی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔


کانگریس کے ادوار میں افطار پارٹی کا اہتمام:

آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے آزادی کے بعد سب سے پہلے افطار پارٹی کی روایت شروع کی تھی۔ اس افطار پارٹی کا مقصد نہ صرف مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا بلکہ ملک کی تقسیم کے بعد مسلم طبقہ میں اعتماد پیدا کرنا بھی تھا۔ حالانکہ ان کے انتقال کے بعد یہ سلسلہ بہت حد تک منقطع ہو گیا۔ لال بہادر شاستری کے زمانے میں افطار پارٹی کی روایت بالکل ختم ہو گئی تھی، لیکن جب اندرا گاندھی وزیر اعظم کی کرسی پر فائز ہوئیں تو انہوں نے افطار پارٹی کو نہ صرف شروع کیا بلکہ بڑے پیمانے پر اس کا انتظام بھی کیا۔ ان کے دور میں افطار پارٹی مکمل طور پر سیاسی رنگ میں رنگ گیا، جو آج بھی کسی نہ کسی صورت میں قائم ہے۔ اندرا گاندھی کے بعد راجیو گاندھی اور پھر کانگریس کی دیگر حکومتوں میں بھی افطار پارٹیوں کا اہتمام ہوتا رہا۔ یہ روایت منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے حکومت میں 2004 سے 2014 تک بھی جاری رہی۔

افطار پارٹی کی سماجی اہمیت:

رمضان میں منعقد کی جانے والی افطار پارٹی خواہ وہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی، ان کا مقصد صرف کھانا پینا نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ذریعہ ایک سماجی اجتماع کا پلیٹ فارم فراہم کرنا ہوتا ہے۔ جہاں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں، اپنے خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہیں۔ افطار پارٹی میں غیر مسلموں کی شرکت سے یہ ایک مذہبی تقریب کے ساتھ ساتھ ایک ثقافتی اور سماجی اہمیت کی حامل تقریب بھی بن جاتی ہے۔ اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ افطار پارٹیوں میں مختلف مذاہب اور افکار و نظریات کے لوگ ایک جگہ جمع ہو کر یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔


مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کا فروغ:

افطار پارٹیوں میں غیر مسلموں کی شرکت سے سب سے بڑا فائدہ مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کا فروغ ہے۔ آج کے اس پُر آشوب دور میں، جہاں وطن عزیز میں مذہبی تعصبات اور غلط فہمیوں کی وجہ سے کشیدگی کا ماحول پیدا ہو چکا ہے، وہاں افطار پارٹی آپسی محبت و بھائی چارگی کے لیے ایک بہترین موقع اور ذریعہ بنتا ہے۔ جب کوئی غیر مسلم افطار پارٹی میں شامل ہوتا ہے اور مذہب اسلام کی خوبیوں کو قریب سے دیکھتا ہے تو ان کے ذہن سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

سماجی رابطے کی مضبوطی:

افطار پارٹی کا ایک اہم پہلو سماجی رابطوں کی مضبوطی بھی ہے۔ جب مختلف مذاہب کے لوگ ایک میز پر بیٹھ کر افطار کرتے ہیں، تو ان کے درمیان گفتگو اور تعلقات کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ یہ عمل نہ صرف انفرادی سطح پر دوستی کو فروغ دیتا ہے بلکہ سماجی، معاشرتی اور سیاسی سطح پر بھی تعاون کے مواقع پیدا کرتا ہے۔


کچھ لوگوں کے ذہن میں اکثر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ افطار پارٹی میں غیر مسلموں کی شرکت کتنا مناسب ہے؟ اگر اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ افطار پارٹی میں افطار کی پاکیزگی اور احترام کو مجروح کرنے والا کوئی عمل شامل نہ ہو۔ مذہب اسلام میں دیگر مذاہب کے لوگوں سے تعلقات استوار کرنے، مہمان نوازی کرنے اور بین مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اگر افطار پارٹی کا مقصد غیر مسلم دوستوں، پڑوسیوں یا ساتھیوں کو مدعو کر کے رمضان کی خوشیوں کو بانٹنا، انہیں اسلامی تعلیم و ثقافت سے متعارف کرانا یا سماجی رابطے مضبوط کرنا ہے، تو یہ نہ صرف جائز بلکہ ایک مستحسن عمل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔