کیرالہ حجاب تنازع: ایشو بننے سے قبل حل نکالنا ضروری...سہیل انجم
کیرالہ کے ایک اسکول میں طالبہ کے حجاب پہننے پر پابندی تنازع میں بدل گئی ہے۔ حکومت اور بی جے پی آمنے سامنے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو سیاسی رنگ دینے سے پہلے حل ضروری ہے

کیرالہ کا حجاب تنازع کیا ایک نیا سیاسی ایشو بننے جا رہا ہے اور اگر بنے گا تو اس کے کیا مضمرات ہوں گے۔ یہ سوال کوچی کے ایک اسکول میں حجاب میں طالبات کے جانے پر پابندی، اس معاملے پر عدالت سے رجوع، کیرالہ حکومت کے وزیر کی جانب سے حجاب کی حمایت اور بی جے پی کی جانب سے مخالفت کے تناظر میں اٹھایا جا رہا ہے۔ اس معاملے پر بعض حلقوں میں اظہار تشویش کیا جا رہا ہے۔ یہ اظہار تشویش کرناٹک میں حجاب تنازع کی روشنی میں بھی ہے جس نے عالمی سطح پر ایک بحث کا دروازہ کھول دیا تھا اور جس کی بنیاد پر عوام دو خیموں میں تقسیم ہو گئے تھے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ کرناٹک کے ایک چھوٹے سے شہر اڈوپی کے ایک پری یونیورسٹی کالج میں کلاس روم میں مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی کا تنازع ملکی سرحدوں کو عبور کرکے عالمی سطح پر پہنچ گیا تھا۔ نوبیل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے حجاب کی حمایت میں ٹوئٹ کیا تھا اور اس کے بعد دیگر عالمی شخصیات نے ا س پر اپنا رد عمل ظاہر کیا تھا۔ مذہبی آزادی سے متعلق امریکی ادارے آئی آر ایف نے بھی اپنا ردعمل ظاہر کیا تھا اور اس کے سفیر رشاد حسین نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ مذہبی آزادی کے ذیل میں اپنی پسند کے لباس کا انتخاب بھی شامل ہے اور اگر کسی تعلیمی ادارے میں حجاب پر پابندی لگائی جاتی ہے تو یہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی پہنچا تھا اور کورٹ نے مذہبی آزادی کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اس تنازع کی آگ ملک کے دیگر شہروں میں بھی لگ گئی تھی۔ جہاں حجاب کی حمایت میں مظاہرے ہونے لگے تھے اور مسلم خواتین کرناٹک کی مسلم طالبات کے حجاب کے حق میں سڑکوں پر اتر آئی تھیں۔ یہاں تک کہ پاکستان میں بھی حجاب کی حمایت میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔
جہاں متعدد مسلم تنظیمیں میدان میں اتر آئی تھیں وہیں ہندو تنظیمیں حجاب کی مخالفت میں پیش پیش رہیں۔ کالج کے کیمپس میں ہندوتو وادی تنظیموں سے وابستہ طلبہ کے جے شری رام کے نعرے کے جواب میں ایک مسلم طالبہ مسکان کے اللہ اکبر کے نعرے کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی تھی۔ اس طرح ایک مقامی معاملہ عالمی معاملے میں تبدیل ہو گیا تھا۔ جس کی وجہ سے ملک کا ماحول خراب ہو گیا تھا اور کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔
اب اسی قسم کا تنازع کیرالہ کے کوچی شہر میں شروع ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کو ملک گیر اور پھر عالمی مسئلہ بننے سے قبل ہی حل کر لیا جائے۔ اس تنازعے کا آغاز سات اکتوبر کو ہوا۔ کوچی کے ارناکلم میں واقع لیٹن کیتھولک چرچ کے زیر اہتمام چلنے والے سینٹ ریٹا پبلک اسکول کی کلاس آٹھ کی ایک مسلم طالبہ حجاب میں اسکول پہنچی۔ اسکول انتظامیہ نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ اسکول کے یونیفارم ضابطے کے خلاف ہے، اسے حجاب ہٹانے کی ہدایت دی۔ طالبہ نے اس روز حجاب ہٹا دیا لیکن وہ دس اکتوبر کو پھر حجاب میں آئی۔ اسکول پرنسپل نے اس کو اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ جس پر اس کے والد کچھ لوگوں کے ساتھ اسکول کی انتظامیہ کے پاس پہنچے۔ اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ پہلے اسکول یونیفارم میں آتی تھی لیکن اس نے اچانک حجاب اوڑھ لیا۔ جبکہ طالبہ کے والد کے مطابق وہ شروع سے ہی حجاب میں آتی رہی ہے۔
جب اس معاملے پر تنازع بڑھا تو اسکول انتظامیہ نے دو روز کی تعطیل کر دی۔ کیرالہ کے وزیر تعلیم وی سیون کٹی نے طالبہ کی حمایت کی اور کہا کہ اسٹوڈنٹ کو اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کا پورا حق ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ اسکول کی عیسائی پرنسپل جو کہ خود پورا جسم ڈھکے رہتی ہیں، ایک طالبہ کو ہیڈ اسکارف میں آنے سے روک رہی ہیں۔ انھوں نے طالبہ کے ذہنی دباو کے لیے اسکول انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ اسٹوڈنٹ کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنا اس کے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور جو لوگ اس کے ذمہ دار ہوں گے وہ جواب دہ بنائے جائیں گے۔
انتظامیہ نے اس معاملے پر کیرالہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور اسکول میں سیکورٹی بڑھانے کی اپیل کی۔ عدالت نے سیکورٹی بڑھا دی لیکن ریاستی وزیر کے حکم پر اسٹے دینے سے انکار کر دیا۔ یہ معاملہ فی الحال زیر سماعت ہے اور اس کے لیے اگلی تاریخ مقرر کر دی گئی ہے۔ لیکن اسکول انتظامیہ حجاب میں طالبہ کو لینے سے اپنے انکار پر قائم ہے۔ اس کی دلیل ہے کہ اس سے اسکول میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوگی۔ ادھر طالبہ کا کہنا ہے کہ اس کے اسکارف کے بارے میں کہا گیا کہ اس سے طلبہ میں خوف و ہراس ہے۔ اس دلیل نے مجھے ذہنی کشیدگی میں مبتلا کر دیا ہے۔ آخر میرا اسکارف خوف کیسے پیدا کر سکتا ہے۔
اس معاملے پر سیاسی بیان بازیاں شروع ہو گئی ہیں۔ ریاستی محکمہ تعلیم اور اسکول انتظامیہ کے علاوہ بھی دوسرے لوگ بیانات دینے لگے ہیں۔ محکمہ تعلیم نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں اس نے اسکول کے رویے پر اظہار ناراضگی کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا برتاو خامیوں سے بھرا ہوا ہے۔ جبکہ مذکورہ اسکول اور ریاست کے چرچ گروپوں اور بی جے پی نے ریاست کی ایل ڈی ایف حکومت پر تنقید کی ہے اور اس پر اقلیتوں کو خوش کرنے کی پالیسی کا الزام لگایا ہے۔
پرنسپل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ اسکول 1998 سے چل رہا ہے اور اس قسم کے تنازعے کا یہ پہلا معاملہ ہے۔ انھوں نے طالبہ کے والد پر الزام لگایا کہ جب انھیں اسکول میں بلایا گیا تو وہ کئی لوگوں کے ساتھ آئے اور نعرہ بازی کرنے لگے جس سے کشیدگی پیدا ہو گئی۔ اس وقت کلاسز چل رہی تھیں اس کے باوجود انھوں نے گالیاں دینی شروع کر دیں۔ طالبہ نے اس سال جون میں اسکول جوائن کیا تھا اور وہ یونیفارم کی پابندی کر رہی تھی۔ 450 طلبہ میں 117 مسلم ہیں۔ صرف ایک اسٹوڈنٹ نے یونیفارم کی خلاف ورزی کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : کیا ہندوستان کی افغان پالیسی تبدیل ہو رہی ہے؟...سہیل انجم
جبکہ طالبہ کے والد کا کہنا ہے کہ اس نے یونیفارم پالیسی کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ وہ گزشتہ چار ماہ سے اسکارف کے ساتھ اسکول جاتی رہی ہے۔ لیکن اس نے اسے حجاب کی طرح پن نہیں کیا تھا۔ اس کی ماں ہمیشہ اسکول جا کر وہاں کے قوانین و ضوابط پر بات کرتی رہی ہے۔ جب میں اسکول کی پرنسپل سے بات کرنے گیا تو وہاں موجود پیرنٹس ٹیچرس ایسوسی ایشن کے صدر نے مجھ سے بہت سختی سے بات کی۔ ان کے مطابق ان کے گھر والوں نے بارہا اسکول انتظامیہ سے حجاب استعمال کرنے کے مطالبے کے سلسلے میں بات کی ہے۔ اگر میری لڑکی حجاب پہننا چاہتی ہے تو یہ ضوابط کی خلاف ورزی کیسے ہو گئی۔
ادھر بی جے پی کے ریاستی صدر چندر شیکھر بھی اس معاملے میں کود پڑے ہیں۔ انھوں نے کانگریس پر الزام لگایا کہ وہ اس معاملے کی حمایت کر رہی ہے۔ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے۔ انھوں نے کانگریس پر انتہاپسندوں کے سامنے جھکنے کا الزام لگایا۔ اس معاملے میں پاپولر فرنٹ کی سیاسی شاخ ایس ڈی پی آئی کا بھی نام آرہا ہے۔ بی جے پی اور اسکول انتظامیہ نے اس پر اس معاملے کو ہوا دینے کا الزام لگایا ہے۔ خبروں کے مطابق ایس ڈی پی آئی نے حجاب کی حمایت کی ہے۔ لیکن کانگریس کی طرف سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : گلوبل صمود فلوٹیلا انسانیت نوازی کی روشن مثال...سہیل انجم
بہرحال اگر اسکول انتظامیہ کی بات درست ہے کہ طالبہ پہلے بغیر اسکارف کے آتی تھی تو اسے اب بھی اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ لیکن اگر طالبہ کے والد کی بات سچ ہے کہ وہ اسکارف کے ساتھ آتی رہی ہے تو اسکول انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اس کو روکنے کے بجائے اسکارف کے ساتھ اسکول آنے دے۔ میڈیا رپورٹوں سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ اس معاملے کو کچھ طاقتیں ہوا دے رہی ہیں۔ یہ طاقتیں کوئی بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن یہاں یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ کسی بھی اسکول یا کالج میں داخلہ دلانے سے قبل والدین کو وہاں کے قوانین و ضوابط کا مطالعہ کر لینا چاہیے۔ اگر وہ اس سے مطمئن ہیں اور اس کی پابندی کر رہے ہیں تو ٹھیک ورنہ ان کو داخلہ دلانے کے بعد کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملے کو کسی بھی طرح حل کر لیا جائے ورنہ شرپسند طاقتیں اس کی آڑ میں ملک کا ماحول خراب کرنے سے باز نہیں آئیں گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔