رمضان المبارک میں بہار کی کچھ خواتین کے معمولات و مصروفیات... تنویر احمد
بھاگ دوڑ والی زندگی میں ماہ رمضان بھی بہت حد تک بھاگ دوڑ کی ہی نذر ہو جاتا ہے۔ ایسے میں خاتون خانہ کی زندگی کا جائزہ لینا اہم معلوم پڑتا ہے۔ خصوصاً وہ خواتین جو ماہ مقدس کی اہمیت اچھی طرح سمجھتی ہیں۔

رمضان المبارک کی روحانیت ہر طرف دکھائی دے رہی ہے۔ مساجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہیں اور افطار کی دعوتوں نے بھی اپنا زور پکڑا ہوا ہے۔ ملازمت پیشہ مرد حضرات ہوں یا پھر خود کا کاروبار سنبھالنے والے، سبھی فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ وقت تلاوتِ قرآن اور سنت و نوافل کے لیے بھی نکال لیتے ہیں۔ لیکن کیا آپ نے کبھی رمضان میں گھریلو خواتین کے معمولات اور مصروفیات کا جائزہ لیا ہے؟ مردوں سے الگ ان کی ایک مختلف دنیا ہے۔ کم ہی لوگ ایسے ہیں جو خواتین کی دن بھر کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ بھاگ دوڑ والی زندگی میں رمضان کا مہینہ بھی بہت حد تک بھاگ دوڑ کی ہی نذر ہو جاتا ہے۔ ایسے میں خاتون خانہ کی زندگی کا جائزہ لینا بہت اہم معلوم پڑتا ہے۔ خصوصاً وہ خواتین جو ماہِ مقدس رمضان کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے خوب عبادت و ریاضت کرتی ہیں، اور گھر کے مرد حضرات کی خدمت میں کوئی کمی بھی واقع نہیں ہونے دیتیں۔
یقیناً خواتین کے جہد مسلسل سے آشنا ہونا ایک مشکل امر ہے، لیکن ہم یہاں بہار سے تعلق رکھنے والی کچھ ایسی خواتین کے روز و شب کے کچھ منتخب لمحات کی سرگرمیوں پر نظر ڈالیں گے، جو کہ اسلامی تہذیب کی پاسدار اور قرآن و حدیث کے احکامات پر عمل کرنے والی ہیں۔ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اس ماہِ مبارک میں وہ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ اللہ کی یاد میں خود کو کس طرح غرق کرتی ہیں۔ کتنا وقت دنیاوی زندگی کو سنوارنے میں گزارتی ہیں، اور کتنا وقت آخرت کی فکر میں لگاتی ہیں۔ یہاں روز و شب کے 24 گھنٹوں کو 5 اوقات میں تقسیم کر 5 خواتین سے ان کے معمولات پر بات کی گئی ہے۔ اوقات کی تقسیم عشاء سے فجر، فجر سے ظہر، ظہر سے عصر، عصر سے مغرب، اور مغرب سے عشاء کی شکل میں کی گئی ہے۔
عشاء سے فجر
شگوفہ پروین حافظہ ہیں۔ ان کا تعلق بہار کے مسوڑھی شہر سے ہے۔ ہر سال پابندی سے خواتین کو نمازِ تراویح پڑھاتی ہیں۔ اس سال وہ رمضان میں اپنے مائیکہ (مسوڑھی) میں ہی ہیں اور نمازِ تراویح میں ایک قرآن مکمل کر چکی ہیں۔ 28 سالہ شگوفہ سے جب اذانِ عشاء سے فجر تک کی مصروفیات کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ’’رمضان میں معمول کے مطابق قرآن کی تلاوت کرتی رہتی ہوں، تبھی عشاء کی اذان ہوتی ہے۔ اس کے بعد وضو کر کے فرائض اور تراویح کی نماز کے لیے تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن اس سے قبل محمد ابراہیم (2 سالہ بیٹا) کے لیے دودھ بنا کر اس کی دیگر ضروریات پوری کرتی ہوں۔‘‘
شگوفہ نے بتایا کہ نمازِ تراویح میں ایک قرآن پاک کی تکمیل شروع کے 12 دنوں میں ہی ہو گئی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’پہلے دن 5 پارہ، دوسرے دن 4 پارہ، تیسرے دن 3 پارہ، اور پھر اس کے بعد روزانہ 2-2 پارہ قرآن پڑھ کر 12 دنوں میں ایک قرآن مکمل ہو گیا۔‘‘ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جب تک ایک قرآن مکمل نہیں ہو گیا، تب تک نمازِ تراویح کے لیے مقرر جگہ پر 8.15 بجے عشاء کی نماز پڑھی جاتی تھی، اور پھر 8.30 بجے سے 10 بجے شب تک نمازِ تراویح کا سلسلہ چلا۔ اس کے بعد گھر پہنچ کر کچھ پھل کھانا بھی معمول میں شامل رہا۔ پھر تقریباً 11.30 بجے خود بھی کھانا کھایا اور بیٹے ابراہیم کو بھی کھلایا اور سونے کی تیاری شروع ہو گئی۔
رمضان میں شگوفہ 3.30 بجے تہجد کے لیے بھی اٹھتی ہیں اور عبادت و ریاضت کا یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک کہ سحری کا آخر وقت نہیں ہو جاتا۔ سحری میں شگوفہ عموماً کھجور اور چائے نوش فرمانا پسند کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ابھی مائیکہ میں ہیں تو کئی طرح کی آسانیاں ہیں، مثلاً افطار، رات کا کھانا اور سحری وغیرہ کی تیاری ان کی چھوٹی بہن شہنیلا پروین اور والدہ راشدہ خاتون ہی کر لیتی ہیں۔
فجر سے ظہر
31 سالہ بشریٰ مختار اس وقت پٹنہ کے مشہور علاقہ عالم گنج میں مقیم ہیں۔ علاقے کی مشہور و معروف شخصیت مختار احمد کی نیک سیرت بیٹی عام دنوں میں تو عبادتِ الٰہی میں محو رہتی ہی ہیں، رمضان المبارک میں عبادات کا سلسلہ مزید وسیع ہو جاتا ہے۔ ان سے جب نمازِ فجر سے نمازِ ظہر تک کا معمول دریافت کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ’’نماز فجر کے بعد کچھ دیر قرآن کی تلاوت معمول کا حصہ ہے۔ لیکن کچھ دیر کی نیند بھی ضروری ہے تاکہ صبح کی سرگرمیوں اور روزہ میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ کم و بیش 3 گھنٹے کی نیند مکمل کرنے کے بعد پھر گھریلو ذمہ داریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ مثلاً گھر کی صفائی، گھر میں موجود مرد حضرات کی ضروریات کی تکمیل اور افطار کے لیے چنا وغیرہ پانی میں ڈالنے کا عمل۔‘‘ بشریٰ مختار کے شوہر آرہ کے ایک کالج میں صدر شعبہ اردو ہیں، اس لیے کالج روانگی سے قبل ان کی تیاری کا بھی خیال رکھتی ہیں۔
بشریٰ مختار کا کہنا ہے کہ گھر کا اصل کام تو تبھی شروع ہوتا ہے جب مرد حضرات اپنے کاموں پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ کپڑے دھونے ہوں یا پھر رات کے رکھے ہوئے برتن کی صفائی، یہ سبھی کام پورے کرنے میں اچھا خاصہ وقت گزر جاتا ہے۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ نمازِ ظہر سے قبل زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کر لی جائے اور خصوصی دعاؤں کا بھی اہتمام ہو۔
ظہر سے عصر
ظہر سے عصر کے درمیان تقریباً 4 گھنٹے کا وقت ہوتا ہے، اور یہ وقت خواتین کے لیے کئی معنوں میں اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب خواتین عبادات اور اہتمامِ افطار کی کشمکش میں مبتلا ہوتی ہیں۔ حالانکہ بہار شریف واقع استھانواں کی رہنے والی 30 سالہ فرحاں مختار اس کشمکش میں مبتلا نظر نہیں آتیں۔ 5 بچوں کی ماں فرحاں نے ایک منظم معمول تیار کیا ہے جس سے بہت آسانیاں میسر ہو جاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’’نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد ذکر و تسبیح کا سلسلہ نصف گھنٹہ چلتا ہے۔ پھر ایک پارہ تلاوتِ قرآن کی جاتی ہے، جس میں نصف گھنٹہ لگتا ہے۔ اس کے بعد 3 چھوٹے بچوں کو کھانا کھلا کر ان کو سلانے کی تیاری ہوتی ہے۔ دونوں بڑے بچے (10 سالہ بیٹا محمد حسن اور 9 سالہ بیٹی حفصہ) الحمدللہ روزہ رکھتے ہیں، اس لیے ان کے کھانے پینے کی فکر نہیں ہوتی۔‘‘
فرحاں بتاتی ہیں کہ ان کے 2 جڑواں بیٹے (محمد احسن اور محمد محسن) ساڑھے چار سال کے ہیں اور ایک بچہ (محمد منعم) 10 ماہ کا ہے، اس لیے رمضان میں قربِ الٰہی کے لیے وقت نکالنے کے ساتھ ساتھ ان بچوں کا خاص خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ جب بچے سو رہے ہوتے ہیں تو فرحاں مزید ایک پارہ قرآن کی تلاوت کرتی ہیں۔ فرحاں کہتی ہیں کہ ’’بچے جب سو کر اٹھتے ہیں تو کچھ وقت ان کے ساتھ وقت گزارنا ہوتا ہے۔ بچوں کو موبائل پر نعت، حمد، ترانۂ دارالعلوم دیوبند وغیرہ کے ساتھ ساتھ اسلامی واقعات (غلام رسول و عبدالباری وغیرہ) سناتی ہوں۔‘‘ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب عصر کی اذاں ہوتی ہے، پھر فرحاں نمازِ عصر اور افطار کی تیاریوں کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔
عصر سے مغرب
صبیحہ عمیمہ کی عمر 25 سال ہے۔ نمازِ عصر سے مغرب یعنی افطار تک ان کی سرگرمیاں کافی مختلف ہیں۔ عصر سے مغرب کے درمیان وقفہ بہت کم ہوتا ہے اور یہ وہ وقت ہے جب خواتین کو عبادت و ریاضت کا لمحہ بمشکل ہی میسر ہو پاتا ہے۔ لیکن صبیحہ کچھ ایسے اعمال کرتی ہیں جو نیکیوں کی بارش کرنے والی ہیں۔ دراصل وہ نمازِ عصر کے بعد گھر کے سبھی بچوں کو پڑھانے بیٹھ جاتی ہیں۔ یقیناً بچوں کو تعلیم دینا ایک بڑی ذمہ داری ہے اور وہ اس میں ذرا بھی پیچھے نہیں ہٹتیں۔ 4.30 بجے وہ اس ذمہ داری سے فارغ ہو کر افطار اور رات کے کھانے کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’اس وقت ہر گھر میں گہما گہمی ہوتی ہے۔ ذمہ داری صرف افطار بنانے کی نہیں ہوتی، بلکہ گھر کی چیزوں کو منظم کرنا اور دسترخوان لگانا بھی وقت طلب ہوتا ہے۔ اس میں ذرا بھی لاپروائی روزہ داروں کا روزہ خراب کر سکتی ہے۔‘‘
صبیحہ عمیمہ بتاتی ہیں کہ مغرب کی اذان سے ٹھیک پہلے وہ گھر کے بچوں کو ٹوپی اور پائجامہ وغیرہ پہناتی ہیں تاکہ دسترخوان پر جب وہ بیٹھیں تو اسلامی تہذیب کی پاسداری جھلکے۔ ان بچوں کو وہ پابندی سے وضو بھی کراتی ہیں۔ جب مغرب کی اذان ہونے والی ہوتی ہے تو صبیحہ بچوں سے خصوصی دعاء کا اہتمام کراتی ہیں، اور پھر اذان ہوتے ہی روزہ کھولنے کی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اس کے فوراً بعد فرائض نماز کی ادائیگی کا عمل انجام دیا جاتا ہے۔
مغرب سے عشاء
باڑھ کے گلاب باغ محلہ کی باشندہ شمع پروین سے جب مغرب اور عشاء کے درمیان کی مصروفیات پوچھی گئی تو وہ کہتی ہیں کہ بعد افطار کچھ اطمینان کے لمحات ضرور نصیب ہوتے ہیں، لیکن پھر جلدی جلدی کئی کام بھی نمٹانے پڑتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’’افطار کے بعد مغرب کی نماز پڑھ کر ایک سکون کا احساس ہوتا ہے۔ میں چائے بناتی ہوں اور اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر پیتے ہوئے کچھ اِدھر اُدھر کی باتیں ہو جاتی ہیں۔ چند منٹوں کا سکون، اور پھر رات کا کھانا بنانے کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔‘‘
شمع اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’کھانا بناتے ہوئے یہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ عشاء کی اذان سے پہلے یہ کام پورا ہو جائے۔ چونکہ وقت بہت کم ہوتا ہے، اس لیے کام کی رفتار تیز رکھنی پڑتی ہے۔ پھر 8.15 بجے عشاء کی اذان، اور وضو کر کے مسجد پہنچنا، فرائض و سنت نمازوں کے بعد نماز تراویح کی ادائیگی... یہی روزانہ کا معمول ہے۔ دن بھر کے کام میں چاہے جتنی بھی تھکاوٹ ہوئی ہو، مسجد میں باجماعت نمازِ تراویح پڑھتے ہوئے جو سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے، اس کا اظہار ممکن نہیں۔‘‘
جن خواتین کے معمولات اوپر پیش کیے گئے ہیں، وہ مشہور و مقبول تو نہیں ہیں، لیکن مسلم خواتین کے لیے مثالی ضرور ہیں۔ ماہِ رمضان کے قیمتی لمحات دھیرے دھیرے گزرتے جا رہے ہیں۔ نصف اوّل گزر چکا ہے اور نصف آخر شروع ہوتے ہی کئی گھروں میں عید کی تیاریاں بھی شروع ہو چکی ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ بازار کی چہل پہل بڑھ رہی ہے، اور خواتین کی بڑی تعداد اس بھیڑ کا حصہ نظر آ رہی ہے۔ ان میں کئی خواتین ایسی ہوتی ہیں جو عید کی خریداری کے نام پر روزانہ بازار کا رخ کرتی ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ ہوش مندی کا مظاہرہ کریں۔ ایسی خواتین یہ سمجھیں کہ ابھی رمضان المبارک ختم نہیں ہوا ہے، روزہ و عبادات کے لیے میسر وقت کا خاص خیال رکھیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے اوپر مذکور مثالی خواتین نے عبادات کو اپنے معمولات میں شامل کیا ہے۔ وہ میسر وقت کو ضائع نہیں کرتیں، بلکہ بیش بہا نیکیاں اور نعمتیں حاصل کرنے کا ذریعہ بناتی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔