بالی ووڈ کے ابدی ’ہی مین‘ دھرمیندر کو الوداع!... حسنین نقوی

دھرمیندر کی زندگی قدیم فلموں کی معصومیت اور انسانی روح کی دیرپا گرمجوشی کے درمیان ایک پُل تھی۔ ان کی شخصیت عزم اور وقار کی اٹل نشانی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>دھرمیندر، تصویر سوشل میڈیا</p></div>
i
user

حسنین نقوی

پردے سے بھی بڑا ایک ستارہ

دھرمیندر سنگھ دیول کے 89 سال کی عمر میں انتقال کے ساتھ ہی ہندوستان نہ صرف اپنے عظیم ترین فلمی ستاروں میں ایک سے محروم ہو گیا بلکہ ہندی فلموں کے سنہری دور کی آخری علامتوں میں سے ایک کو بھی رخصت کر دیا۔ محبت سے ’بالی ووڈ کے ہی مین‘ کہلانے والے دھرمیندر نے کڑی مردانگی اور جذباتی گہرائی کو اس طرح جوڑا کہ وہ صرف ہیرو نہیں بلکہ ایک مکمل انسان محسوس ہوتے تھے۔ اُن کا دبنگ روپ، خاموش شرافت اور ہمہ گیر اداکاری نے انہیں نسلوں تک کے ناظرین کا محبوب بنا دیا۔ 1960 کی بلیک اینڈ وائٹ رومانوی فلموں سے لے کر 21ویں صدی کی ڈیجیٹل چمک تک، ہر دور میں انھیں پسند کیا جاتا رہا۔

دھرمیندر صرف ایک فلم اسٹار نہیں تھے، وہ ایک احساس تھے۔ ایک ایسے مثالی ہندوستانی ہیرو کا پیکر جو مضبوط مگر نرم دل، بہادر مگر شفیق، خواب دیکھنے والا مگر اپنی جڑوں سے کبھی جدا نہ ہونے والا ہو۔

پنجاب کے کھیتوں سے بمبئی کے اسٹوڈیو تک

8 دسمبر 1935 کو پنجاب کے ضلع لدھیانہ کے گاؤں نصرالی میں پیدا ہونے والے دھرمیندر کی ابتدائی زندگی دیہی ہندوستان کی سادگی کی جھلک تھی۔ اُن کے والد کیول کشور سنگھ دیول اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ وہ شخصیت جنہوں نے اُس لڑکے کی تربیت کی، جو آگے چل کر کروڑوں دلوں پر راج کرنے والا تھا۔


رام گڑھیا کالج پھگواڑہ سے 1952 میں انٹرمیڈیٹ مکمل کرنے کے بعد اُن کی دلچسپی سنیما کی طرف بڑھتی گئی۔ بمل رائے اور گرو دت کے فلم فیئر ٹیلنٹ ہنٹ نے انہیں ایک فیصلہ کرنے پر راضی کیا۔ وہ مالیر کوٹلہ کے ایک اسٹوڈیو میں اپنی تصاویر کھنچوانے گئے۔ یہی فیصلہ ان کی زندگی کا رخ بدلنے والا ثابت ہوا۔ اداکارہ و گلوکارہ ثریا کے مداح کی حیثیت سے وہ ان کی 1949 کی فلم ’دل لگی‘ چالیس بار دیکھنے میلوں پیدل چلتے تھے۔ فلم کے عظیم فنکاروں کے لیے اُن کی عقیدت زندگی بھر قائم رہی۔ 2004 میں ثریا کے انتقال پر اُن کے جنازے میں شامل ہونے والوں میں وہ چند لوگوں میں سے تھے، جو اُن کے پرانے زمانے کے وقار اور شکر گزاری کی مثال تھا۔

فلم فیئر کا نیو ٹیلنٹ ایوارڈ جیتنے کے بعد اُن کے لیے بمبئی کی فلم انڈسٹری کے دروازے کھلے، اور انہوں نے ارجن ہنگورانی کی فلم ’دل بھی تیرا ہم بھی تیرے‘ (1960) سے ڈیبیو کیا۔

صفِ اوّل کے ہیرو کے کئی رنگ

1960 کی دہائی میں دھرمیندر نے خود کو رومانوی ہیرو کے طور پر منوایا۔ اپنی دلکش شخصیت اور ٹھنڈی مٹھاس جیسی اداکاری کے ساتھ انہوں نے اس دور کی ممتاز اداکاراؤں مالا سنہا (انپڑھ، آنکھیں)، نندا (آکاش دیپ)، سائرہ بانو (آئی ملن کی بیلا) اور نوتن (بندنی، دل نے پھر یاد کیا) کے ساتھ یادگار کردار نبھائے۔ مینا کماری کے ساتھ اُن کی جوڑی، خاص طور پر ’کاجل‘ اور ’پھول اور پتھر‘ (1966) میں، فیصلہ کن ثابت ہوئی۔


’پھول اور پتھر‘ نے انہیں ملک کے نئے ایکشن اسٹار کے طور پر قبولیت دلائی۔ یہ اُس سال کی سب سے بڑی ہٹ ثابت ہوئی اور انہیں فلم فیئر کے بہترین اداکار زمرہ میں نامزدگی ملی۔ فلم کا ایک مشہور منظر (دھرمیندر کا نیم برہنہ ہو کر بے ہوش مینا کماری کو اٹھانا) بالی ووڈ کے نئے مردانہ ہیرو کی علامت بن گیا۔ لیکن دھرمیندر نے خود کو ایک ہی کردار تک محدود نہ رکھا۔ اُن کے ’ہی مین‘ کے تاثر کے پیچھے ایک نہایت حساس فنکار چھپا تھا۔ رشی کیش مکھرجی کی ’انوپما‘ (1966) اور ’ستیہ کام‘ (1969) میں اُن کی گہری جذباتیت بے مثال رہی۔ خاص طور پر ’ستیہ کام‘ آج بھی ہندوستانی سنیما میں اصول پسندی اور دیانت پر سب سے گہری فلم مانی جاتی ہے۔

1970 کی دہائی کے وسط تک دھرمیندر ہر رنگ کے اداکار بن چکے تھے... یعنی مزاح، المیہ، ایکشن، ہر شکل میں بے مثال۔ ’چپکے چپکے‘، ’دل لگی‘ اور ’نوکر بیوی کا‘ جیسی فلموں نے اُن کے مزاحیہ انداز اور اداکاری کی خوبیوں کو جاوداں کر دیا۔


سنہری جوڑی اور ایک لازوال کلاسک

دھرمیندر اور ہیما مالنی کی جوڑی بالی ووڈ کی تاریخ کی خوبصورت ترین آن اسکرین کہانیوں میں شمار ہوتی ہے۔ انہوں نے ’سیتا اور گیتا‘، ’راجا جانی‘، ’جگنو‘، ’ڈریم گرل‘، ’چرس‘ سمیت 2 درجن سے زیادہ فلموں میں ساتھ کام کیا۔ اسکرین کے باہر بھی ان کی محبت ایک داستان بنی، جو 1980 میں شادی پر ختم ہوئی۔ لیکن اُن کا سب سے لازوال شاہکار ’شعلے‘ (1975) ہے۔ ویرو کے کردار میں دھرمیندر نے شوخی، معصوم شرارت اور بے باکی کو اس طرح ملایا کہ یہ کردار ہندوستان کی ثقافتی پہچان بن گیا۔ چاہے پانی کی ٹنکی پر چڑھ کر محبت کا اظہار ہو یا بسنتی سے نوک جھونک، ویرو نے فلم میں روح پھونک دی۔

1970 کے آخر اور 1980 کی دہائی میں دھرمیندر نے ’دھرم ویر‘، ’قاتلوں کے قاتل‘، ’غضب‘، ’حکومت‘ جیسی ایکشن فلموں کے ذریعہ باکس آفس پر بادشاہت قائم رکھی، اور یہی اُن کی عوامی مقبولیت کا ثبوت تھا۔

گھر کا آدمی اور رہنما

اسکرین سے باہر دھرمیندر کی زندگی بھی اُن کی فلموں کی طرح بھرپور تھی۔ پہلی شادی پرکاش کور سے 1954 میں ہوئی، جن سے 4 بچے ہوئے۔ ان میں سنی اور بابی دیول شامل ہیں۔ دوسری شادی ہیما مالنی سے ہوئی، جن سے ایشا اور اہانا دیول پیدا ہوئیں۔ وہ حد درجہ خاندان دوست انسان تھے۔ اپنے پروڈکشن ہاؤس ’وجیتا فلمز‘ کے ذریعے انہوں نے سنی دیول کو ’بیتاب‘ (1983) اور بابی دیول کو ’برسات‘ (1995) میں متعارف کرایا۔ دونوں فلمیں سپر ہٹ رہیں۔ اس بینر نے ’گھائل‘ (1990) بھی بنائی، جس نے 7 فلم فیئر ایوارڈز اور نیشنل ایوارڈ جیتا۔ بعد میں انہوں نے اپنے بھتیجے ابھیشیک (ابھے دیول) کو ’سوچا نہ تھا‘ (2005) میں لانچ کیا۔ اُن کے آخری فلمی سالوں میں بھی اُن کی اداکاری میں وہی کشش برقرار رہی۔ ’لائف اِن اے… میٹرو‘، ’اپنے‘، ’یملا پگلا دیوانہ‘ سیریز اور ’راکی اور رانی کی پریم کہانی‘ (2023) اُن کے دیرینہ جادو کی یاد دہانی تھیں۔


اعزازات، انکساری اور شاعر والا دل

اگرچہ دھرمیندر اکثر افسوس کرتے تھے کہ انہیں کبھی فلم فیئر کا بہترین اداکار ایوارڈ نہ ملا، لیکن 1997 میں انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ لمحہ بھی یادگار تھا، جب دلِپ کمار نے پیار سے کہا ’’جب میں خدا سے ملوں گا تو پوچھوں گا کہ اُس نے مجھے دھرمیندر جتنا خوبصورت کیوں نہیں بنایا!‘‘

2012 میں حکومتِ ہند نے دھرمیندر کو پدم بھوشن سے نوازا۔ انہوں نے 2004 سے 2009 تک بیکانیر سے رکنِ پارلیمنٹ کی ذمہ داری بھی نبھائی، لیکن اُن کے دل کی دنیا ہمیشہ فلموں اور شاعری میں رہی۔ زندگی کے آخری سالوں میں وہ کرجات کے اپنے فارم ہاؤس میں گوشہ نشین ہو گئے، جہاں وہ اُردو شاعری لکھتے اور اپنے احساسات آن لائن شیئر کرتے تھے۔ اُن کی شاعری سادگی اور سوز کی حامل تھی، جو ان کی باطنی لطافت کا عکس تھی۔


ایک یاد، ایک روایت، ایک احساس

اب جب دھرمیندر رخصت ہو چکے ہیں، وہ صرف ایک تاریخ کا حصہ نہیں بنے، وہ ایک یاد، ایک روایت، اور ایک محسوس کیے جانے والے احساس میں بدل گئے ہیں۔ اُن کی موجودگی اب اسکرین پر نہیں، لیکن ہر اس دل میں باقی رہے گی جس نے اُن کی مسکراہٹ، اُن کی آواز، اُن کی معصوم شوخی اور اُن کی کھری انسانیت کو کبھی محسوس کیا ہو۔

دھرمیندر ایک ایسا چراغ تھے جن کی روشنی فلمی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ وہ ایسے مرد تھے جو طاقتور بھی تھے اور نہایت نرم دل بھی۔ وہ وہ ایسے ہیرو تھے جنہوں نے ہمیں ہنسایا، رلایا، سوچنے پر مجبور کیا، اور جو ہر کردار کے ساتھ ہمارے اندر ایک نئی محبت جگاتے رہے۔ وہ جسمانی طور پر تو دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، لیکن ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ایک وقت آئے گا جب لوگ انہیں صرف فلموں کا ستارہ نہیں، بلکہ اُس محبت اور وقار کی علامت کے طور پر یاد کریں گے جو وقت گزرنے کے باوجود ماند نہیں پڑتی۔ الوداع دھرمیندر جی... آپ کبھی فراموش نہیں کیے جائیں گے۔