مہاراشٹر: زمین، گھوٹالے اور قانون کی حقیقت... نوین کمار

اس میں شبہ ہے کہ نوکرشاہوں کی کمیٹی کے ذریعہ کی گئی جانچ اس ڈیل کی تہہ تک پہنچ پائے گی اور سبھی گھناؤنی کرتوت سامنے لا پائے گی۔

<div class="paragraphs"><p>اجیت پوار کے بیٹے پارتھ پوار، تصویر سوشل میڈیا</p></div>
i
user

نوین کمار

سرکاری زمین کے حصول سے متعلق الزامات میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی جانب سے جھارکھنڈ کے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کی گرفتاری اور مہاراشٹر میں جاری ایک زمین گھوٹالے کے درمیان مماثلتیں دکھائی دیتی ہیں۔ جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے سورین کو ضمانت دے دی تھی، کیونکہ ان کے خلاف مقدمہ کمزور تھا۔ اس کے برعکس، مہاراشٹر کے تازہ گھوٹالہ میں نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار کا خاندان مشکل میں پھنستا دکھائی دے رہا ہے، لیکن اس پر اب تک سرکاری ردِ عمل خاصہ محتاط اور نرم نظر آیا ہے۔

اس تنازعہ کے مرکز میں 43 ایکڑ زمین کا وہ ٹکڑا ہے جو ’بامبے حکومت‘ کی ملکیت ہے اور 2038 تک اسے انڈین بوٹانیکل سروے کو لیز پر دیا گیا ہے۔ یہ زمین ایک ایل ایل پی (لیمٹڈ لایبلٹی پارٹنرشپ، جو پروموٹرس کی ذاتی جائیداد کو ضبطی سے بچاتی ہے) کمپنی کو ’بیچی‘ گئی، جس میں اجیت پوار کے بیٹے پارتھ کی 99 فیصد شراکت داری ہے۔ باقی ایک فیصد ان کے چچازاد بھائی دگ وجئے امرسنگھ پاٹل کی ہے۔


اعداد و شمار حیران کر دینے والے ہیں۔ تقریباً 1800 کروڑ روپے مالیت کی یہ زمین محض 300 کروڑ روپے میں منتقل کر دی گئی۔ 21 کروڑ روپے کا اسٹامپ ڈیوٹی اور تقریباً 6 کروڑ روپے کے مقامی ٹیکس معاف کر دیے گئے۔ رجسٹری صرف 500 روپے میں کر دی گئی۔ اس جائیداد کو پہلے 272 افراد کی ذاتی ملکیت قرار دیا گیا اور پھر مئی 2025 میں باضابطہ طور پر رجسٹر کیا گیا۔

جب یہ معاملہ منظر عام پر آیا، تو اجیت پوار نے غیر متوقع طور پر دعویٰ کیا کہ انہیں اس لین دین کی کوئی خبر نہیں تھی اور ان کے بیٹے کو بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ زمین سرکاری ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے استعفے کے مطالبہ کے درمیان پوار نے اعلان کیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو زمین واپس کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ بعد میں انہوں نے کہا کہ نہ کوئی پیسہ ہاتھ میں آیا ہے، نہ کوئی لین دین ہوا ہے، رجسٹری منسوخ کر دی گئی ہے اور تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بغیر کسی مالی لین دین اور بغیر کسی سرکاری نگرانی کے اتنے بڑے پیمانے پر ایسا سودا کیسے ممکن ہے؟


وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس چاہتے ہیں کہ لوگ سوال اٹھانا چھوڑ کر’8 دن کے اندر‘ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کا انتظار کریں۔ لیکن ایسی کمیٹیاں وقت بڑھانے اور غیر فیصلہ کن رپورٹس دینے کے لیے بدنام ہیں، اس لیے ناقدین کو شدید شبہات ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس سودے میں شامل ایک جوائنٹ سب رجسٹرار کو معطل کیا جا چکا ہے، لیکن ان کا مؤقف یا گواہی ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ کیا انہیں مجبور کیا گیا تھا، یا وہ اس غیر قانونی اراضی منتقلی کے ایک با معاوضہ سہولت کار تھے؟

کیا یہ کہانی قابل یقین ہے کہ فروخت کرنے والوں کو معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کس کو فروخت کر رہے ہیں، اور رجسٹری ہونے کے 6 ماہ بعد بھی انہیں کوئی رقم نہ ملی؟ اور خریدار کو بھی یہ علم نہ ہو کہ فروخت کرنے والا کون ہے؟


ریونیو ریکارڈ میں صاف لکھا ہے کہ مالک ’بامبے حکومت‘ ہے اور موجودہ لیز بی ایس آئی کو دی گئی ہے۔ اس سے ملی بھگت اور مجرمانہ ساز باز واضح ہو جاتی ہے، لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ قانون کی کس طرح تشریح کی جاتی ہے اور مجرموں کو شک کا فائدہ دینے کے لیے کون سے دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔

پارتھ پوار اور ہیمنت سورین کے ساتھ برتے گئے رویہ کا زمینی فرق صاف دکھائی دیتا ہے۔ سورین کو مہینوں تک ہراساں کیا گیا، ای ڈی نے مبینہ زمین گھوٹالے کی خوفناک تفصیلات میڈیا میں ’لیک‘ کیں، حالانکہ سورین نے خود کو بے قصور بتایا۔ اس کے برعکس مرکزی فریق پارتھ پوار کا نام معاملے سے متعلق درج کسی ایف آئی آر میں بھی ملزم کے طور پر شامل نہیں ہے۔ عوامی ریکارڈ میں یقینی طور پر 300 کروڑ کی ادائیگی کے ثبوت اور 272 ’مالکان‘ کے دستخطوں کی تفصیل موجود ہوگی، لیکن ایسی شفافیت ابھی تک ناپید ہے۔ اس بات میں شبہ ہے کہ سرکاری افسران کی بنائی گئی کمیٹی اس سودے کی تہہ تک پہنچ پائے گی اور تمام مکروہ تفصیلات سامنے لا سکے گی۔


پارتھ پوار کی کمپنی ’امیڈیا انٹرپرائزز ایل ایل پی‘ میں دگ وجئے امر سنگھ پاٹل شراکت دار کے طور پر درج ہیں۔ پونے کے 2 مختلف تھانوں میں درج ایف آئی آر میں پارتھ کا نام شامل نہیں ہے۔ باودھن پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر میں پاٹل (جو پارتھ پوار کے چچازاد بھی ہیں)، شیتل تیجوانی (جن کے پاس مبینہ طور پر زیادہ تر مالکان کی پاور آف اٹارنی تھی)، اور معطل جوائنٹ سب رجسٹرار رویندر تارو کو ملزم بنایا گیا ہے۔ دلت مہار طبقے کے لیے مختص ’مہار وطن‘ کی یہ زمین، جو بی ایس آئی کو لیز پر دی گئی تھی، غیر قانونی طور پر ذاتی ملکیت کے طور پر رجسٹر کی گئی تھی۔

کھڑک پولیس اسٹیشن میں درج ایک الگ ایف آئی آر پونے کے بوپوڈی میں 13 ایکڑ سرکاری زمین سے متعلق ہے، جو اصل میں محکمہ زراعت کو الاٹ کی گئی تھی۔ اس معاملے میں تحصیل دار سوریہ کانت یوالے (معطل)، پاٹل، تیجوانی اور دیگر سمیت 9 افراد کے نام ہیں جن پر ریکارڈ میں ہیرا پھیری کرنے اور سرکاری زمین کو غیر قانونی طور پر فروخت کرنے کا الزام ہے۔


تیجوانی کا ماضی مزید پراسرار دکھائی دیتا ہے۔ وہ 2018 میں سیوا وکاس کوآپریٹو بینک سے متعلق قرض گھوٹالے میں پھنس گئی تھیں اور بینک نے 2020 میں ان کی جائیداد ضبط کر لی تھی۔ وہ اب بند ہو چکی ’پیراماؤنٹ ڈریم بلڈ پرائیویٹ لمیٹڈ‘ کی ڈائریکٹر تھیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 3 منسلک کمپنیاں (مہاراشٹر ری ڈیولپمینٹ کنسٹرکشن ایل ایل پی، امیڈیا انٹرپرائزز ایل ایل پی اور امیڈیا ہولڈنگز ایل ایل پی) پونے کے اسی پتے پر قائم ہیں جن میں پاٹل اور پوار ڈائریکٹر ہیں۔ 2020 میں محض ایک لاکھ روپے کی سرمایہ کاری سے قائم امیڈیا انٹرپرائزز مبینہ طور پر تھوک تجارت اور گاڑیوں کی مرمت کا کام کرتی تھی۔

تو پھر سوال یہ ہے کہ اتنی کم سرمایہ والی کمپنی نے چند سالوں میں سینکڑوں کروڑ کے سودے کیسے کر لیے؟ پیسہ کہاں سے آیا؟ کیا انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ یا ای ڈی نے اس مشکوک مالی بہاؤ کی جانچ کے لیے کوئی کارروائی کی ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ زمین کے دستاویزات میں دستخط کی توثیق پوار کے بجائے پاٹل کی جانب اشارہ کرتی ہے۔


اپوزیشن پارٹیاں 8 دسمبر سے ناگپور میں شروع ہونے والے اسمبلی کے سرمائی اجلاس سے قبل اس گھوٹالے کو سیاسی طور پر بھنانے کی کوشش میں ہیں۔ ممبئی کانگریس کی صدر ورشا گائیکواڈ نے پونے اور ممبئی کے زمین سودوں پر وائٹ پیپر جاری کرنے اور اسمبلی میں پورے دن کی بحث کا مطالبہ کیا ہے۔ ورشا نے کہا کہ ’’یہ حکومت عوام کی نہیں بلکہ دوستوں اور پٹھوؤں کی ہے۔‘‘ انہوں نے الزام لگایا کہ امیڈیا انٹرپرائزز نے پہلے بوپوڈی میں زرعی ڈیری پروجیکٹ کے لیے جعلی دستاویزات تیار کر کے سرکاری زمین ہتھیا لی تھی۔

شیوسینا (یو بی ٹی) کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے اس سے بھی سخت حملہ کیا ہے۔ ادھو نے کہا کہ ’’انہوں نے ہماری پارٹی چرائی، ہمارے ووٹ چرائے اور اب ہماری زمین بھی چرا رہے ہیں۔‘‘ ٹھاکرے نے یہ بھی کہا کہ ’’کچھ نہیں ہوگا۔ وزیراعلیٰ کہیں گے کہ ’کسی بھی مجرم کو نہیں بخشا جائے گا‘ اور کلین چٹ دینے سے پہلے معاملہ کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کریں گے۔‘‘


اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے بھی ’ایکس‘ پر پوسٹ کرتے ہوئے اسی جذبے کا اظہار کیا۔ وہ لکھتے ہیں ’’انہیں معلوم ہے کہ چاہے جتنا بھی لوٹ لیں، وہ ووٹ چرا کر دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے۔ انہیں نہ جمہوریت کی پروا ہے، نہ عوام کی اور نہ ہی دلتوں کے حقوق کی۔‘‘

زمین گھوٹالے کا دائرہ مزید وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ مرکزی وزیر مملکت مُرلی دھر موہول کا نام ’سیٹھ ہیراچند نیم چند میموریل ٹرسٹ‘ سے منسلک 311 کروڑ کے زمین سودے میں آیا ہے۔ احتجاج کے بعد یہ سودا منسوخ کیا گیا تھا۔ شرد پوار کے پوتے اور رکن اسمبلی روہت پوار نے وزیر سنجے شرساٹ (ایکناتھ شندے گروپ) پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے نوی ممبئی میں ایک ہی خاندان کو 5000 کروڑ کی سِڈکو زمین غیر قانونی طور پر الاٹ کی۔ لوک آیُکت نے اس کا نوٹس لے لیا ہے۔ شندے گروپ کے ایک اور وزیر پرتاپ سرنایک پر ٹھانے میں 200 کروڑ کی زمین صرف 3 کروڑ میں حاصل کرنے کا الزام ہے، اگرچہ وہ کسی بھی غلط کاری سے انکار کرتے ہیں۔


یہ معاملات نہ صرف اراضی کے انتظام میں نظامی ناکامی کو بے نقاب کرتے ہیں بلکہ ایک ایسے پیٹرن کی نشاندہی بھی کرتے ہیں جو نہایت افسوسناک حد تک مانوس ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔