10 مئی 1857ء، پہلی ملک گیر جنگ آزادی کی 164ویں سالگرہ کے موقع پر: باغی میرٹھ

میر ٹھ کے 85 انقلابی سپاہیوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا تھا جس کے راج میں سور ج طلو ع نہیں ہوتا، لیکن اپنوں کی غداریوں کے سبب ان کی قربانیاں رائیگاں چلی گئیں۔

تصویر بذریعہ شاہد صدیقی علیگ
تصویر بذریعہ شاہد صدیقی علیگ
user

شاہد صدیقی علیگ

کیا شوق شہادت تھا کہ جانبازوں نے

سر رکھ کر ہتھیلی پہ کفن کو چوما

میرٹھ جسے عروس الاحرار اور نفیر آزادی کے خطابات سے بھی نوازا گیا ،جو شمالی ہند میں گنگا جمنی دوآبہ کا ایک اہم شہر ہے ۔میرٹھ جمنا کے بائیںاور دہلی دائیں کنارے پر واقع ہے، اس دور میں جمنا کا ایک پل دونوں کناروں کو ملاتا تھا۔ وقت کے پہیے کے ساتھ 1789ء میں میرٹھ مہاراجہ سندھیا کے زیرنگیں آگیا لیکن دوعشروں کے بعد 30؍دسمبر1803ء بروز اتوار’سورجی ارجن‘ موج کے صلے نامہ کے تحت دولت رائو سندھیا نے میرٹھ کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپرد کردیا۔ 1806ء میں انگریزوں نے میرٹھ میں فوجی چھائونی قائم کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ میرٹھ کی چھاؤنی کا شمار ملک کی سب سے مضبوط چھائونیوں میں ہونے لگا۔

ہندوستان پربرطانوی نو آبادیا تی نظام کی پکڑ جیسے جیسے مضبوط ہورہی تھی ویسے ویسے ان کی کارستانیاں بھی نئی نئی تاریخ رقم کررہیں تھیں جن کے خلاف غیور ہندوستانی خاموش تماش بین کر نہیں بیٹھے بلکہ اپنے محدود ذرائع و وسائل اور نامساعد حالات کے باوجود مقابلہ کرکے انقلابی چنگاریوں کو ہوا دیتے رہے، ایسی ہی چنگاری 10 مئی 1857ء کو میرٹھ میں آتش فشاںبن کر پھوٹی جس نے پلک جھپکتے ہی ملک کے بیشتر حصہ کو اپنی چپیٹ میں لے لیا جسے پہلی ملک گیر جنگ آزادی تسلیم کیا جاتا ہے تو فرنگیوں نے اسے بغاوت سے تعبیر کیابہرحال اس کو بھڑکانے میں دیگر عوامل کے علاوہ اینفیلڈ گن کے کارتوسوں نے اہم کردار اد ا کیا، جس سے انگریزوں نے 1856ء میں دیسی فوجیوںکو متعارف کرایا تھا، جس کے خول کو دانتوں سے کاٹ کر بندوق میں بھرنا پڑتا تھا۔ جس پر گائے اور خنزیر کی چربی لگی ہوئی تھی۔ کے اس ناگفتہ بہ فعل کوسپاہیوں نے اپنے مذہبی عقائد پر وار سمجھا اور جہاں جہاں یہ خبر پہنچتی رہی وہاں وہاں دیسی سپاہی کمپنی بہادر کے خلاف لام بند ہوتے رہے۔


غور طلب بات ہے کہ مجاہدین آزادی نے ملک کے ایک سے دوسرے کونے تک سفر کرکے خصوصاً دیسی سپاہیوں میں نفر ت اور بغاوت کے جذبا ت کو برانگیختہ کیا کیونکہ کمپنی کی بقا کی ذمہ داری تقربیاً ڈھائی لاکھ دیسی سپاہوں کے کندھوں پر تھی جن کی کمان انگریز افسران کے ہاتھوں میں تھیں۔ اسی ضمن میں سب سے پہلے 1820ء کی دہائی میں سید شاہ صاحب نے میرٹھ کا سفر کیا جن کا ساکنان میرٹھ نے پرجوش استقبال کیا۔ ان کے جانے کے بعد انقلابی صوفی سنتوں کی آمد روفت کا سلسلہ شروع ہوگیا جو 10؍مئی تک قائم رہا۔ 1856ء کے اواخر میں مولوی احمد اللہ عرف ڈنکا شاہ ،مارچ یا اپریل1857ء میں نانا صاحب اورعظیم اللہ آئے۔ ان کے ٹھکانے تاریخی حضرت شاہ پیر صاحب کی درگاہ،ابو خاں کا مقبرہ اور سور ج کنڈ بنا۔ جنہوں نے خصوصاً خفیہ طور پر دیسی سپاہیوں سے رشتے استوار کیے اور پیغامات کے لیے چپاتی و کمل کا استعمال کیا جن کے سبب میرٹھ چھائونی انقلابی سرگرمیاں کا آماجگاہ بن گیا۔

10 مئی 1857ء، پہلی ملک گیر جنگ آزادی کی 164ویں سالگرہ کے موقع پر: باغی میرٹھ

23 اپریل 1857ء کی شام کو سپاہیوں کی بیرک میں ایک خفیہ میٹنگ منعقد ہوئی جس میں پیر علی اور قدرت علی نے دیسی مسلم سپاہیوں کو قرآن حکیم اورہندو سپاہیوں کو گنگا جل پر قسم کھلائی کہ وہ چربی شدہ کارتوسوں کو نہیں چھوئیں گیں، دریں اثنا اس سے قبل اضطرابی کیفیت کو دیکھ کر بنگال فوج کے سینئر افسران انگریز کمانڈروں کو تلقین کر چکے تھے کہ کوئی بھی افسر اگلے حکم تک سپاہیوں کو نئی بندوقیں استعمال کرنے کی ہدایت نہ دیں، لیکن اس کے برخلاف ناعاقبت اندیش کارمائیکل اسمتھ نے 24؍فروری 1857ء کو دیسی سپاہیوں کو نئے کارتوسوں سے اینفیلڈ گن کی مشق کرنے کی ضد کی، لیکن ان کارتوسوں کو پہلے شیخ پیرعلی (نائک) اور پھر قدرت ( نائک) نے ہاتھ لگانے سے انکار کردیا جن کی تقلید کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے85 انقلابی سپاہیوں (49؍مسلمان اور36 ہندو ) نے بھی چھونے سے منع کردیا۔ اس حکم عدولی کو کرنل اسمتھ نے غداری سے تعبیر کیااور انہیں معطل کرکے عدالت میں مقدمہ چلانے کا حکم دیا،عدالت نے اپنے آقائوں کی مرضی کے مطابق فیصلہ سناتے ہوئے 85 سپاہیوں کودس دس سال کی قید بامشقت سزا سنائی۔ سپاہیوں نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جسے جنرل ہیوٹ نے مسترد کر دی۔ان قصور وار سپاہیوں کا9 ؍مئی کو پریڈ گرائونڈ پر کورٹ مارشل ہوا اور ہتھکڑ یاں اور بیڑیاں پہنا کرنئی جیل بھیج دیا، یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی تو اسے سن کر ہر خاص وعام کے ساتھ صدر بازار کی طوائفوں میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔معمول کے مطابق شام کو دیسی سپاہی طوائفوں کے کوٹھے پر پہنچے ،تو ایک طوائف نے انہیں ہاتھوں کی چوڑیاں اتار کر دیتے ہوئے ایسی طعنہ زنی کی جسے سن کر سپاہیوں کی غیرت جاگ گئی اور انہیں انقلاب کی متعین 31 مئی قیامت کی گھڑی نظر آئی۔ شہر میں جگہ جگہ سپاہیوں کی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے جہادی مرکز کے اشتہار بھی آویزاں نظر آئے ۔بعض ہندوستانی خیرخواہوں نے دبی زبان میں فرنگیوں کو آنے والے طوفان سے متنبہ بھی کیا البتہ انگریز افسران نے ان کی باتوںکو سنجیدگی سے نہیں لیا۔


اگلے دن 10 مئی بروز اتوار انگریز حکام کے زیادہ تر ملازم کام پر نہیں آئے، شدید گرمی کے سبب انگریز افسران نے سینٹ جانس چرچ صبح جانے کے بجائے شا م کوجانے کا فیصلہ کیا، اتوار کی وجہ سے انگریز سپاہی چھٹی پر تھے،جن میں بعض صدر بازار چہل قدمی کے لیے نکل گئے۔ دوپہر تک افواہوں کا بازار گرم ہوگیا جتنے منھ اتنی باتیں ۔یہ خبر بھی روئی کی طرح پھیل گئی کہ آج کسی بھی وقت دیسی سپاہ انقلاب کا علم بلند کردیں گے ۔شام ہوتے ہوتے صدر بازار میں ایسی افواہیں گردش کرنے لگیں کہ یورپین فوجیں ہندوستانی فوجوں سے ہتھیار چھیننے کے لیے آرہیں ہیں۔ جس نے بازار میں افراتفر ی کا ماحول برپا کر دیا اور بھگدڑ مچ گئی، ہندوستانی سپاہی بھی اپنی بیرکوں میں لوٹ کر اسلحہ خانہ کے پاس جمع ہونے لگے۔ انجام کار تیسری کولیری رجمنٹ کے سواروں نے دو دیسی رجمنٹوں 11ویں اور 20ویں کے ساتھ مل کر پریڈ گرائونڈ پر کرویا مرو کی حالات پیدا کردئیے، غالباً شام ساڑھے پانچ بجے دیسی سپاہیوں اور انقلابیوں نے انگریزفوجیوں اور حکام پر حملہ بول دیا، جس کی شروعات چھائونی، صدر بازار ،لال کرتی اور رجبن سے ہوتی ہوئی پورے شہر میں پھیل گئی۔ فوجی بیرکوں ،تحصیل،عدالتوں اور انتظامیہ کے دفاتر کو آگ لگادی گئی۔ جن افسران نے ان کے غصے پر پانی ڈالنے کی سعی کی وہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ موت کا ہرکارہ گلی وکوچوں میں انگریزوں کو تلاش کرتا پھررہا تھا جو انگریز نظر آیا اسے اپنا شکار بنا لیا، تقریباً 50 انگریز ہندوستانیوں کے ہاتھوں مارے گئے، الغرض دیکھتے دیکھتے ہی کمپنی کی عمل داری دھواں ہوگئی۔صدر بازار کوتوالی کے ایسوسیٹ کوتوال دھنو سنگھ نے بھی انقلابیوں کا پورا ساتھ دیا۔ اگرچہ گوری بریگیڈ جو پیدل فو ج کی ایک رجمنٹ ایک کولیری اور توپے خانے پر مشتمل تھا، دیسی سپاہیوں کی دلیری دیکھ کر اس کے اوسان ایسے خطا ہوئے کہ اپنی بیرکوں میں منجمد پڑے رہے۔

اسی بیچ تیسری کو لیری کے سپا ہی اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کے لیے وکٹوریہ پارک واقع پرانے جیل خانے پہنچے اور85 فوجیوں کوجیل سے چھڑاکرشاہ پیر صا حب کے تاریخی مقبرے پر لائے جہاںان کی لو ہاروں نے بیڑیاں کاٹیں، انقلابی سپاہیوں کے ساتھ عوام الناس نے بھی روزہ افطارکیا اوراس کے بعدوہ برطانیہ عظمی کی غلامی کے خاتمہ کے لیے دلی کی جانب رواں دواں ہوئے۔ اس موقع پر عوام کا جم غفیر سڑکوں پرموجود تھا، شاہ پیر گیٹ سے حضرت بالے کی در گاہ تاحد نظر سرہی سر نظرآرہے تھے۔ یکایک کپتان ڈیرک اسلحہ سے لیس ایک فوجی دستہ لیے بلند شہر اور گلائو ٹھی روڑپر نمودار ہوا اورہجوم پر فائرنگ کردی۔ اس سانحہ کے بعد حر یت پسندوں کی بھیڑمنتشر ہو گئی۔ادھر علی ا لصباح ایک بار پھر شہر ی اور دیہا تی حریت پسندوں نے مل کر نئی اور پرانے جیل خانہ پر حملہ کیا جس میں شاہجہاں پور کے رحیم خاں افغان ،عبداللہ تلنگی، امیر خاںاورپیر جی الہٰی بخش بھی شامل تھے، پیر جی الہٰی بخش نے قیصر گنج جیل کے تالے کو اپنی بندوق سے فائر کر کے توڑا ۔جیل کے سارے دستاویزوریکارڈ کو آگ کے حوالے کردیا اور قیدی بھی آزاد ہوتے ہی انقلابیوں کے کارواںمیں شامل ہوگئے ۔اگلے روز میرٹھ میں بلاتوقف دارگیر کا سلسلہ شروع ہوا۔انگریز حکام نے 11؍مئی 1857ء کو بائیس حریت پسندوں کو نوچندی کے میدان میں پھانسی دے دی جن میں سید عالم علی اور سید شبیر علی صاحبان بھی شامل تھے۔

میر ٹھ کے 85 انقلابی سپاہیوں نے اس ایسٹ انڈیا کمپنی کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا تھا جس کے راج میں سور ج طلو ع نہیں ہوتا لیکن اپنوں کی غداریوں کے سبب ان کی قربانیاں رائیگاں چلی گئیں۔ کاش ...۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔