مولانا محمد ولی رحمانی: مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے

صد حیف کہ قحط الرجال کے اس دور میں جب ایک ایک کرکے علمائے اسلام دنیا سے رخصت ہوتے جا رہے ہیں مولانا محمد ولی رحمانی جیسے عظیم قائد کا داغ مفارقت دے جانا ہر کسی کو اشک بار کر گیا ہے۔

مولانا محمد ولی رحمانی / تصویر آئی اے این ایس 
مولانا محمد ولی رحمانی / تصویر آئی اے این ایس 
user

آفتاب احمد منیری

ایک ایسے دور پرآشوب میں جب ملت اسلامیہ ہند کی دینی اور ملی شناخت پر ہر چہار جانب سے یلغار ہو رہی ہے اور علماء کی اکثریت اپنے فرائض سے کنارہ کش ہو کر خواب غفلت میں پڑی سو رہی ہے، مولانا محمد ولی رحمانی جیسے عظیم قائد کا دنیا سے رخصت ہوجانا امت کے لئے وہ سانحۂ عظیم ہے جس کی تلافی کی صورت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ اللہ کریم ان کو اپنے جوار رحمت میں داخل فرمائے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔

مولانا مرحوم کی شناخت ایک نہایت دلیر اور بے باک ملی رہنما کی تھی آپ کی شخصیت ملت اسلامیہ ہند کے لئے ایک شجر سایہ دار کی مانند تھی۔ آپ جب صفات عالیہ سے متصف تھے وہ بہت کم لوگوں کو عطا کیا جاتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور انھیں جمہوریت کے اداب سکھانے والے مولانا محمد ولی رحمانی کا تعلق صوبۂ بہار کی قدیم خانقاہ، خانقاہ رحمانی مونگیر سے تھا۔ آپ کے والد محترم مولانا منت اللہ رحمانی نے اس خانقاہ سے مسلمانوں کے دیرینہ مفاد میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ انہی کی پیہم کوششوں کے نتیجہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جیسا ادارہ وجود میں آیا۔ ایسے مثالی باپ کی تربیت میں نشو ونما پانے والے مولانا محمد ولی رحمانی نے خانقاہ رحمانی سے لیکر تعلیم اور سیاست کے میدان تک قوم کی رہنمائی کا فریضہ بہ حسن وخوبی ادا کیا۔


اگر آزادی کے بعد ہندوستان کی ملی قیادت کا تنقیدی جائزہ لیں تو ایسے لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں جنھوں نے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ملی قیادت کے فرائض انجام دیئے اور حاکم وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حق بات کہنے کا انداز جنھوں نے اختیار کیا۔ مولانا محمد ولی رحمانی کا شمار ان ہی غیور مسلم لیڈران میں ہوتا ہے۔

مسلمانوں کے عائلی مسائل، مسلم کش فسادات اور تعلیم و روزگار جیسے اہم ترین مسائل کو لیکر مولانا ہمیشہ حکومت وقت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور حکومت میں شامل زعفرانی ذہنیت کے حامل افراد کی سازشوں سے مسلم عوام کو باخبر کرتے رہے۔ اپنے وقت میں مولانا ولی رحمانی ملت اسلامیہ کی سب سے مضبوط آواز تھے۔ مسلمانوں کے آئینی حقوق کو لیکر وہ اکثر حکومت کے وزراء اور اعلیٰ ترین افسران سے برسرِ پیکار رہے۔ مجھے وہ وقت بھلائے نہیں بھولتا کہ جب مولانا عالی اردو کانفرنس کے موقع پر جے این یو تشریف لائے اور بھرے مجمع میں مرکزی وزراء کی موجودگی میں مسلم مسائل کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں پر کھل کر گفتگو کی۔ نیز پوری بے بیباکی کے ساتھ ظلم وجبر کی وہ داستان سنائی جسے اقتدار اعلیٰ سننا نہیں چاہتی۔ اس موقع پر مسلم اقلیات کو جمہوریہ اداب سکھاتے ہوئے مولانا نے فرمایا تھا:


’’اگر دوسری قوموں کی طرح مسلمانوں نے بھی جمہوری آداب سیکھ لئے ہوتے تو انھیں اس ملک کے اندر اتنے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، اس لیے کہ تب انھیں یہ معلوم ہوتا کہ جمہوریت میں تھوڑی بدتمیزی کی بھی گنجائش ہوتی ہے‘‘

مولانا ولی رحمانی بذات خود رکن قانون ساز کونسل کی حیثیت سے عملی سیاست سے منسلک رہے اور سیاست کے ایوانوں میں رہ کر اس رمز سے واقف ہوئے کہ اعلیٰ اور پروفیشنل تعلیم کے ذریعہ ہی قوم کو پسماندگی کے غار سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد قوم کے اس محسن نے مقابلہ جاتی امتحانوں میں مسلم طلباء کی شراکت اور کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے رحمانی 30 کا قیام عمل میں لایا۔ اور یہ بات محتاج مضاحت نہیں کہ ماہر اساتذہ کی نگرانی میں قائم ہوئے اس ادارہ نے بہت تھوڑے سے عرصے میں اپنی ایک منفرد شناخت بنائی۔ اس سے منسلک سیکڑوں مسلم طلباء نے میڈیکل اور انجینئرنگ کے امتحانات میں کامیابی کا پرچم لہرایا۔


نہایت خلوص اور جذبہ صادق کے ساتھ قوم کی رہبری کرنے والے اس عظیم قائد نے کبھی کسی مشکل سے مشکل وقت میں بھی قوم کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑا۔ بابری مسجد کی شہادت اور گجرات فسادات سے لیکر CAA/NRC کے ملک گیر احتجاج تک آپ بحیثیت امیر شریعت پورے اخلاص کے ساتھ قوم مسلم کی سرپرستی فرماتے رہے۔ تین طلاق کے مسئلہ پر آپ نے نہایت پا مردی کے ساتھ زعفرانی گروہ کی مسلم دشمنی کو بے نقاب کیا اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پلیٹ فارم سے ملک بھر میں عوامی بیداری مہم چلائی، جس سے پہلی بار لوگ طلاق جیسے اہم ترین مسئلے کی باریکیوں سے واقف ہوئے۔

آج کی مادی دنیا میں ایسے مردانِ حق آگاہ کا وجود امت کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں قرار دیا جاسکتا۔ صد حیف کہ قحط الرجال کے اس دور میں جب ایک ایک کرکے علمائے اسلام دنیا سے رخصت ہوتے جا رہے ہیں مولانا محمد ولی رحمانی جیسے عظیم قائد کا داغ مفارقت دے جانا ہر کسی کو اشک بار کرگیا ہے۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */