سوال ٹیڑھے ہیں اور جواب ہیں نہیں، بری پھنسی حکومت... ظفر آغا

اپوزیشن کے سوالوں کے جواب حکومت کے پاس ہیں ہی نہیں۔ اب وہ اپوزیشن لیڈران کے خلاف صرف سختی سے پیش آ سکتی ہے۔ جتنی اپوزیشن کے خلاف سختی بڑھے گی، اتنا ہی اپوزیشن اتحاد مستحکم ہوگا

<div class="paragraphs"><p>وزیر اعظم نریندر مودی، تصویر یو این آئی</p></div>

وزیر اعظم نریندر مودی، تصویر یو این آئی

user

ظفر آغا

پچھلے کچھ دنوں کے اندر ملک کی سیاست نے ایک خطرناک موڑ لے لیا ہے۔ اب اس ملک میں کوئی بھی وزیر اعظم سے سوال نہیں کر سکتا ہے۔ اور اگر وہ یہ جرأت کرتا ہے تو اس کو اس کا خمیازہ بھگنا پڑے گا۔ تب ہی تو کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے لوک سبھا میں ہنڈن برگ رپورٹ پر وزیر اعظم سے یہ سوال کیا کہ اڈانی سے آپ کے کیا رشتے ہیں، تو بس راہل پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ پہلے سورت کی ایک عدالت نے ان کی لوک سبھا ممبری رد کر دی۔ پھر ایک مہینے کے اندر راہل گاندھی جیسی شخصیت کو سرکاری بنگلہ خالی کرنا پڑا۔ ایسا ہی کچھ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے ساتھ ہوا۔ انھوں نے وزیر اعظم سے یہ کہا کہ وہ ملک کے سامنے اپنی اس بی اے کی ڈگری کو پیش کریں جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس ہے۔ بس دو دن کے اندر کیجریوال کو سی بی آئی نے بلا کر ان سے 9 گھنٹے تک پوچھ تاچھ کی۔ ایسی ہی کچھ صورت حال کا سامنا جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک کو کرنا پڑا۔ ہوا یہ کہ ملک نے ایک انٹرویو میں یہ کہہ دیا کہ سنہ 2019 میں کشمیر میں جو سی آر پی ایف کے نوجوان مارے گئے تھے اس میں ’ہماری غلطی تھی‘۔ ستیہ پال ملک کا یہ کہنا ہے کہ جب سی آر پی ایف کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی بات ہوئی تو انھوں نے خود اس وقت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سے یہ درخواست کی تھی کہ ہوم منسٹری اس کام کے لیے ہوائی جہاز دے تاکہ سیکورٹی فورس محفوظ رہے۔ لیکن جہاز نہیں ملے۔ پاکستانی دہشت گردوں نے آخر اس کا فائدہ اٹھایا اور پلوامہ میں سی آر پی ایف جوانوں کو ایک بم دھماکہ کے ذریعہ مار گرایا۔ پھر تو ہندوستان کی جانب سے پاکستان کے خلاف بالاکوٹ ایئر اسٹرائیک کرنی پڑی۔ ستیہ پال ملک کا کہنا ہے کہ انھوں نے فون پر وزیر اعظم سے یہ بات کہی کہ یہ جوان تو ہماری غلطی سے مارے گئے، تو وزیر اعظم نے ان کو تاکید کی کہ وہ اس معاملے میں خاموش رہیں۔ اس کی غالباً وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بی جے پی نے 2019 لوک سبھا چناؤ میں بالاکوٹ ایئر اسٹرائک کو خوب بھنایا۔ بس اس انٹرویو کے دو دن بعد ستیہ پال ملک کو سی بی آئی نے پوچھ تاچھ کے لیے نوٹس دے دی۔

الغرض اب یہ کیفیت ہے کہ ملک میں راہل گاندھی سے لے کر نیچے تک وزیر اعظم کے خلاف کوئی ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکتا ہے۔ اگر وہ جرأت کرے گا تو اس کو اس بات کی قیمت چکانی پڑے گی۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسی کیا بات ہے کہ کوئی بھی وزیر اعظم سے ایسے سوال نہیں کر سکتا ہے۔ آخر کیوں! ظاہر ہے کہ کسی بات کی پردہ داری ہے، تب ہی تو سوال کرنے والے کو خمیازہ بھگنا پڑ رہا ہے۔ لیکن کچھ بھی ہو، بات یہ ہے کہ اب بھی اس ملک میں ایک جمہوری نظام قائم ہے۔ وہ بھلے ہی کھوکھلا ہو گیا ہو، لیکن اب بھی ملک میں چناؤ نہیں روکے جا سکتے ہیں۔ سنہ 2024 میں اگلا لوک سبھا انتخاب منعقد ہونے والا ہے۔ ظاہر ہے کہ حزب مخالف اس چناؤ میں انہی سوالوں کے جواب حکومت سے طلب کرے گی۔ یعنی یہ تین سوال اب اگلے چناؤ کے اہم ترین ایشو بن گئے ہیں۔ پہلا سوال تو یہ کہ اڈانی آخر مودی کے لگتے کیا ہیں! دوسرا، وزیر اعظم بی اے پاس ہیں کہ نہیں، اور اگر ہیں تو وہ اپنی ڈگری پیش کریں۔ اور تیسرا سوال یہ ہے کہ پلوامہ کیا حکومت کی غلطی کے سبب ہوا۔ یہ تینوں سوال اب بی جے پی کے لیے ٹیڑھی کھیر بن چکے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی سوال کا جواب حکومت کے پاس ہے نہیں۔ تب ہی تو سوال کرنے سے روکنے کے لیے سخت سے سخت قدم اٹھایا جا رہا ہے۔ بس یہ ملک کی سیاست کے لیے ایک خطرناک موڑ ہے۔ کیونکہ حزب اختلاف یہ طے کر چکا ہے کہ وہ ان تین سوالوں کے جواب حکومت سے طلب کرتا رہے گا، اور ادھر حکومت نے بھی یہ واضح کر دیا ہے کہ سوال کرنے والے کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرے گی۔


یعنی حکومت ان سوالوں کے اٹھنے کے بعد مصیبت میں پھنس چکی ہے۔ اب اس کے پاس صرف ایک ہی چارہ بچا ہے کہ وہ حزب اختلاف کے ساتھ سختی سے پیش آئے، لیکن اس سے حکومت کی پریشانی دور نہیں ہو رہی ہے۔ بلکہ اس حکمت عملی سے بی جے پی کو سخت نقصان ہو رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ وہ اپوزیشن لیڈر جو ابھی تک 2024 کے چناؤ کے لیے آپس میں مل بیٹھنے کو راضی نہیں تھے، اب وہ اپوزیشن اتحاد کے معاملے میں بے حد سنجیدہ ہو گئے ہیں۔ ادھر جب حکومت اپوزیشن لیڈروں کے خلاف سختی سے پیش آ رہی تھی تب بھی پہلے چنئی میں اسٹالن کی اپوزیشن کی کانفرنس بے حد کامیاب رہی۔ اس میٹنگ میں تقریباً ہر بی جے پی مخالف پارٹی کے نمائندے نے شرکت کی اور اس بات سے اتفاق کیا کہ اپوزیشن اتحاد بہت ضروری ہے۔ دوسری طرف بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ممتا بنرجی اور کیجریوال سے اپوزیشن اتحاد پر بات چیت کی اور دونوں لیڈران کا رویہ اس سلسلے میں بہت مثبت رہا۔ یعنی اس بات کے امکان بہت واضح ہو چکے ہیں کہ اگلے لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی کو متحدہ اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر یہ ہوا تو بی جے پی کو 2024 لوک سبھا چناؤ بھاری پڑ سکتا ہے۔

لب و لباب یہ کہ اپوزیشن کے سوالوں کے جواب حکومت کے پاس ہیں ہی نہیں۔ اب وہ اپوزیشن لیڈران کے خلاف صرف سختی سے پیش آ سکتی ہے۔ جتنی اپوزیشن کے خلاف سختی بڑھے گی، اتنا ہی اپوزیشن اتحاد مستحکم ہوگا اور بی جے پی کو چناؤ میں نقصان ہوگا۔ یعنی سوالوں کے جواب ہیں نہیں، اور حکومت بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Apr 2023, 12:11 PM