عظیم انقلابی شاعر- بسملؔ عظیم آبادی... یوم وفات کے موقع پر خصوصی پیش کش

غضب یہ ہے کہ اس انقلابی غزل کو کسی نے حسرت موہانی سے تو کسی نے رام پرساد بسمل سے منسوب کیا۔ جس کے متعلق دعوے اتنے وثوق سے پیش کیے گئے کہ بسمل عظیم آبادی ؔکی جگہ رام پرشاد بسمل ہی اس کے خالق بن گئے۔

<div class="paragraphs"><p>بسمل عظیم آبادی / سوشل میڈیا</p></div>

بسمل عظیم آبادی / سوشل میڈیا

user

شاہد صدیقی علیگ

یوں تو ہندوستان کی تحریک جدوجہد آزادی میں بلاتفریق ہرکس وناکس نے حصّہ لیا لیکن انگریزی غلامی کے خلاف عوام کو برانگیختہ کرنے کے اصل محرک ادباء اورشعراء ہی تھے جنہوں نے اپنے زور قلم سے برطانوی ایوانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ ایسے ہی انقلابی حلقے کے ایک ممتاز شاعر تھے بسملؔ عظیم آبادی، لیکن ستم بالائے ستم کہ انہیں تاریخ ہند میں مقام نہ مل سکا جس کے وہ یقینی طور پر حق دار تھے۔

بسملؔ عظیم آبادی کا اصل نام سید شاہ محمد حسن عرف شاہ جھبّو تھا۔ وہ 1901ء میں ضلع پٹنہ سے 30 کلومیٹر دور موضع ہر داس بیگہ کے سید آل حسن شاہ بیرسٹر کے گھر میں پیدا ہوئے، محض دو سال کی عمر میں ہی تھی بسمل کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا چنانچہ ان کی پرورش نانا سید مبارک حسین و ماموں خان بہادر سید شاہ محی الدین عرف شاہ کمال رئیس عظیم آبادی نے کی۔ آپ کے نانا اور ماموں دونوں شاعری کا ذوق رکھتے تھے۔ جس کے سبب ننہیال میں صو فیانہ اور شعری نشتیں آراستہ ہوتی رہتی تھیں، لہٰذا وہ کم عمری میں ہی شعری نکتوں سے واقف ہوگئے۔ انہوں نے جدید غزل کے امام شاد عظیم آبادیؔ سے شرف تلمذ حاصل کیا۔


جب بسمل سن شعور کو پہنچے تو پورے ملک میں قومی تحریکیں بام عروج پر تھی لہٰذا بسمل عظیم آبادی بھی علمی اور عملی طور پر جدوجہد آزادی کے پرخار راہوں پر نکل پڑے اور اپنے نوک قلم سے برطانوی حکومت کے خلاف جنگ کا ببا نگ دہل اعلا ن کر دیا اور ”سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے“ غزل تخلیق کی جو سرخم کرنے کے بجائے سر کو کٹانے کی دعوت دیتی ہے۔ جس نے جلد ہی ہمہ گیر مقبولیت حاصل کرلی۔ اس غزل پر ان کے استاد محترم شاد عظم آبادیؔ نے4 /مئی 1921ء کو اصلاح کی تھی۔ اس کا ایک مطلع ”سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے“ تکیہ کلام کی شکل اختیار کرگیا بموجب برٹش سرکار کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ آگ بگولا ہوکر انگریز حکام نے پریس ضبط کرلی اور گرفتاری کا وارنٹ شائع کر دیا تو بسمل عظیم آبادیؔ کو ایک عرصہ تک روپوشی کی زندگی بسر کرنی پڑی۔

بسمل عظیم آباد ی ؔکے پوتے منور حسن کے مطابق: ”بسمل عظیم آبادی نے اس غزل کو 1921ء میں کانگریس کے کلکتہ اجلاس میں پڑھی تھی، جو بعد ازیں قاضی عبدا لغفار کے رسالہ صبا میں 1922ء میں شائع ہوئی تو انگریزی فوج تلملا گئی۔“


غضب یہ ہے کہ اس انقلابی غزل کو کسی نے حسرت موہانی سے تو کسی نے رام پرساد بسمل سے منسوب کیا۔ جس کے متعلق دعوے اتنے وثوق سے پیش کیے گئے کہ بسمل عظیم آبادی ؔکی جگہ رام پرشاد بسمل ہی اس کے خالق بن گئے چنانچہ غزل کے اصل خالق کے بجائے رام پرساد بسملؔ کو وہ شہرت ملی جس کے حق دار بسمل عظم آبادیؔ تھے۔ ان کا شعری مجموعہ’حکایت ہستی‘ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے۔ 20/جون 1978ء کو بسمل عظیم آبادی رب حقیقی سے جا ملے۔

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

اے شہید ملک و ملت میں ترے اوپر نثار

لے تری ہمت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے

وائے قسمت پاؤں کی اے ضعف کچھ چلتی نہیں

کارواں اپنا ابھی تک پہلی ہی منزل میں ہے

رہرو راہ محبت رہ نہ جانا راہ میں

لذت صحرا نوردی دورء منزل میں ہے

شوق سے راہ محبت کی مصیبت جھیل لے

اک خوشی کا راز پنہاں جادو منزل میں ہے

آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار

آئیں وہ شوق شہادت جن کے جن کے دل میں ہے

مرنے والو آؤ اب گردن کٹاؤ شوق سے

یہ غنیمت وقت ہے خنجر کف قاتل میں ہے

مانع اظہار تم کو ہے حیا، ہم کو ادب

کچھ تمہارے دل کے اندر کچھ ہمارے دل میں ہے

مے کدہ سنسان خم الٹے پڑے ہیں جام چور

سرنگوں بیٹھا ہے ساقی جو تری محفل میں ہے

وقت آنے دے دکھا دیں گے تجھے اے آسماں

ہم ابھی سے کیوں بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے

اب نہ اگلے ولولے ہیں اور نہ وہ ارماں کی بھیڑ

صرف مٹ جانے کی اک حسرت دل بسملؔ میں ہے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔