کیا ’بیٹی بچاؤ‘ کا نعرہ ’بیٹی دھمکاؤ‘ میں تبدیل ہو گیا؟

یہ حکومت بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ کا نعرہ لگاتی ہے لیکن بیٹیوں کو دھمکاتی بھی ہے۔ کہاں گیا اس کا نعرہ۔ اسے یہ اعتراف کر لینا چاہیے کہ اس کا یہ نعرہ کھوکھلا ہے اور صرف لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر آئی اے این ایس</p></div>

تصویر آئی اے این ایس

user

سہیل انجم

کیا ’بیٹی بچاؤ‘ کا نعرہ اب ’بیٹی دھمکاؤ‘ میں تبدیل ہو گیا؟ یہ سوال پہلے بھی بارہا پوچھا جاتا رہا ہے۔ لیکن جب سے ہندوستان کی چوٹی کی پہلوان بیٹیاں نئی دہلی کی احتجاج گاہ جنتر منتر پر دھرنے پر بیٹھی ہیں، اس سوال کی شدت بڑھ گئی ہے اور اب بیشتر لوگوں کی زبان پر یہی سوال ہے۔ وہ یہ سوال حکومت سے پوچھ رہے ہیں۔ لیکن حکومت ہے کہ کانوں میں تیل ڈالے، ہونٹوں پر قفل چڑھائے اور آنکھوں پر پٹی باندھے بیٹھی ہوئی ہے۔ اسے نہ کچھ سنائی دے رہا ہے اور نہ دکھائی۔ اسی لیے وہ کچھ بول بھی نہیں رہی ہے۔ یہ پہلوان بیٹیاں جنھوں نے کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں سونے اور چاندی کے تمغے جیت جیت کر دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کیا، آخر دھرنے پر کیوں بیٹھی ہیں۔ دراصل وہ اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر دھرنے پر ہیں اور پہلی بار نہیں بیٹھی ہیں بلکہ دھرنے پر ان کے بیٹھنے کا یہ دوسرا موقع ہے۔

انھوں نے بھارتی کشتی فیڈریشن کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ ایم پی اور بعض کوچز پر خاتون پہلوانوں کے جنسی استحصال کا الزام لگایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ برج بھوشن شرن رات میں خاتون پہلوانوں کو اپنے کمرے میں بلاتے تھے۔ ان کے مطابق یہ سلسلہ سالوں سے چل رہا تھا۔ خیال رہے کہ برج بھوشن مسلسل تین بار چار چار سال کے لیے فیڈریشن کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصے سے یہ سلسلہ جاری تھا۔ پہلوانوں نے اعلیٰ حکام کو اس بارے میں بتایا بھی۔ لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ چونکہ برج بھوشن شرن بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ ہیں اور ایک دبنگ سیاست داں سمجھے جاتے ہیں اس لیے ان کے خلاف شکایات پر کوئی کارروائی کبھی نہیں کی گئی۔


لہٰذا ان پہلوانوں نے جن میں اولمپک اور کامن ویلتھ گیمز میں سونے اور چاندی کے تمغے جیتنے والے پہلوان شامل ہیں، جنوری میں جنتر منتر پر دھرنا دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ کئی روز تک بیٹھے رہے لیکن نہ تو حکومت کے کسی ذمہ دار نے ان سے ملاقات کی اور نہ ہی ان کے دھرنے کو کوئی اہمیت دی۔ لیکن جب معاملہ عالمی میڈیا میں آیا تو حکومت نے عالمی شہرت یافتہ باکسر میری کوم کی صدارت میں ایک کمیٹی بنا دی۔ کمیٹی کو ہدایت دی گئی کہ وہ ایک ماہ کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے۔ اس دوران پہلوانوں کی جانب سے مرکزی کھیل وزیر انوراگ ٹھاکر، اڑن پری کے نام سے مشہور پی ٹی اوشا جو کہ ایم پی بھی ہیں اور کھیل وزارت کے ذمہ داروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان لوگوں نے کوئی ملاقات نہیں کی اور نہ ہی کمیٹی کی رپورٹ کو عام کیا گیا۔

اسی درمیان سات خاتون پہلوانوں نے دہلی پولیس میں برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی لیکن پولیس نے ایف آئی درج کرنے سے انکار کر دیا۔ ان سات خاتون پہلوانوں میں ایک نابالغ پہلوان بھی شامل ہے۔ پولیس نے ان لوگوں کو بھگا دیا۔ اس طرح جب کہیں بھی کوئی سنوائی نہیں ہوئی تو انھوں نے دوبارہ جنتر منتر پر دھرنا دینے کا فیصلہ کیا۔ پچھلی بار پہلوانوں نے سیاسی شخصیات کو دھرنے سے دور رکھا تھا۔ کسی سیاسی شخصیت کو وہاں آنے نہیں دیا تھا۔ لیکن اس بار انھوں نے اعلان کیا کہ جو بھی سیاست داں ان کی حمایت کے لیے آنا چاہے اس کا استقبال ہے۔ اب تو اپوزیشن کے بہت سے سیاست داں وہاں پہنچ رہے ہیں اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔


جب اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو پہلوانوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے ان کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے دہلی پولیس کو برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دی تب کہیں جا کر پولیس نے ایف آئی آر درج کی۔ حالانکہ اس موقع پر بھی وہ آناکانی کر رہی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے ایف آئی آر درج کرنے سے قبل جانچ کرنی ہے۔ یہ خوب تماشہ ہے۔ اپوزیشن لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر بغیر جانچ کے درج ہو اور حکمراں جماعت کے ایم پی کے خلاف ایف آئی درج کرنی ہو تو جانچ ہو۔ دھرنے پر بیٹھے پہلوانوں کا کہنا ہے کہ انھیں دہلی پولیس پر بھروسہ نہیں ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ برج بھوشن کو گرفتار کیا جائے۔

صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان پہلوانوں کے گھروں پر لوگ جا جا کر دھمکیاں دے رہے ہیں۔ وہ ان کو پیسوں کا لالچ بھی دے رہے ہیں اور دھرنا ختم کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جب شکایت موصول ہوئی تھی جبھی ایف آئی آر درج کی جانی اور برج بھوشن کو عہدے سے ہٹا دیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن چونکہ وہ بی جے پی کے ایم پی ہیں اس لیے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اسی درمیان پی ٹی اوشا نے ایک ایسا بیان دیا جس کی وجہ سے ان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ انھوں نے پہلوانوں کے دھرنے کے بارے میں کہا کہ اس سے ملک کی عزت مٹی میں مل رہی ہے۔


پہلوانوں اور ان کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جب یہی پہلوان میڈل جیت کر لاتے ہیں تو ملک کا نام روشن ہوتا ہے اور جب اپنی عزت وناموس کے تحفظ کی خاطر آواز بلند کرتی ہیں تو ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ حالانکہ پی ٹی اوشا بھی حکومت کی ناانصافی کی شکار ہو چکی ہیں۔ لیکن اب چونکہ وہ ایم پی بنا دی گئی ہیں تو سرکاری بولی بول رہی ہیں۔ حالانکہ وہ خود ایک عورت ہیں ان کو ان عورتوں کا درد سمجھنا چاہیے تھا۔ لیکن انھوں نے پہلوانوں کے خلاف ہی بیان دے دیا۔

اسی طرح مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی بیٹیوں اور عورتوں کی عزت کی خوب دہائی دیتی ہیں لیکن جب بی جے پی کے ہی ایک ایم پی کے خلاف جنسی ہراسانی کی شکایت کی جاتی ہے تو خاموش رہتی ہیں۔ صرف وہی نہیں بلکہ پوری حکومت خاموش ہے۔ یہ حکومت بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ کا نعرہ لگاتی ہے لیکن بیٹیوں کو دھمکاتی بھی ہے۔ کہاں گیا اس کا نعرہ۔ اسے یہ اعتراف کر لینا چاہیے کہ اس کا یہ نعرہ کھوکھلا ہے اور صرف لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے ہے۔ ورنہ اگر حکومت اس نعرے کے سلسلے میں سنجیدہ ہوتی تو اسے ان بیٹیوں کی عزت کی فکر ہوتی۔ لیکن وہ چاہتی ہے کہ کشتی فیڈریشن کے صدر کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے اور پہلوان بیٹیاں اپنا دھرنا ختم کر دیں۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ حکومت کا ’بیٹی بچاؤ‘ کا نعرہ ’بیٹی دھمکاؤ‘ میں بدل گیا ہے تو اس میں کیا غلط ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */