بنگال میں ایک بار پھر ’سراج الدولہ‘ اور ’لارڈ کلائیو‘ کے درمیان جنگ… ظفر آغا

جس طرح 1757 میں پلاسی کی جنگ کے وقت لارڈ کلائیو نے نواب سراج الدولہ کے خلاف دولت، جوڑ توڑ اور پوری فوج استعمال کی تھی اسی طرح مودی اور شاہ نے نندی گرام میں دولت اور اپنی ہر طاقت جھونک دی ہے

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

ظفر آغا

خوب لڑی مردانی وہ تو جھانسی والی رانی تھی! بچپن میں ہم سب نے رانی جھانسی لکشمی بائی کی انگریزوں کے خلاف بہادری کے قصوں کے ساتھ ساتھ یہ گیت بھی خوب سنا ہے۔ لیکن کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اس اکیسویں صدی میں ریاست بنگال میں بھی ایک رانی جھانسی دوئم پیدا ہوگی جس کا نام ممتا بنرجی ہوگا۔ جی ہاں، ممتا بنرجی اس دور کی کسی رانی جھانسی سے کم نہیں ہے۔ وہ جس جواں مردی اور ہمت سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا یک و تنہا مقابلہ کر رہی ہیں اس کی جس قدر تعریف ہو وہ کم ہے۔ ارے ابھی میرے سامنے اس مضمون کے لکھتے وقت آج کا اخبار رکھا ہے اور اس میں ممتا بنرجی نے کس طرح نندی گرام میں چناؤ کے روز 80 منٹ تک اکیلے الیکشن کمیشن، سنٹرل سیکورٹی فورس اور بی جے پی کارکنان کا مقابلہ ایک پولنگ بوتھ پر کیا وہ قابل داد ہے۔ آپ نے پڑھا ہوگا کہ ممتا بنرجی بذات خود نندی گرام سے چناؤ کے لیے کھڑی ہوئی ہیں۔ وہاں ان کے مقابل میں ابھی حال تک ان کے معتمد خاص سوویندو ادھیکاری بی جے پی کے نمائندے کے طور پر چناؤ لڑ رہے ہیں۔ بنگال کے اس جدید میر جعفر کو ابھی مشکل سے دو ماہ قبل امت شاہ نے انگریزوں کی طرح لالچ اور ڈرا دھمکا کر توڑ لیا۔ نندی گرام سے وہ ممتا کی پارٹی سے ایک عرصے سے چناؤ لڑتے رہے ہیں اور جیتتے رہے ہیں۔ لیکن اس بار جب انھوں نے بی جے پی کی جانب سے نندی گرام میں چناؤ لڑنے کا اعلان کیا تو بنگال کی شیرنی اور حالیہ رانی جھانسی ممتا بنرجی نے یہ اعلان کیا کہ وہ اس بار ان کے مقابل نندی گرام سے چناؤ لڑیں گی۔

بس اس اعلان کے ساتھ ساتھ ہی بی جے پی خیمے میں قیامت بپا ہو گئی۔ جیسے 1757 میں پلاسی کی جنگ کے وقت کمپنی بہادر کے کمانڈر لارڈ کلائیو نے نواب سراج الدولہ کے خلاف دولت، تمام جوڑ توڑ اور پوری فوج لگا دی تھی ویسے ہی امت شاہ اور مودی نے نندی گرام میں سنٹرل سیکورٹی فورس، الیکشن کمیشن کی ناانصافی، بی جے پی اور آر ایس ایس کارکنان کی فوج کے ساتھ ساتھ دنیا کی ہر دولت ممتا کے خلاف جھونک دی۔ ووٹنگ کے روز تو قیامت ہی بپا ہو گئی۔ ممتا کا الزام ہے کہ ووٹنگ کے دوران بی جے پی کارکنان کے ان کے خلاف بوتھ پر قبضہ کر ان کے خلاف ووٹ ڈال کر دھاندلی شروع کر دی۔ اس کے خلاف ممتا بنرجی بذات خود بویل نامی ایک بوتھ پر پہنچ گئیں جہاں بی جے پی کارکنان نے ان کو گھیر لیا۔ جواباً ان کی پارٹی کے کارکنان بھی وہاں پہنچ گئے۔ اسّی منٹ تک ممتا وہاں سنٹرل سیکورٹی فورس اور بی جے پی کارکنان کے گھیرے میں رہیں۔ وہ پولنگ بوتھ ایک میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا لیکن ممتا جھانسی کی رانی کی مانند اسی میدان جنگ میں ڈٹی رہیں۔ آخر گورنر بنگال سے ان کی فون پر گفتگو ہوئی اور گورنر نے سیکورٹی فورس کو کچھ حکم دیا، تب جا کر وہاں سے بی جے پی کارکنان رفع دفع ہوئے اور ممتا باہر آئیں۔


یہ تو رہا ممتا کی بہادری کا قصہ۔ لیکن آ اس واقعہ سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مودی اور امت شاہ نے یہ طے کر لیا ہے کہ لارڈ کلائیو کی طرح وہ بنگال پر اپنا قبضہ دامے، درمے، سخنے، قدمے کر کے رہیں گے۔ تب ہی تو آپ نندی گرام میں پیش آنے والے واقعہ سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اب بنگال میں جمہوریت بالائے طاق ہے۔ کیونکہ جمہوریت کا دار و مدار صاف و شفاف چناؤ پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر کہیں چناؤ کا طرز نندی گرام جیسا ہو جائے تو پھر تو کاہے کی جمہوریت اور کہاں کا صاف شفاف چناؤ۔ بنگال میں چناؤ کس قدر صاف و شفاف ہو رہے ہیں اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اکیلے نندی گرام میں ممتا کے کارکنان نے چناؤ کی خلاف ورزی کے 63 معاملات الیکشن کمیشن کو داخل کیے۔ لیکن اللہ رے الیکشن کمیشن کی ایمانداری اور غیر جانبداری کہ اس نے ایک بھی شکایت پر کان نہیں دھرا۔ الیکشن کمیشن کے رویہ کے خلاف تو جس روز سے بنگال میں چناوی تاریخوں کا اعلان ہوا ہے اس روز سے ہی ممتا بنرجی یہ الزام لگا رہی ہیں کہ بنگال میں کمیشن امت شاہ کے اشاروں پر ناچ رہا ہے۔ بنگال میں جس طرح کمیشن نے آٹھ راؤنڈ میں چناؤ کی تاریخیں رکھیں اس سے بی جے پی کو کھلے طور پر فائدہ ہے۔ مودی ہر راؤنڈ میں بذات خود موجود ہیں۔ سارے ہندوستان سے بی جے پی اور آر ایس ایس کارکنان جو بنگال میں اکٹھا ہیں وہ سب راؤنڈ بہ راؤنڈ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو کر بی جے پی کے لیے ہر قسم کا کام کر رہے ہیں۔ پھر مودی بذات خود ’جے شری رام‘ کا نعرہ بلند کر بنگال چناؤ کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہے ہیں۔ ان تمام خلاف ورزیوں کے باوجود الیکشن کمیشن ٹس سے مس نہیں ہو رہا ہے۔ اس بات سے ممتا حامیوں نے کمیشن کے خلاف کھلی جنگ چھیڑ دی ہے۔

ہر طرح سے نرغے میں گھرنے کے باوجود ممتا نواب سراج الدولہ اور جھانسی کی رانی کی طرح امت شاہ، مودی، بی جے پی و آر ایس ایس اور ہندوستانی نظام کی پوری طاقت کے خلاف انتہائی بہادری سے لڑ رہی ہیں۔ وہ صرف لڑی نہیں بلکہ انھوں نے بے حد عقلمندی اور ہوشیاری سے مودی کی حکمت عملی کا جواب ’بنگال بنام گجرات‘ حکمت عملی کا استعمال کر بی جے پی کے دانت کھٹے کر رکھے ہیں۔ جیسا کہ راقم الحروف نے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ ممتا مودی اور امت شاہ کی یلغار کو بنگالی شناخت و بنگالی کلچر و تہذیب ہی نہیں بلکہ بنگالی ہندو عقائد پر گجراتیوں کے حملے سے تشبیہ دے کر بی جے پی کے وار کو کمزور بنا رہی ہیں۔ بنگال سے جو خبریں آ رہی ہیں اس سے تو یہ لگ رہا ہے کہ بنگالیوں کی کثیر تعداد ممتا کی حمایت میں ان کے پرچم تلے اکٹھا ہو رہی ہیں۔ لیکن غیر بنگالی آبادی مثلاً مارواڑی اور ہندی بونے والے ’جے شری رام‘ کی کھنک پر جواباً مودی اور بی جے پی کی حمایت میں جمع ہو رہے ہیں۔ الغرض دونوں جانب سے قیامت کی ٹکر ہے جس میں ممتا اپنے پورے دم خم کے ساتھ بنگال کا چناؤ لڑ رہی ہیں۔ آخر نتائج کیا ہوتے ہیں، اس کا فیصلہ تو 2 مئی کو کاؤنٹنگ کے روز ہی ہوگا، لیکن ممتا نے اپنی بہادری سے ابھی تک مودی و شاہ کے دانت کھٹے کر رکھے ہیں۔


لیکن بنگال میں بات محض کون چناؤ جیتتا ہے اور کون چناؤ ہارتا ہے، اس پر نہیں ہے، بلکہ بنگال میں بی جے پی کی جانب سے جس طرز پر چناؤ لڑا جا رہا ہے اس سے یہ بھی طے ہونا ہے کہ اس ملک میں اب جمہوریت کا کیا رنگ ہوگا۔ کیا اب چناؤ پہلے جیسے چناؤ نہیں بلکہ ایک جنگ کا روپ لیں گی! الیکشن کمیشن کا اس ملک میں کیا اب ایک نیا روپ ہوگا! اگر یہی رہا تو اس ملک کے اندر و باہر دونوں طرف ہندوستانی جمہوریت پر انگلیاں اٹھنی شروع ہو جائیں گی جو ہندوستان جیسی شاندار جمہوریت پر ایک بدنما داغ ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Apr 2021, 11:18 AM