کیا حکومت کے معاشی پیکیجوں سے تباہ حال معیشت بہتر ہو پائے گی؟... عبید اللہ ناصر

معیشت میں سب کچھ اچھا نہیں ہے، آر بی آئی نے پچھلے ہفتہ آگاہی دی تھی کہ ملک کی معیشت کا حجم رواں مالی سال میں 8.6 فیصد گھٹے گا، دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کے پیکیجوں سے معیشت میں کچھ بہتری آئے گی یا نہیں

وزیر مالیات نرملا سیتارمن / تصویر یو این آئی
وزیر مالیات نرملا سیتارمن / تصویر یو این آئی
user

عبیداللہ ناصر

ایک جانب ہندستانی معیشت کو رفتار دینے کے لئے وزیر مالیات نے گزشتہ دنوں تیسرے معاشی پیکج کا اعلان کیا، دوسری جانب اس اعلان سے کچھ ہی دن قبل ریزرو بینک آف انڈیا نے آگاہی دی ہے کہ ہندستان معاشی کساد بازار ی کے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ وزیر مالیات نرملا سیتارمن نے تیسرے معاشی پیکج کا اعلان کر کے معیشت کو مابعد لاک ڈاؤن ہونے والی معاشی تباہی سے باہر نکالنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ معیشت کی تباہی کا سلسلہ تو نوٹ بندی اور پھر اس کے بعد بنا مناسب تیاری کے لاگو کئے گئے جی ایس ٹی کے ساتھ شروع ہوا تھا، لیکن جلد بازی اور بنا پیشگی تیاری اور منصوبہ بندی کے محض 4 گھنٹوں کے نوٹس پر پورے ملک کو ٹھپ کرنے اور لاک ڈاؤن سے عام آدمی کو جو مشکلات ہوئیں اور معیشت کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اس کی بھرپائی میں ابھی بہت وقت لگے گا۔

حکومت نے تین قسطوں میں معاشی پیکج کا اعلان کر کے اس بھر پائی کی کوشش کی ہے۔ پہلے معاشی پیکج میں چھوٹی اور درمیانہ زمرہ کی صنعتوں کو قرض پر سود وغیرہ میں راحت کا اعلان کیا گیا تھا تاکہ وہ اپنی پیداواری سرگرمیاں شروع کر سکیں، دوسرے پیکج میں مرکزی حکومت کے ملازمین کے لئے مراعات کا اعلان کیا گیا تھا تاکہ وہ گھومیں پھریں، کچھ خریداری وغیرہ بھی کریں جس سے مارکیٹ میں پیسہ پہنچے، اور اب اس تیسرے پیکج میں اپنا گھر خریدنے کی خواہش رکھنے بے روزگاروں، مزدوروں، کسانوں، چھوٹے اور بڑے کاروباریوں کے راحت کا اعلان کیا گیا ہے۔ در اصل معیشت کو رفتار دینے کا اولیں اصول یہی ہے کہ کھپت بڑھائی جائے جس کے لئے عوام کی جیب میں پیسہ ہونا چاہئے۔ جب کھپت بڑھے گی تو پیداوار بڑھے گی، پیداوار بڑھے گی تو روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ اسی لئے راہل گاندھی سمیت حزب مخالف کے تمام بڑے لیڈروں نے اور رگھو رام راجن اور امرتیہ سین جیسے تمام بڑے ماہرین معاشیات نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کی لاک ڈاؤن کے اعلان کے ساتھ ہی عوام کو ایک مناسب رقم نقد دی جائے تاکہ ان کو روزمرہ کی ضروریات کی قلت نہ جھیلنا پڑے اور معاشی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ دنیا کے قریب قریب سبھی ملکوں نے یہی کیا تھا لیکن تب ہماری حکومت کو شاید اس کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی تھی۔ بہرحال دیر آید درست آید۔ کسی نہ کسی شکل میں معیشت کو رفتار دینے اور اسے پٹری پر لانے کا سلسلہ شروع تو کیا گیا۔


زراعت کے بعد رئیل اسٹیٹ ہی دوسرا زمرہ ہے جو سب سے زیادہ روزگار فراہم کرتا ہے۔ اس میں بڑے بڑے اعلی افسروں، انتظامی امور کے ماہرین، انجنیئر سے لے کر مزدوروں تک کو روزگار ملتا ہے۔ یہی نہیں تعلیم مکمل کر کے بہتر ملازمت نہ حاصل کر سکنے والے نوجوانوں نے بھی تھوڑی بہت رقم کا انتظام کر کے پلاٹوں کو خریدنے بیچنے کا روزگار شروع کیا اور سال میں دو چار پلاٹ بیچ کر بھی اچھی خاصی رقم کما لیتے تھے جو ان کی اوسط درجہ کی ملازمت سے ملنے والی تنخواہ سے بہتر رقم ہوتی تھی۔ ضرورت مند کسان اپنی زمین آسانی سے اچھے داموں میں فروخت کر دیتے تھے مگر نوٹ بندی کے بعد یہ زمرہ چرمرا کے بیٹھ گیا تھا۔ بڑے بڑے بلڈروں کے کھربوں روپے پھنس گئے، تعمیر شدہ اور نیم تعمیر شدہ عمارتیں یونہی پڑی ہوئی ہیں، اعلی افسران سے لے کر مزدور تک بے روزگار ہو گئے۔ نوٹ بندی کے ساتھ ساتھ حکومت نے کچھ ایسے قوانین بھی بنا دیئے جس سے مکانوں کی خرید فروخت بہت مشکل ہو گئی۔ یہ حقیقت ہے کہ اس زمرہ میں کالا دھن بہت لگا ہوا تھا لیکن ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ جو کالا دھن معیشت کا حصہ بن کر اسے فائدہ پہنچا رہا ہو، خاص کر روزگار فراہمی میں معاون ہو تو وہ محض ٹیکس چوری کا معاملہ رہ جاتا ہے۔ اس سے معیشت کو نقصان نہیں پہنچتا۔ نوٹ بندی کے جھٹکے سے یہ زمرہ ابھر بھی نہیں پایا تھا کہ جی اس ٹی اور آخر میں لاک ڈاؤن نے اس کی کمر بالکل ہی توڑ دی۔ اب حکومت نے معاشی پیکج کا اعلان کر کے اس میں نئی جان ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ حکومت کا اندازہ ہے کہ اس سے 78 لاکھ لوگوں کو روزگار ملے گا۔ نئے ضوابط کے تحت پہلے سرکل ریٹ اور طے شدہ قیمت میں فرق پر 10 فیصدی چھوٹ دی جاتی تھی جسے بڑھا کر بیس فیصدی کر دیا گیا ہے۔ دو کروڑ روپیہ تک کی رہائشی یونٹوں کے لئے یہ سہولت آئندہ جون تک نافذ رہے گی۔

تیسرے معاشی پیکج میں بے روزگاروں کی طرف بھی توجہ دی گئی ہے جس کے تحت لاک ڈاؤن کے دوران 15 ہزار روپیہ سے کم تنخواہ پانے یا اس سال یکم مارچ سے 30 دسمبر تک نوکری گنوانے والوں کو راحت ملے گی۔ ایمپلائز پروویڈنٹ فنڈ کے تحت رجسٹرڈ کمپنیاں اگر ملازمت دیتی ہیں تو انھیں اس کا فائدہ ملے گا۔ جس ادارہ میں پچاس سے کم ملازم ہیں اور وہ دو لوگوں کو ملازمت دیتی ہے تو اسے پروویڈنٹ فنڈ کا اپنا حصہ نہیں دینا ہوگا اور جس ادارہ میں پچاس سے زیادہ ملازم ہیں اور وہ پانچ لوگوں کو ملازمت دیتاہے تو اسے اس اسکیم کے تحت فائدہ ملے گا۔ یہ اسکیم اگلے سال تیس جون تک لاگو رہے گی۔ دوسری جانب مہاجر مزدوروں کے لئے پردھان منتری غریب کلیان روزگار یوجنا کے لئے دس ہزار کروڑ روپیہ کا انتظام کیا گیا جس سے دیہی معیشت کو رفتار ملے گی۔ یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ یہ منریگا کے تحت ملنے والی رقم ہے یا کوئی نئی اسکیم ہے۔ زراعت خاص کر کھاد سبسڈی کے لیے 65 ہزار کروڑ روپیہ مختص کیا گیا ہے۔


تیسرے معاشی پیکج میں کورونا کے ٹیکے پر تحقیقات کے لئے 900 کروڑ روپیہ مختص کیا گیا ہے۔ اس طرح حکومت اب تک 30 لاکھ کروڑ کے معاشی پیکج کا اعلان کر چکی ہے جو ہماری مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا 15 فیصدی ہے۔ تاخیر سے ہی سہی حکومت نے سہی سمت میں سہی قدم اٹھانا شروع کیا ہے۔ خاص کر تہوار، وہ بھی دیوالی اور دھنتیرس جیسے تہوار پر، جس میں ہر ہندو کے گھر میں کچھ نہ کچھ ضرور خریدا جاتا ہے، اس پیکج سے خریداری ضرور بڑھے گی اور مارکیٹ میں رونق واپس آئے گی۔ وزیر مالیات نرملا سیتا رمن کا بھی دعویٰ ہے کہ معیشت میں سدھار کے خاصہ اہم اشارے ملے ہیں، کمپنیوں کے کاروبار کی رفتار کا اشارہ دینے والے کمپوزٹ پرچیزنگ مینیجرس انڈکس (پی ایم آئی) اکتوبر میں 58.9 فیصدی رہا جو گزشتہ ماہ 54.6 فیصد تھا۔ بجلی کی کھپت میں 12 فیصدی کا اضافہ درج ہونے کا مطلب کارخانوں میں زیادہ کام ہونا ہے، یہ بھی ایک مثبت اشارہ ہے۔ جی ایس ٹی کی وصولیابی میں بھی دس فیصدی کا اضافه درج کیا گیا ہے۔

لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ معیشت میں سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ ریزرو بینک نے پچھلے ہفتہ ہی آگاہی دی تھی کہ ملک کی معیشت کا حجم رواں مالی سال میں 8.6 فیصدی گھٹ جائے گا۔ اس طرح لگاتار دو سہ ماہیوں میں مجموعی گھریلو پیداوار میں گراوٹ کے ساتھ ملک اپنی تاریخ میں پہلی بار کساد بازاری کے چنگل میں پھنس گیا ہے۔ یہی نہیں، لگاتار تیسری سہ ماہی میں بھی معاشی سکڑن کا اندازہ ہے۔ دوسری جانب معاشی پیکج کا اثر شیئر بازار پر پڑتا نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ لگاتار آٹھ دن کی تیزی کے بعد گراوٹ دکھائی دے رہی ہے اور معاشی حصص پر بھی دباؤ ہے۔ کھدرا مہنگائی کے معاملہ میں بھی صارفین کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے کھدرا مہنگائی بڑھ کر 7.61 فیصدی ہو گئی ہے جو نو مہینہ میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد ریزرو بینک کی جانب سے سود کی شرح میں کمی کر کے معیشت کو رفتار دینے کی کوشش کو جھٹکا لگ سکتا ہے۔ حالانکہ وزیر مالیات نے کہا ہے کہ حکومت قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کی قلیل اور وسط مدتی کوشش کر رہی ہے۔ دیکھتے ہیں معیشت پر ان تمام کوششوں اور معاشی پیکج کا کیا اثر پڑتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔