ایک بار پھر انصاف کا خون... سہیل انجم

گجرات تشدد کے ان واقعات میں نو واقعات بڑے مانے گئے جن کی جانچ سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل دی جانے والے ایس آئی ٹی نے کی تھی۔ ان بڑے واقعات میں نرودا پاٹیا کے علاوہ نرودا گام کا واقعہ بھی شامل ہے۔

<div class="paragraphs"><p>مایا کودنانی، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

مایا کودنانی، تصویر آئی اے این ایس

user

سہیل انجم

ابھی اترپردیش کے ملیانہ میں 63 مسلمانوں کے قتل عام کے 39 ملزموں کو عدالت کی جانب سے بری کیے جانے پر احتجاج کا سلسلہ بند بھی نہیں ہوا تھا کہ احمد آباد کے علاقے نرودا گام میں گیارہ مسلمانوں کے قتل کے 67 ملزموں کو بھی بری کر دیا گیا۔ اس سے قبل بلقیس بانو اجتماعی زیادتی اور قتل کے گیارہ مجرموں کو قبل از وقت معافی دے کر جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔ بلقیس بانو نے گجرات حکومت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے جس پر عدالت نے مرکزی اور ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کرکے تمام گیارہ مجرموں کی فائل طلب کر لی ہے۔

خیال رہے کہ 27 فروری 2002 کو گجرات کے گودھرا ریلوے اسٹیشن پر کھڑی سابرمتی ایکسپریس کے کوچ نمبر چھ میں آتش زدگی ہوئی تھی جس میں ایودھیا سے لوٹ کر آرہے 59 کارسیوکوں کی جل کرموت ہو گئی تھی۔ آتش زدگی کا یہ واقعہ بہت مبہم تھا۔ اگر چہ تحقیقاتی کمیشن نے اس واقعہ کی جانچ کی تھی لیکن بہت سے لوگ جانچ رپورٹ سے مطمئن نہیں ہوئے۔ ایک بڑے طبقے کا یہ خیال ہے کہ آگ لگی نہیں تھی بلکہ لگائی گئی تھی جس کا ایک سیاسی مقصد تھا۔ اس واقعہ کے سلسلے میں کئی مسلمانوں کو سزا ہو چکی ہے۔


اس واقعہ کے انتقام کے طور پر پورے گجرات میں بدترین نوعیت کے فسادات پھوٹ پڑے تھے جن کو انسانی حقوق کے اداروں اور کارکنوں نے فساد کے بجائے مسلمانوں کی نسل کشی قرار دیا تھا۔ اس وقت کی ریاستی حکومت پر ایسا الزام ہے کہ اس نے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف غصہ نکالنے کی چھوٹ دی تھی جس کے نتیجے میں جگہ جگہ مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک ہزار اور غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار افراد کی جانیں ضائع ہوئی تھیں جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

تشدد کے ان واقعات میں نو واقعات بڑے مانے گئے جن کی جانچ سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل دی جانے والے ایس آئی ٹی نے کی تھی۔ ان بڑے واقعات میں نرودا پاٹیا کے علاوہ نرودا گام کا واقعہ بھی شامل ہے۔ نرودا پاٹیا میں 97 مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا تھا جبکہ نرودا گام میں گیارہ مسلمانوں کو۔ ان میں سے بیشتر کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔ نرودا پاٹیا اور نرودا گام سمیت دیگر جن جن مقامات پر مسلمانوں کو قتل کیا گیا ان میں بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد، بی جے پی اور دیگر ہندو تنظیموں کے کارکن ملوث رہے ہیں۔


نرودا پاٹیا اور نرودا گام کے قتل عام میں بی جے پی کی سابق رکن اسمبلی اور سابق ریاستی وزیر مایا کودنانی، بجرنگ دل کا لیڈر بابو بجرنگی اور وشو ہندو پریشد کا لیڈر جے دیپ پٹیل بھی شامل تھے۔ عدالت نے نرودا پاٹیا کیس میں مایا کودنانی اور بابو بجرنگی کو مجرم قرار دیا تھا اور انھیں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ لیکن گجرات ہائی کورٹ نے 2018 میں مایا کودنانی کو بری کر دیا اور بابو بجرنگی کی سزا پر روک لگا دی تھی۔ اب احمد آباد کی خصوصی عدالت نے ان دونوں کو بری کر دیا ہے۔

حکومت گجرات کی ہدایت پر قائم کیے جانے والے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ جسٹس ناناوتی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ گواہوں کے بیان کے مطابق نروداگام میں مسلمانوں کی مدد کے لیے ایک بھی پولیس اہلکار موجود نہیں تھا اور وہ پوری طرح شرپسندوں کے رحم و کرم پر تھے۔ پولیس شام کو پہنچی تھی۔ مارچ 2017 میں مایا کودنانی نے عدالت سے اپیل کی تھی کہ وہ اس وقت کے بی جے پی صدر امت شاہ سمیت مزید 14 افراد کو ان کے دفاع میں گواہی دینے کے لیے طلب کرے۔ امت شاہ نے 18 ستمبر 2017 کو خصوصی عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے واردات کے روز کودنانی کو صبح ساڑھے آٹھ بجے ریاستی اسمبلی میں اور گیارہ سوا گیارہ بجے سول اسپتال میں دیکھا تھا۔


متاثرین کے وکیل شمشاد پٹھان نے اس فیصلے کو گجرات ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ صرف متاثرین کے خلاف نہیں ہے بلکہ خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) کے بھی خلاف ہے جس نے اس معاملے کی جانچ کرکے 68 افراد کو ملزم بنایا تھا۔ ہمارے پاس تمام ملزموں کے خلاف پختہ ثبوت تھے جن میں فورنسک لیبوریٹری جانچ رپورٹ اور ملزموں اور گواہوں کے سیل فونز کی لوکیشن بھی شامل تھی۔ انسانی حقوق کے کاکنوں اور سیاست دانوں کی جانب سے اس فیصلے پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ انصاف کے منافی ہے۔

انھوں نے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ گجرات میں قانون کی حکمرانی کتنی ہے۔ اگر حکومت اور جج حضرات یہ طے کر لیں کہ انھیں کسی کو سزا نہیں دینی ہے تو پھر کسی کا جرم کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو اسے بری کر دیا جائے گا۔ بقول ان کے یہ حکومت مجرموں کی پشت پناہی کرتی ہے۔ اس سلسلے میں وہ بلقیس بانو کیس کی مثال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جن کو عمر قید کی سزا ملی تھی حکومت نے ان کو شریف اور باکردار بتا کر معاف کر دیا اور جیل سے رہا کر دیا۔ انسانی حقوق کے کارکن ایس آئی ٹی کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔ بقول ان کے ایس آئی ٹی کے سربراہ آر راگھون اس وقت قبرص میں ہندوستان کے سفیر ہیں۔ جب کہ دوسرے رکن کرنل سنگھ تھے جنھیں بعد میں انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کا چیف مقرر کیا گیا تھا۔ ایس آئی ٹی کے ارکان نے سپریم کورٹ کی آنکھوں میں دھول جھونکی جس کا انھیں انعام ملا۔


سابق مرکزی وزیر اور رکن پارلیمان کپل سبل نے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم قانون کی حکمرانی کا جشن منائیں یا اظہار مایوسی کریں۔ نرودا گام میں 11 شہریوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا جن میں ایک 12 سال کی لڑکی بھی تھی۔ 21 سال کے بعد تمام 67 ملزموں کو بری کر دیا جاتا ہے۔ ہمیں قانون کی حکمرانی کا جشن منانا چاہیے یا اس کے دم توڑ دینے پر افسوس کرنا چاہیے۔ کیا یہ استغاثہ کی ناکامی نہیں ہے کہ وہ قصورواروں کو سزا نہیں دلا سکا۔ اس کیس میں پیروی کرنے والی سرکاری ایجنسی ملزموں کو رہا کرانا چاہتی تھی یا سزا دلانا۔ انھیں یقین ہے کہ استغاثہ کی جانب سے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی جائے گی۔ ان کے مطابق مجھے حیرت ہے کہ عدالتیں ناانصافی کے اس عمل کو جو کہ یکے بعد دیگرے مقدمات میں سامنے آرہی ہے، صرف دیکھتی رہیں گی۔

تجزیہ کار بھی عدالتی روش پر اظہار مایوسی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب عدالتیں زیادہ تر معاملات میں حکومت کے موقف کو جائز ٹھہرانے والے فیصلے سنا رہی ہیں۔ جج حضرات کو یہ امید رہتی ہے کہ اگر وہ حکومت کو خوش کریں گے تو سبکدوشی کے بعد ان کو کوئی اچھا عہدہ مل جائے گا۔ ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیں کہ جن جج حضرات نے حکومت کے موقف کی تائید میں فیصلے سنائے ہیں ان کو انعام مل گیا ہے۔ اس بارے میں سب سے بڑی مثال جسٹس گوگوئی کی ہے جنھوں نے بابری مسجد مقدمہ میں فیصلہ سناتے ہوئے بابری مسجد کی زمین مندر کے لیے دے دی۔ انھیں جلد ہی حکومت کی جانب سے انعام دیا گیا اور وہ راجیہ سبھا کے رکن بنا دیئے گئے۔ اسی طرح جسٹس عبد النذیر کو انعام کے طور پر گورنر بنا دیا گیا۔


بہرحال نرودا گام کے متاثرین نے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے انصاف کا قتل قرار دیا اور فیصلے کے دن کو سیاہ دن بتایا ہے۔ معاملے کے ایک گواہ 50 سالہ امتیاز احمد حسین قریشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے 17 ملزموں کی شناخت کی تھی جن میں وشو ہندو پریشد کے لیڈر جے دیپ پٹیل بھی شامل ہیں۔ میں نے دیکھا تھا کہ وہ بھیڑ کو مسجد اور مکانوں کو نذر آتش کرنے کے لیے مشتعل کر رہے تھے۔ میری آنکھوں کے سامنے شرپسندوں نے ایک خاندان کے پانچ لوگوں کو زندہ جلا دیا تھا۔ میں نے ان تمام لوگوں کی شناخت کی تھی۔ ہم اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ 21 سال گزر جانے کے باوجود ہمیں عدالت سے انصاف کی امید ہے۔ ان کے مطابق 2002 میں 11 لوگوں کو قتل کیا گیا تھا اور اب 2023 میں انصاف کا قتل کر دیا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔