گلوبل صمود فلوٹیلا انسانیت نوازی کی روشن مثال...سہیل انجم

غزہ کے لیے انسانی ہمدردی پر مبنی ’گلوبل صمود فلوٹیلا‘ نے پچاس کشتیوں کے ذریعے امداد پہنچانے کی کوشش کی، مگر اسرائیلی افواج نے قافلے کو روک کر کارکنوں کو حراست میں لے لیا، جس کی عالمی سطح پر مذمت ہوئی

<div class="paragraphs"><p>گلوبل صمود فلوٹیلا / Getty Images</p></div>
i
user

سہیل انجم

ایک طرف غزہ میں حماس اسرائیل جنگ جاری ہے جس کے شکار بے قصور عوام بن رہے ہیں، دوسری طرف فلسطین کے برادر ملکوں کا رویہ لا تعلق ملکوں اور اجنبیوں جیسا ہے اور تیسری طرف دنیائے انسانیت میں چیخ و پکار مچی ہوئی ہے۔ اسی درمیان ایک خوش کن خبر یہ آتی ہے کہ تقریباً چالیس ملکوں سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں، ممبران پارلیمنٹ، وکلا، قانون دانوں اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم تقریباً پچاس کشتیوں میں امدادی اشیاء اور ادویات لے کر غزہ کی جانب رواں دواں ہیں۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ یومیہ بمباری میں سیکڑوں افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔ اہل غزہ پر مصنوعی قحط لاد دیا گیا ہے۔ اگر کوئی عالمی ایجنسی یا کوئی ملک ان کی اشیائے خوردونوش و ادویات سے امداد کرنا چاہتا ہے تو اسرائیلی افواج اس کوشش کو ناکام بنا دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے امدادی کارکنوں کو بھی اہل غزہ کی مدد کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ نتیجے کے طور پر بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں سب جہاں ایک طرف بمباری سے ہلاک ہو رہے ہیں وہیں دوسری طرف بھوک پیاس سے بھی مر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک ستر ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایسے میں جب امدادی کشتیوں کا قافلہ جسے ’گلوبل صمود فلوٹیلا‘ نام دیا گیا بحری راستے سے غزہ کے ساحل کی طرف بڑھنے لگا تو اہل غزہ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا نے اسے حیرت و استعجاب کی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا۔ انھیں بڑی مشکل سے یہ یقین آیا کہ انسانیت نوازوں کا یہ قافلہ واقعی جرات و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مقام پر جا رہا ہے جسے موت کا دہانہ کہا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل جس نے بھی غزہ کے محروموں و مظلوموں کی مدد کرنی چاہی اسے یا تو موت کی نیند سلا دیا گیا یا پھر اس کی زندگی اجیرن کر دی گئی۔ ان حالات میں بھی اس قافلے نے اپنا ارادہ ملتوی نہیں کیا اور وہ 31 اگست کو بارسلونا سے چل کر دو ستمبر کو غزہ کے ساحل کے قریب پہنچ گیا۔

لیکن اسرائیلی افواج نے اس قافلے کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ کشتیوں پر قبضہ کر لیا اور ان پر سوار امدادی کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔ جس پر عالمی سطح پر تشویش ظاہر کی گئی ہے اور اسرائیلی کارروائی کی مذمت کی جا رہی ہے۔ ترکی، کولمبیا، فرانس، اٹلی اور ملیشیا وغیرہ نے اسرائیلی افواج کی کارروائی پر شدید تنقید کی ہے۔ عالمی میڈیا پر اس کی مذمت کر رہا ہے۔ ادھر اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ زیر حراست کارکنوں کو ان کے ملک واپس کر دیا جائے گا۔ بہرحال جہاں ایک طرف صمود فلوٹیلا پر سوار کارکنوں نے انسانیت کی ایک تابندہ اور روشن مثال پیش کی وہیں اسرائیل نے ظلم و بربریت اور سفاکی و وحشت ناکی کی داستان رقم کی۔


اس کارروائی کو دیکھ کر غیر مہذب ادوار کی وہ فوجی مہمات یاد آگئیں جب طاقتور افواج دوسرے ملکوں پر چڑھائی کرتی تھیں اور وہاں کی دولت و ثروت کو لوٹ لیتیں اور انسانوں کو قتل کرکے کشتوں کے پشتے لگا دیتی تھیں۔ اس وقت دنیا میں قانون کا راج نہیں طاقت کا راج تھا جس کی وجہ سے یہ سب کرنا آسان تھا۔ لیکن اب تو دنیا مہذب ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ ہے۔ عالمی عدالت انصاف ہے۔ انسانی حقوق کے ادارے اور ایجنسیاں ہیں۔ عالمی قوانین ہیں۔ ان قوانین کی پامالی کے مرتکبین کے خلاف سخت کارروائیوں کے ضابطے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔

گلوبل صمود فلوٹیلا کوئی اچانک اور از خود بن جانے والا قافلہ نہیں ہے۔ اس میں چار بڑے اتحادیوں کی کوششیں شامل رہی ہیں۔ جن میں ’گلوبل موومنٹ ٹو غزہ‘ قابل ذکر ہے۔ اس سے قبل بھی فلوٹیلا یعنی امدادی قافلے نکلتے رہے ہیں۔ ’فریڈم فلوٹیلا کولیشن‘ بحری مشن کا پندرہ سالہ تجربہ رکھتا ہے۔ ’مغربی صمود فلوٹیلا‘ شمالی افریقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ اس سے قبل بھی فلسطین کے لیے امداد اور یکجہتی کی سرگرمیوں میں شامل رہا ہے۔ ملیشیا اور دیگر آٹھ ملکوں پر مشتمل ایک بحری قافلہ جس کا نام ’صمود نوسانتارا‘ ہے، غزہ کا محاصرہ توڑنے اور اہل غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کا ارادہ رکھتا تھا۔

گلوبل صمود فلوٹیلا کی ویب سائٹ کے مطابق اس مہم میں مختلف شعبہ ہائے حیات کی سرکردہ شخصیات شامل ہیں جن میں انسانی حقوق کے کارکن، ڈاکٹر، فنکار، مذہبی شخصیات، قانون داں، قانون ساز اور ملاح قابل ذکر ہیں۔ اس نے ایک اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی جس میں سویڈن کی عالمی شہرت یافتہ کم عمر ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، تاریخ داں لیونیکی الیکزوپولو، انسانی حقوق کارکن یاسمین اکار، سماجی کارکن تھیاگو اویلا، فلسطینی کارکن سیف ابو کشک اور اسی طرح کی متعدد شخصیات شامل ہیں۔

اس بحری قافلے میں تقریباً پچاس کشتیاں تھیں، جن میں پانچ سو افراد سوار تھے۔ انھوں نے باہمی رابطے کے لیے نیٹ ورک قائم کیا تھا۔ سفر کے دوران اس فلوٹیلا سے خبریں بھی نشر کی جاتی رہیں اور یہ بتایا جاتا رہا کہ وہ اب کہاں پہنچے ہیں اور اپنی منزل پر کب تک پہنچیں گے۔ اس سلسلے میں اتنا جوش و خروش تھا کہ پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ اس کے منتظمین نے اعلان کیا تھا کہ یہ مہم خالص انسانی نقطہ نظر سے تیار کی گئی ہے اور اس کا مقصد تشدد برپا کرنا نہیں۔ یہ ایک پر امن قافلہ ہے جس کا مقصد صرف اہل غزہ کی امداد ہے۔


لیکن اسرائیل نے اسے اپنی منزل تک نہیں پہنچنے دیا۔ اس نے پہلے ہی اس قافلے کو وارننگ دے دی تھی کہ وہ جنگی علاقے سے دور رہے۔ لیکن قافلے نے اس وارننگ کو نظرانداز کیا اور وہ منزل کی جانب رواں دواں رہا۔ اسرائیلی افواج نے ان کشتیوں پر قبضہ کرنے سے قبل قافلے سے رابطہ قائم کیا اور اس سے کہا کہ وہ جنگی علاقے کے قریب ہے لہٰذا اپنا راستہ بدل دے۔ اس نے قافلے کو جانے کے لیے ایک دوسری راہداری سجھائی۔ یعنی قافلہ اسرائیلی ساحلی شہر اشکیلون کے ساحل تک جائے جہاں سے مختلف چینلوں کے ذریعے غزہ کے لیے امداد پہنچائی جائے گی۔ لیکن ممکن ہے کہ اس کا مقصد قافلے کو گمراہ کرنا رہا ہو۔ کیونکہ اسرائیلی شہر میں جانا اور مختلف چینلوں کا مطلب ہے کہ امدادی اشیاء ضرورت مند اہل غزہ تک نہیں پہنچ پاتیں۔ بہرحال جو بھی وجہ رہی ہو قافلے نے متبادل راہداری اختیار کرنے سے انکار کر دیا۔

اسرائیل نے اس قافلے کو انسانی بنیاد پر تشکیل دیا جانے والا امدادی قافلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ اس نے اسے ایک سیاسی قافلہ قرار دیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ یہ شہرت طلبی کے لیے کیا جا رہا ہے اور جو لوگ اسرائیلی علاقے میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی کوشش کریں گے انھیں حراست میں لے کر ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے گا۔ اس پر بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کس منہ سے قانون کی بات کر رہا ہے جبکہ وہ خود تمام عالمی قوانین کو پامال کرتا آیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے اس قافلے کو کیوں روکا کیا اس کا کوئی تعلق حماس سے ہے۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ اس فلوٹیلا کے انتظام میں حماس کا براہ راست ہاتھ ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے غزہ میں ایسی دستاویزات ملی ہیں جن سے فلوٹیلا اور حماس کے مابین رابطے کا پتہ چلتا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر حماس اور فلوٹیلا کے درمیان کسی قسم کا کوئی رابطہ ہے بھی تو یہ کوئی غلط بات نہیں ہے۔ کیونکہ حماس ایک مزاحمتی تنظیم ہے جو اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف لڑ رہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ امدادی قافلے میں صرف امدادی اشیاء تھیں۔ ان پر نہ تو کوئی ہتھیار تھا اور نہ ہی کوئی غیر قانونی چیز۔ تو پھر ان میں اگر رابطہ ہے بھی تو یہ غلط کیسے ہو گیا۔

بہرحال ایک انتہائی مثبت، مستحسن اور انسانی نقطہ نظر سے اٹھائے جانے والے قدم کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گلوبل صمود فلوٹیلا نے اہل غزہ کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ایک کوشش کرکے انسانیت نوازی کا ثبوت دیا اور تاریخ میں اپنا نام لکھوا لیا۔ جہاں ایک طرف اسرائیل غیر انسانی تاریخ مرتب کر رہا ہے وہیں اس قافلے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس بے رحم دنیا میں انسانیت اب بھی زندہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔