ہماچل پردیش میں تنبیہوں کو نظر انداز کرنے سے آئی تباہی... پنکج چترویدی
جیولوجیکل سروے آف انڈیا کے مطابق ہماچل پردیش کے مجموعی جغرافیائی علاقہ کا 97.42 فیصد حصہ لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں ہے۔

فائل تصویر، آئی اے این ایس
دلکش اور پُرسکون ہماچل پردیش میں اِن دنوں موت کا سناٹا چھایا ہوا ہے۔ چھوٹی سی ریاست کا بڑا حصہ اچانک آئی تیز بارش اور زمین کھسکنے سے قبرستان بنا ہوا ہے۔ ایسے میں جہاں آفت نہیں آئی، وہاں کے لوگ بھی اندیشوں کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اساڑھ میں مانسون کی پہلی بارش کے ساتھ ہی کئی ضلعوں، خصوصاً کُلّو اور دھرمشالہ میں شدید بارش اور بادل پھٹنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ اس سے کئی مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ہے، جس سے سڑکیں رخنہ انداز ہو گئیں اور ٹریفک نظام متاثر ہوا۔ کُلّو اور دھرمشالہ ضلعوں میں 5 مقامات پر بادل پھٹنے کے واقعات پیش آئے، جس میں کم از کم 2 لوگوں کی موت ہو گئی اور 11 افراد لاپتہ ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتہ میں کم از کم 30 لوگوں کی موت کی تصدیق ہوئی ہے۔ کانگڑا کے کھنیارا علاقہ میں اندرا ہائیڈرو پروجیکٹ کے پاس فلیش فلڈ میں 20 مزدور بہہ گئے، جن میں 7 کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں، بقیہ کی تلاش جاری ہے۔ کُلّو کی سینج وادی میں 2000 سے زیادہ سیاح پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں بادل پھٹنے سے ایک ہی کنبہ کے 3 افراد بہہ گئے۔ دھرمشالہ-چترو-گگل راستہ اور اوپری شملہ علاقہ میں تاؤنی-ہاٹ کوٹی راستہ جیسے کئی اہم راستے لینڈ سلائیڈنگ کے سبب متاثر ہو گئے ہیں۔ ابتدائی سرکاری اندازہ کے مطابق 500 کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ اس میں گھر، گئوشالائیں، پُل، سڑکیں اور بجلی کے ٹرانسفر وغیرہ شامل ہیں۔ تنہا منڈی ضلع میں 24 گھر اور 12 گئوشالائیں زمین دوز ہو گئیں، 30 مویشی مارے گئے۔ ریاست میں 406 سڑکیں بند ہیں، جن میں سے 248 تنہا منڈی ضلع میں ہیں اور 994 ٹرانسفر بند پڑے ہیں۔ کہنا نہ ہوگا کہ 15 دن کی بارش نے ریاست کی ترقی کو 10 سال پیچھے دھکیل دیا۔
ابھی تو ساون اور بھادو آنا باقی ہے۔ افسوسناک یہ ہے کہ سائنسدانوں کے ذریعہ اس بارے میں دی گئی کئی ساری تنبیہیں فائلوں میں بند ہیں۔ سرکاری محکمے اپنے طریقے سے کام کر رہے ہیں، جبکہ پہاڑ ماحولیاتی تبدیلی کے متنوع منفی اثرات سے متاثر ہیں۔ یاد رکھنا ہوگا کہ گزشتہ ایک صدی میں ہماچل پردیش کی اوسط درجہ حرارت میں 1.6 ڈگری سلسیس کا اضافہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ اس سے موسم کا مزاج بگڑ رہا ہے اور اچانک تیز بارش ہو رہی ہے۔ ہماچل میں 2024 کے مانسون میں 18 بادل پھٹنے کے حادثات درج کیے گئے۔ گلوبل وارمنگ کے سبب فضا میں نمی کی مقدار بڑھ گئی ہے، جس سے شدید بارش اور بادل پھٹنے کے واقعات زیادہ پیش آ رہے ہیں۔ اس کی وجہ فطری ماحولیاتی تبدیلی سے زیادہ پہاڑوں سے جنگل کٹائی، شہرکاری اور آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، سیاحت کے نام پر گاڑیوں کی آمد و رفت بڑھنا، پہاڑوں پر بوجھ بڑھنا وغیرہ زیادہ ہے۔ ندیوں کی بہتی روانی روکنے سے زمین کٹاؤ، ندیوں کا اتھلا ہونا اور گلیشیر کے پگھلنے سے اچانک بڑھتی آبی سطح وغیرہ سے فضا میں نمی اتنی بڑھتی ہے کہ گزشتہ 5 سالوں میں کئی بار بادل پھٹنے کا واقعہ ہوا۔
اسی سال 15-14 فروری کو آئی آئی ٹی، بامبے میں اختتام پذیر دوسرے انڈین کرایوسفیئر میٹ (آئی سی ایم) میں آئی آئی ٹی روپڑ کے سائنسدانوں نے ایک ریسرچ پیپر پیش کر بتایا تھا کہ ہماچل ریاست کا 45 فیصد سے زیادہ حصہ سیلاب، لینڈ سلائیڈ اور برف کا تودہ گرنے جیسے آفات سے متاثر ہے۔ 5.9 ڈگری اور 16.4 ڈگری کے درمیان اوسط ڈھلان والے اور 1600 میٹر تک کی اونچائی والے علاقے خاص طور سے لینڈ سلائیڈ اور سیلاب دونوں کے لیے خطرناک ہیں۔ اس میٹنگ میں دنیا بھر کے تقریباً 80 گلیشیولوجسٹ، محققین اور سائنسداں شامل ہوئے۔ اتنی واضح تنبیہ کے باوجود بھی نہ سماج نے فکر کی، نہ ہی حکومت نے۔
نیشنل ریموٹ سنسنگ ایجنسی، اِسرو کے ذریعہ تیار ملک کے لینڈسلائیڈ نقشہ میں ہماچل پردیش کے سبھی 12 اضلاع کو بے حد حساس والے زمرہ میں رکھا گیا ہے۔ ملک کے مجموعی 147 ایسے اضلاع میں حساسیت کے نظریہ سے منڈی کو 16ویں مقام پر رکھا گیا ہے۔ یہ نمبر اور تنبیہ فائل میں سسکتی رہی اور اس بار منڈی میں تباہی کا خوفناک منظر سامنے آ گیا۔ ٹھیک یہی حال شملہ کا ہوا جس کا مقام اس فہرست میں 61ویں مقام پر درج ہے۔ ریاست میں 17120 مقامات لینڈسلائیڈ ممکنہ علاقہ کے طور پر نشان زد ہیں، جن میں 675 انتہائی حساس بنیادی سہولیات اور گنجان آبادی کے قریب ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ 133 جگہ چمبا ضلع میں، 110 منڈی میں، 102 کانگڑا میں، 91 لاہول-اسپیتی میں، 63 اونا میں، 55 کُلو میں، 50 شملہ میں اور 44 سولن وغیرہ میں ہیں۔ یہاں لینڈ سلائیڈ کے نظریہ سے کنّور ضلع کو سب سے خطرناک مانا جاتا ہے۔ گزشتہ سال بھی کنّور کے بٹسیری اور نیوگلسری میں 2 حادثات میں ہی 38 سے زیادہ لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ اس کے بعد کنّور ضلع میں لینڈسلائیڈ کو لے کر ہندوستانی جغرافیائی سروے کے ماہرین کے ساتھ ساتھ آئی آئی ٹی منڈی و رُڑکی کے ماہرین نے اسٹڈی کیا ہے۔
جیولوجیکل سروے آف انڈیا کے مطابق ہماچل پردیش کے مجموعی جغرافیائی علاقہ کا 97.42 فیصد حصہ لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں ہے۔ ہماچل حکومت کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل کے ذریعہ شائع ایک ’لینڈسلائیڈ ہیزارڈ رِسک اسسمنٹ‘ اسٹڈی نے پایا کہ بڑی تعداد میں ہائیڈرو پاور مقام پر زمین کھسکنے کا خطرہ ہے۔ تقریباً 10 ایسے میگا ہائیڈروپاور پلانٹ والی جگہ درمیانہ اور اعلیٰ جوکھم والے لینڈسلائیڈ علاقوں میں واقع ہیں۔
ریاستی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے مختلف ایجنسیوں کے ذریعہ سے سروے کر لینڈسلائیڈ متاثرہ 675 مقامات نشان زد کیے ہیں۔ تنبیہ کے بعد بھی کنّور میں ایک ہزار میگاواٹ کی کرچم اور 300 میگاواٹ کی باسپا پروجیکٹ پر کام چل رہا ہے۔ ایک بات اور سمجھنا ہوگا کہ حال میں بارش کا طریقہ بدل رہا ہے اور گرمیوں میں درجہ حرارت معمول سے کہیں زیادہ پر پہنچ رہا ہے۔ ایسے میں میگا ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کو فروغ دینے کی ریاست کی پالیسی کو ایک نازک اور ماحولیات کے تئیں حساس علاقہ میں نافذ کیا جا رہا ہے۔
اگر سنجیدگی سے دیکھیں تو یہ حالات بھلے ہی آفات سے بنے ہوں، لیکن ان آفات کو مدعو کرنے میں انسان کا کردار بھی کم نہیں ہے۔ جب دنیا بھر کی تحقیقیں کہہ رہی تھیں کہ ہمالیہ پہاڑ جیسے کم عمر پہاڑ پر پانی کو روکنے، تالاب بنانے اور غار بنانے کے لیے دھماکہ خیز مادوں کے استعمال کا انجام اچھا نہیں ہوگا، تب ہماچل کی آبی دھاراؤں پر چھوٹے بڑے بجلی پلانٹس لگا کر اسے ترقی کی علامت کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔
کہنے کو تو ریاست کے 50 مقامات پر آئی آئی ٹی، منڈی کے ذریعہ تیار کردہ پیشگی آفات انفارمیشن مشین لگائی گئی ہے۔ لینڈسلائیڈ جیسے آفات سے پہلے یہ لال روشنی کے ساتھ یہ مشی تیز آواز میں سائرن بجاتی ہے، لیکن اس مرتبہ آفت اتنی تیزی سے آئی کہ یہ مشین کام کے نہیں رہے۔
یہ بات کئی تحقیق میں کہی جا چکی ہے کہ ہماچل پردیش میں اندھا دھند ہائیڈرو پاور پروجیکٹس سے 4 قسم کی دقتیں آ رہی ہیں۔ پہلا اس کا جغرافیائی اثر ہے، جس کے تحت لینڈسلائیڈ، تیزی سے مٹی کا کھسکنا شامل ہے۔ یہ سڑکوں، کھیتوں، گھروں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ دوسرا اثر ہائیڈروجیولوجیکل ہے، جس میں دیکھا گیا ہے کہ جھیلوں اور زیر زمین آبی ذرائع میں آبی سطح کم ہو رہا ہے۔ تیسرا نقصان ہے بجلی پروجیکٹس میں ندیوں کے کناروں پر کھدائی اور بہہ کر آئے ملبہ کے جمع ہونے سے جنگلوں و چراگاہوں میں آبی جماؤ کا بڑھنا۔ ایسے پروجیکٹس کا چوتھا خطرہ ہے سیکورٹی میں کوتاہی کے سبب حادثات کا امکان۔
یہ سچ ہے کہ ترقی کا پہیہ بغیر اچھی سڑکوں اور توانائی کے گھوم نہیں سکتا، لیکن اس کے لیے ایسے پروجیکٹس سے بچا جانا چاہیے جو کہ قدرت کا انمول تحفہ کہے جانے والے ہمالیہ پہاڑ کی بنیادی شکل پر خطرہ ہوں۔ خصوصاً فطرت دوست سیاحتی سرگرمیوں کو سختی سے عمل درآمد کرنے کا وقت آ گیا ہے، ورنہ پوری ریاست پر اب وجود کا بحران منڈلا رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔