دہلی کے مسلمانوں نے کیجریوال کو مسترد کر کے کانگریس کی حمایت کی... سہیل انجم

ایسے بیشتر معاملات ہیں جن میں عام آدمی پارٹی نے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ جس کی وجہ سے دہلی کے مسلمان اس سے ناراض ہو گئے۔

دہلی کے چوہان بانگر سے فتح یاب کانگریس کی امیدوار شگفتہ چودھری زبیر
دہلی کے چوہان بانگر سے فتح یاب کانگریس کی امیدوار شگفتہ چودھری زبیر
user

سہیل انجم

ابھی ابھی دو ریاستوں کے اسمبلی انتخابات، ایک لوک سبھا اور چھ اسمبلی حلقوں میں ضمنی انتخابات اور دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات مکمل ہوئے ہیں۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد گجرات کے نتیجے نے پورے ملک میں ایک شور برپا کر دیا ہے اور کچھ مبصرین کہنے لگے ہیں کہ بی جے پی کو ہرانا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ لیکن غیر جانبدار مبصرین صورت حال کا حقیقی تجزیہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان انتخابات میں بی جے پی جیتی نہیں ہاری ہے۔ گجرات پہلے سے ہی ہندوتوا کی تجربہ گاہ ہے۔ وہاں اگر بی جے پی جیت گئی تو کیا کمال کیا۔ کمال تو تب ہوتا جب وہ ہماچل پردیش بھی جیت جاتی، ساتوں ضمنی انتخابات بھی جیت جاتی اور دہلی میونسپل کارپوریشن بھی جیت جاتی۔

لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس نے ہماچل میں اپنی حکومت گنوا دی۔ وہاں کانگریس کی حکومت بن گئی ہے۔ اترپردیش کی کھتولی سیٹ پر جو کہ پہلے اس کے پاس تھی اسے منہ کی کھانی پڑی۔ ہاں رامپور اور بہار کے کرہنی حلقے میں اسے کامیابی مل گئی۔ یعنی کل سات میں سے صرف دو ضمنی انتخابات میں اسے کامیابی ملی ہے۔ کرہنی میں بعض اسباب سے مہا گٹھ بندھن کی شکست ہوئی لیکن رامپور میں مسلمانوں کو ووٹ ہی نہیں ڈالنے دیا گیا۔ ان کو پولیس کی جانب سے خوفزدہ کیا گیا۔ مارا پیٹا گیا۔ یہاں تک کہ خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا۔ 90 افراد کا میڈیکل کرایا گیا ہے۔ مسلم علاقوں میں صرف چار فیصد پولنگ ہوئی جبکہ ہندو علاقوں میں 80 فیصد ہوئی۔ اس کے باوجود الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ وہاں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ البتہ کچھ لوگوں نے اس معاملے کو سپریم کورٹ میں اٹھایا ہے جس پر آئندہ دنوں میں سماعت ہوگی۔


لیکن اس مضمون میں ہم دہلی کارپوریشن کے الیکشن کا تجزیہ کریں گے۔ اگر ہم نتیجے کو دیکھیں تو عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کو ہرا دیا ہے۔ کارپوریشن میں بی جے پی پندرہ برسوں سے اکثریت میں تھی۔ بی جے پی کی جانب سے متعدد مرکزی وزرا نے بھی پرچار کیا تھا۔ لیکن بہرحال اروند کیجریوال کی پارٹی نے بی جے پی کو شکست دے دی۔ عام آدمی پارٹی کا جب قیام عمل میں آیا تھا تو صرف دہلی کے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے مسلمانوں نے اس کی حمایت کی تھی۔ دہلی میں بھی مسلمانوں نے دل کھول کر اسے ووٹ دیا اور تین اسمبلی انتخابات میں اس کو کامیابی ملی۔ لیکن پہلی کامیابی کے بعد اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے اس نے اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔ بعد کے دو انتخابات میں اسے پھر کامیابی ملی۔

دہلی کے مسلمانوں نے کانگریس کا ساتھ چھوڑ کر عام آدمی پارٹی کا دامن تھام لیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ پارٹی ان کے مفادات کا تحفظ کرے گی۔ لیکن جب ان کے مفادات کے تحفظ کا موقع آیا یا ان کے سامنے مسائل کھڑے ہوئے تو وہ پیچھے ہٹ گئی۔ سی اے اے کے خلاف شاہین باغ سے جو آواز اٹھی تھی کیجریوال کی پارٹی نے اس کی نہ صرف یہ کہ حمایت نہیں کی بلکہ اس کے خلاف بیان دیا۔ کیجریوال کا کہنا تھا کہ پولیس کو ان کے ہاتھ میں دے دیا جائے وہ ابھی ایک گھنٹے میں دھرنا ختم کرا دیں گے۔ اسی طرح جب شمال مشرقی دہلی میں مسلم مخالف فسادات ہوئے تو دہلی حکومت غائب ہو گئی۔ کیجریوال نے ایک بار بھی فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔


انھوں نے مسلمانوں کی ذرا بھی اشک شوئی نہیں کی۔ مسلمان تین دنوں تک مارے کاٹے جاتے رہے اور ان کی دکان و مکان نذر آتش کیے جاتے رہے لیکن نہ تو کیجریوال کا کہیں پتہ تھا اور نہ ہی منیش سسودیا کا۔ کیجریوال کی حکومت نے ایک دم خاموشی اختیار کر لی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ان کی نہیں کسی اور ریاست میں فسادات ہو رہے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جب فسادیوں سے مسلمانوں کو بچانے کی خاطر عام آدمی پارٹی کے کونسلر طاہر حسین نے سرگرمی دکھائی اور ان پر فرقہ پرستوں اور میڈیا کی جانب سے فساد بھڑکانے کا الزام عاید کیا جانے لگا تو کیجریوال نے بلا سوچے سمجھے اور بلا تاخیر ان کو پارٹی سے معطل کر دیا۔ پولیس نے طاہر حسین کو گرفتار کر لیا اور وہ آج بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ جبکہ بی جے پی میں ایسا نہیں ہوتا۔ اگر بی جے پی کے کسی لیڈر کے خلاف کوئی الزام ہے تو پوری پارٹی اس کی پشت پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ بی جے پی لیڈر کپل شرما کے اشتعال انگیز بیانوں کے بعد فساد بھڑکا تھا لیکن پارٹی آج تک اس کا ساتھ دے رہی ہے۔

ان کے علاوہ بھی بیشتر ایسے معاملات ہیں جن میں عام آدمی پارٹی نے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ جس کی وجہ سے دہلی کے مسلمان اس سے ناراض ہو گئے۔ اس ناراضگی کا مشاہدہ کارپوریشن کے انتخابات میں کیا گیا۔ دہلی میں تین علاقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے۔ یہ ہیں جنوبی دہلی کا اوکھلا اسمبلی حلقہ، شمال مشرقی دہلی ضلع اور پرانی دہلی کے مٹیا محل اور بلی ماران اسمبلی حلقے۔ اوکھلا اور شمال مشرقی علاقے میں مسلمانوں نے عام آدمی پارٹی کو مسترد کرکے کانگریس کے ہاتھ کو مضبوط کیا۔


اوکھلا میں ابو الفضل انکلیو وارڈ سے عام آدمی پارٹی کے امیدوار عبد الواجد کو کانگریس کی امیدوار اور سابق کانگریس رکن اسمبلی آصف محمد خاں کی بیٹی اریبہ خان نے شکست دی۔ جبکہ ذاکر نگر وارڈ میں عام آدمی پارٹی کی سلمیٰ خان کو کانگریس کی امیدوار نازیہ دانش نے شکست دی۔ نازیہ دانش کے شوہر شعیب دانش تین بار سے مسلسل کامیاب ہوتے رہے تھے۔ اس بار اس سیٹ کو خواتین کے لیے مخصوص کر دیا گیا اور ان کی اہلیہ نے کامیابی حاصل کی۔ اوکھلا اسمبلی حلقے کی سریتا وہار سیٹ سے جہاں مسلمانوں اور ہندوؤں کی مشترک آبادی ہے، عام آدمی پارٹی کی جوہی خان نے بی جے پی کی امیدوار نیتو سے شکست کھائی۔ اوکھلا اسمبلی حلقہ عام آدمی پارٹی کے پاس ہے اور امانت اللہ خاں یہاں کے ایم ایل اے ہیں۔ لیکن وہ اپنے امیدواروں کو نہیں جتا سکے۔ خیال رہے کہ شاہین باغ ابوالفضل انکلیو میں آتا ہے جہاں سے سی اے اے مخالف تحریک کا آغاز ہوا تھا۔

اسی طرح شمال مشرقی دہلی میں مصطفی آباد وارڈ سے کانگریس کو کامیابی ملی۔ مجلس اتحاد المسلمین دوسرے نمبر پر رہی اور عام آدمی پارٹی تیسرے نمبر پر چلی گئی۔ اسی علاقے کے برج پوری سے عام آدمی پارٹی کی امیدوار آفرین ناز کانگریس کی نازیہ خاتون سے ہار گئیں۔ اسی علاقہ کے کبیر نگر میں عام آدمی پارٹی کے ساجد کانگریس کے ظریف سے شکست کھا گئے۔ چوہان بانگر سیٹ سے کانگریس کی شگفتہ چودھری زبیر نے عام آدمی پارٹی کی اسما بیگم کو ہرایا۔ جبکہ سیلم پور میں آزاد امیدوار شکیلہ بیگم نے جو کہ ہمیشہ نقاب میں رہتی ہیں، ان کا چہرہ کسی نے نہیں دیکھا ہے، کامیاب ہوئیں۔ وہ پہلے بھی وہاں سے کامیاب ہوئی تھیں۔


البتہ پرانی دہلی کے مٹیا محل اور بلی ماران اسمبلی حلقوں کی کارپوریشن کی سیٹوں پر عام آدمی پارٹی کامیاب ہوئی لیکن اس میں اس کا اپنا کوئی کردار نہیں ہے۔ مٹیا محل کے دبنگ لیڈر شعیب اقبال کی اس علاقے پر زبردست گرفت ہے۔ ان کے سامنے کسی کا ٹکنا آسان نہیں ہے۔ ان کی مقبولیت کی وجہ سے وہاں عام آدمی پارٹی کو کامیابی ملی۔ وہ کسی دوسری پارٹی میں ہوتے تو اسی پارٹی کو کامیابی ملتی۔ اسی طرح بلی ماران سے عام آدمی پارٹی کے عمران حسین ایم ایل اے ہیں۔ ان کی ساکھ بہت اچھی ہے۔ وہ دہلی حکومت میں وزیر بھی ہیں۔ انھیں مقبولیت حاصل ہے اور علاقے پر ان کی گرفت ہے۔ وہ بھی اگر کسی دوسری پارٹی میں ہوتے تو وہی پارٹی جیتتی۔ وہاں بھی عام آدمی پارٹی کے امیدواروں کی کامیاب میں پارٹی کا کوئی رول نہیں ہے۔

مجموعی طور پر دہلی کے مسلمانوں نے عام آدمی پارٹی کو مسترد کر دیا۔ انھوں نے اس کے مقابلے میں کانگریس کی حمایت کی۔ کانگریس کے جن امیدواروں کو کامیابی ملی ہے ان کا کام بھی ہے۔ خواہ آصف محمد خان ہوں یا شعیب دانش یا پھر مصطفی آباد اور اس علاقے کے دیگر امیدوار۔ مصطفی آباد کے سابق ایم ایل اے کانگریس کے حسن احمد کے بیٹے علی مہدی جو کہ دہلی کانگریس کے نائب صدر ہیں، دو نو منتخب کونسلروں سبیلہ بیگم اور نازیہ خاتون کے ساتھ انتخابی نتیجہ آنے کے اگلے روز ہی عام آدمی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ لیکن ان کے اس فیصلے کے خلاف عوام نے زبردست ہنگامہ کیا اور ان کا پتلہ نذر آتش کیا۔ لہٰذا انھیں پھر دونوں کونسلروں کے ساتھ کانگریس پارٹی میں واپس آنا پڑا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دہلی کے مسلمانوں نے کتنی شدت سے عام آدمی پارٹی کو مسترد کیا ہے۔ انھوں نے ایک بار پھر کانگریس کے امیدواروں کو کامیاب کرا کے یہ واضح کر دیا ہے کہ ان کے نزدیک کانگریس کی پالیسیاں ہی درست ہیں، دوسری پارٹیوں کی نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔