گمنام مجاہد آزادی: نواب میر گوہر علی خان صدیقی مبارزالدولہ... یوم وفات کے موقع پر

جانباز نواب گوہر علی خاں نے سن شعور میں پہنچنے کے بعد اپنے خاندان کی تقلید نہ کرکے نئی روش کا انتخاب کیا یعنی کمپنی بہادر کے خلاف بغاوت علم۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

شاہد صدیقی علیگ

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آصفیہ فرماں روا ہندوستان کے ان حکمرانوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے بیرونی تاجران فرنگ کا ہر موڑ پر ساتھ دیا لیکن اسی خاندان میں ایک ایسا حب وطن بھی گزرا جسے بچپن سے ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سائے تک سے بھی نفرت تھی، جنہیں دنیا نواب میر گوہر علی خاں صدیقی کے نام سے جانتی ہے جو آصفیہ خانوادے کے تیسرے حکمراں نواب میر اکبر علی خاں سکندر جاہ بہادر کے لخت جگر تھے۔ جن کی پیدائش 18/مارچ 1798ء کو پرانی حویلی کے آصف جاہی محل میں ہوئی۔ ان کی والدہ کا نام چاند بیگم تھا۔

جانباز نواب گوہر علی خاں نے سن شعور میں پہنچنے کے بعد اپنے خاندان کی تقلید نہ کرکے نئی روش کا انتخاب کیا یعنی کمپنی بہادر کے خلاف بغاوت علم۔ ان کے کمپنی مخالف جذبات کا علم آصف جاہ سوم سکندر جاہ بہادر کو اس وقت ہوا جب انہوں نے اپنے فرزند کو انگریز محافظ دستہ مہیا کرایا تو حب الوطنی سے سرشار جگر گوشہ نے انہیں اپنے محل میں تعینات کر نے سے صریحاً انکار کر دیا اور والد گرامی نواب سکندر جاہ کو قاصد کے ذریعہ پیغام بھیجا کہ میں مرنا پسند کروں گا لیکن کسی انگریز کو اپنے محل کا محافظ بنانا گوارا نہیں کروں گا۔


وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی انگریز دشمنی میں بتدریخ اضافہ ہوتا گیا۔ اسی دوران شہزادے کے درباری مرثیہ خواں اور ایک کمپنی خدمت گار درزی کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ میر گوہر علی نے درزی کو گرفتار کرلیا، جس کی رہائی کے لیے ریذیڈنٹ ہنری رسل کے فوجیوں نے ان کی ڈیوڑھی پر حملہ کر دیا، مگر ان کے سپاہیوں نے انگریز سپاہیوں کو دندان شکن جواب دیا۔ مہاراجہ چندو لعل کی ثالثی سے معاملہ ختم ہو گیا تاہم نواب گوہر کو پانچ سال قید وبند کی صعوبیتں برداشت کرنی پڑیں مگر ان کے پائے استقامت میں جنبش بھی نہ آئی۔ رہائی کے بعد نواب گوہر نے نواب کرنول رسول خان کے ساتھ مل کر 1829ء میں کمپنی کے خلاف ایک خفیہ پالیسی و ضع کی۔ جس کے مطابق جدید آلات حرب کے لیے رسول خان ایک اسلحہ خانہ قائم کریں گے جس کا مالی خرچہ مبارز الدولہ برداشت کریں گے۔ حالات سازگار ہوتے ہی مبارز الدولہ اور رسول خان کی مشترکہ فوجیں ایسٹ انڈیا کمپنی کا تختہ الٹ دیں گی اور اپنے بڑے بھائی نظام ناصر الدولہ کو شکست دیں کر مبارز الدولہ دکن کے صوبیدار کی عنان سنبھالیں گے، لیکن ان کی ہر حرکت پر انگریز حامی عناصر کی عمیق نظریں تھیں۔

جنہوں نے بروقت شہزادے کی تمام سرگرمیوں کی اطلاع انگریز ریذیڈنٹ کو پہنچا دی۔ جس نے فوراً نظام ناصرالدولہ کو تمام واقعات سے آگاہ کیا، لہٰذا بتاریخ 19 اپریل 1830ء نواب صاحب کو قلعہ گولکنڈہ میں نظر بند کردیا گیا، جہاں سے 28 اکتوبر 1831 کو آزادی ملی، مگر نواب مبارزالدولہ بچپن سے ہی اپنے ارادوں کے پکے تھے، جنہیں سرجھکانے کے بجائے کٹانا منظور تھا۔ چنانچہ کمپنی کے خلاف ایک قوی مورچہ تشکیل دینے کے لیے ہندوستان کے مختلف حکمرانوں سے خط وکتابت شروع کر دی۔ اسی دوران ایک خبر فضا میں گردش کرنے لگی کہ عنقریب ہندوستان پر روس اور ایران حملہ کرنے والے ہیں، جس کے پیش نظر انقلابیوں نے اپنی حکمت عملی کو حتمی شکل دی کہ جب روس اور ایران کی فوجیں دریائے سند ھ کے قریب پہنچ جائے تو ایک ساتھ تمام اہم مراکز پر بغاوت شروع کردی جائیں۔ مگر اسی بیچ نواب مبارز الدولہ اور نواب کرنول کا ایک مکتوب ریذیڈنٹ جے۔ یس۔فریزرکے ہاتھ لگ گیا۔ جسے دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے۔ بموجب مؤرخہ 15 جون 1839 کو نواب مبارزالدولہ کی تیسری گرفتاری عمل میں آئی اور گولکنڈہ کے موتی محل میں نظر بند کر دیا گیا، جن کے ساتھ ان کے دس ساتھیوں کو بھی محروس کرکے حوالات میں پہنچا دیا گیا۔


ریذیڈنٹ اور نظام نے جوڈیشل انکوائری کمیشن قائم کیا۔ کمیشن نے انہیں رسول خان کے ساتھ مل کر ایسٹ انڈیا کمپنی اور نظام کا تختہ الٹنے کی سازش کا مجرم پایا۔ کمیشن کا یہ بھی ماننا تھا کہ وہ سکندرآباد کے مسلمان سپاہیوں کو برانگیختہ کر نے کی ہر ممکنہ کوشش کر رہے تھے، جس کی پاداش میں نواب رسول خان کے تمام علاقوں پر مسخر کرکے جلا وطن کر دیا گیا اور مباررالدولہ کو تاعمر کے لیے قلعہ گولکنڈہ میں ڈال دیا گیا۔ جہاں سے نواب گوہر مبارزالدولہ کو 25/جون 1854ء کو موت کے فرشتوں نے آزاد کرایا، جنہیں درگاہ حضرت برہنہ شاہ کے احاطہ میں سپرد لحد کر دیا گیا۔

تھا مس ہربرٹ میڈوک کے مطابق: مبارز الدولہ نے دکن کے علاقے میں تحریک آزادی کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ نواب میرگوہر علی خان صدیقی مبارزالدولہ جنوبی ہند کے پہلے ایسے مجاہد آزادی تھے جن کا تعلق آصفیہ خاندان سے تھا۔جنہوں نے 10 جولائی 1806 ویلور بغاوت کی ناکامی کے بعد نئے سرے سے جدوجہد آزادی کی ٹوٹی ہوئی کڑیوں کو ازسرے جوڑنے کی کوشش کی، اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے تو ایک عظیم کارنامہ ہو تا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔